محمد آصف اقبال
سال 2017ختم ہوچکا اور نیا سال 2018کا آغاز ہو چکا ہے۔ گزشتہ سال جو ابھی چند لمحات پہلے ہے گزرا ہے امت مسلمہ ہند کے لیے نہ صرف تشویشناک بلکہ پریشان کن بھی رہا۔ لیکن اس تشویش کو صرف امت مسلمہ ہی نے محسوس نہیں کیا ہے بلکہ ملک کی دیگر اقلیتوں اور کمزور طبقات کے لیے بھی یہ سال بہت سارے ادھورے سوالات چھوڑ گیا ہے۔ جن سوالات کے جوابات اس نئے سال میں کسی حد تک ظاہر ہونے کے امکانات ہیں ۔ ساتھ ہی سال 2019اُن تمام لوگوں کے لیے اہم ثابت ہو گا جس اس ملک میں برسراقتدار ہیں تو وہیں وہ لوگ بھی جو اس ملک کے عام شہری ہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ 2جون2014میں محسن شیخ (پونے ) کا پہلا معاملہ بھیڑ کے ذریعہ تشدد کا سامنے آیا تھا جسے 2015اور2016میں مزید تقویت حاصل ہوئی۔ برخلاف اس کے سال 2017نے تشدد اور بربریت کے تمام پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اور حالیہ واقعہ افرازل کا جو سامنے آیا ہے اس نے اس مسئلہ کو ایک نئی شکل میں پیش کر دیا ہے۔
دوسری جانب مسلم پرسنل لا اور بابری مسجد کے مسئلہ کو بھی برسراقتدارحکومت نے سال 2017میں خوب کیش کیاہے۔ اور ابھی دو دن پہلے طلاق ثلاثہ پر جس طرح لوک سبھا میں بل پیش کیا گیا، اس پر بحث ہوئی، مختلف سیاسی پارٹیوں نے اس میں حصہ لیا اور اپنے افکار و کردار کوواضح کیا، اور آخر میں اس پر ووٹنگ کے بعد جس طرح بی جے پی کے خوشی کا بے انتہا اظہار کیا ہے۔ اس پورے عمل سے یہ بات حد درجہ ثابت ہو چکی ہے کہ ملت اسلامیہ ہند جن حالات کی جانب دھکیلی جا رہی ہے وہ تشویشناک ہی نہیں بلکہ بے انتہا خطرناک بھی ثابت ہونے والے ہیں ۔ ان حالات میں جہاں ملت کو اندورن خانہ اختلافات سے پرہیز کرنا چاہیے وہیں بیرون خانہ ایک مسائل کے حل کے لیے ایک نئے لائحہ عمل کے ساتھ پوری قوت کے ساتھ میدان میں عمل میں آنے کی ضرور ت ہے۔ نہیں تو وقت گزرتے دیر نہیں لگتی، جن قیاسات کے تذکرے جاری ہیں اور جن حالات سے ملت اسلامیہ ہند دوچار ہے، مزید مسائل کے دلدل میں دھسنتی چلی جائے گی۔
اس موقع پر یہ بات بھی ذہن نشیں رکھنی چاہیے کہ جس ملت کا ہم بار بار تذکرہ اور مختلف حوالوں سے تذکرہ کرتے ہیں تو ملت محمدیہ ہے اور ملت محمدیہ اس وقت تک مسائل سے نبرد آزما ہوتی رہے گی جب تک کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے پیغام اور اسوہ کو اپنی عملی زندگیوں میں نافذ نہیں کر لیتی۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ ملت کا ہر فرد اسلامی تعلیمات سے بھر پور واقف ہو اور زندگی کے جس دور سے بھی وہ گزررہا ہے اس میں اس پر مکمل عمل پیرا ہو۔ اس کے ساتھ جب وہ بدلتے ہندوستان میں ایک نئے لائحہ عمل کے ساتھ میدان میں آئیں گے توضرور ان کے مسائل کم ہوں گے یہاں تک کہ ختم ہوجائیں گے انشااللہ۔
موجودہ حالات جن سے ہم اور آپ دوچار ہیں ان میں ایک اہم خبر سامنے آئی ہے۔ جس میں نیشنل جانچ ایجنسی (این آئی اے) کی ایک اہم خصوصی عدالت نے 2008کے مالیگائوں بم دھماکہ معاملے میں سادھوی پرگیہ ٹھاکر، لیفٹنینٹ کرنل پرساد پروہت اور دوسرے ملزمین پر دہشت گردی کے الزامات میں مقدمہ چلانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایجنسی کی اس دلیل کو قبول کر رہی ہے کہ وہ ایک ہندوراشٹر بنانا چاہتے تھے اور دھماکہ دراصل اسی مقصد کو حاصل کرنے کی سمت میں اٹھایا گیا قدم تھا۔ جج ایس ڈی ٹیکالے نے 130صفحات کے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ملزمین پر مہاراشٹرآرگنائزڈ کرائم کنڑول ایکٹ(مکوکا)کے تحت مقدمہ چلانے کے لیے کافی ثبوت نہیں تھے۔ عدالت کے آرڈر کی کاپی 29دسمبر کو دستیاب ہوئیں ۔ خصوصی عدالت نے کہا کہ ملزمین پر مکوکا کے تحت تو مقدمہ نہیں چلے گا لین ان کو یو اے پی اے، آئی پی سی اور دھماکہ خیز مادہ سے متعلق قانون کی مختلف دفعات کے تحت مقدموں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
وہیں واضح رہنا چاہیے کہ کرنل پروہت کی رہائی کے بعد سے ہندو انتہا پسند حلقوں میں کافی خوشی منائی گئی تھی اس سے قبل سادھوی پرگیہ کو بھی ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا نے این آئی اے کے اس اہم خصوصی عدالت کے فیصلہ کو اُس زور و شور کے ساتھ عوام کے سامنے پیش نہیں کیا جس طرح اِن دو لوگوں کی رہائی کی خبر کو سامنے لایا گیا تھا۔ اس پس منظر میں اور اسی کے ساتھ دیگر واقعات اور معاملات کے حوالات کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ میڈیا اپنا وہ کردار ادا نہیں کر رہا ہے جو ایک آزادانہ میڈیا کو کرداراداکرناچاہیے تھا۔ اس کی غالباً بڑی وجہ یہی ہے کہ سرکاری میڈیا حکومت کی پالیسوں کا پابند ہوتا ہے تو وہیں کارپوریٹ میڈیا خبروں کو بھی مالی نفع اور نقصان کی بناپر عوام کے سامنے پیش کرتا ہے۔ کیونکہ کارپوریٹ میڈیا کا وجود ہی کار پوریٹ دنیا کو منافع پہنچانا ہے اور اسی مقصد کے تحت یہ میڈیا سینٹرس و چینلس وجود میں آئے ہیں ۔ اس لیے ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ حق کو حق کہیں گے بے معنی ہے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر کیا کیا جائے؟کہتے ہیں اس کا متبادل سوشل میڈیا ہے جس نے کسی نہ کسی حد تک ان مسائل کو پیش کیا ہے جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں نہیں آرہے تھے۔ بلکہ بعض مرتبہ الیکٹرانک میڈیا نے خبروں کو صرف اسی بنا پر کیش کرنے کی کوشش کی کہ وہ سوشل میڈیا میں بھر پور انداز میں نشر کی جا رہی تھیں ۔ لہذا ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال امن وا مان کو برقرار رکھنے اور عدل و انصاف کے قیام میں لایا جائے۔ ممکن ہے اس طرح کچھ مسائل اور ان کے حل کی جانب پیش قدمی یا کم از کم مسائل سے لوگوں کو روشناس کرنے میں مددملے۔ یہاں تک کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اور حکومت بھی اس پر عمل درآمد کے لیے مجبور ہو۔
سال 2017کے اختتام پر یہ بات بھی کسی حد تک واضح ہو گئی ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس جس کا کردار آزادی کے بعد ہی سے مسلمانوں کے تعلق سے مشکوک رہا ہے، وہ مسلمانوں کے لیے خیر کا باعث نہیں ہے۔ اس کی تازہ مثال سافٹ ہندتو پر عمل کرتے ہوئے گجرات کے الیکشن اور اس میں راہل گاندھی کا بڑی تعداد میں مندروں میں جانا، پوجاکرنا اور میڈیا میں اِن واقعات کی خوب تشہیر کروانا ہے، وہیں طلاق ثلاثہ پر جو بل بی جے پی نے لوک سبھا میں پیش کیا اور اس میں بظاہر کانگریس نے کسی حد تک مخالفت کی اس کے باوجود بل کے حق میں اپنا ووٹ دے کر صاف کردیا ہے کہ آئندہ سالوں میں بھی وہ یہی رویہ اختیار کرے گے۔ کیونکہ ہندتوکے علمبرداروں کا ووٹ صرف بی جے پی اور دیگر سیاسی پارٹیوں کو ہی نہیں چاہیے بلکہ کانگریس بھی اس دوڑ میں سب سے آگے ہے۔
لیکن سوال کرنے والے یہی سوال کرتے آئے ہیں کہ جب ایک کھے دل اور کھلی زبان کے ساتھ ہندتوکا نا نعرہ بلند کرنے اور اس کے نفاذ میں تعاون کرنے والی سیاسی پارٹی بی جے پی موجود ہے تو اُس سے کم تر ارادے کی حامل سیاسی پارٹی کانگریس کو وہی لوگ کیوں ووٹ دیں جو ہندتو کے قائل ہیں اور اس کے نفاذ کے خواہش مند ہیں ؟اب اس سوال پرکانگریس پارٹی اور اس کے نئے قائد راہل گاندھی اور ان کی شوریٰ کوغور و فکرکرناہے کہ وہ ملک میں امن و امان کے قیام اور ہمہ جہت ترقی کے لیے وہی طریقہ اختیار کرنا چاہتے ہیں جس پر بی جے پی عمل پیرا ہے یا ملک جن حالات سے دوچار ہے اور آئندہ دنوں مزید جن حالات سے دوچار ہوگا، کچھ نئے ایشوز اور نئے طریقوں کے ساتھ عوام کے سامنے آناچاہیں گے؟
آخر میں آج جس نئے سال2018کا آغاز ہو رہا ہے اس میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ تونیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی۔ اور وہ بھی ایسی نئی صبح و شام جس میں اشتعال پسندی سے پرہریز کرتے ہوئے نئے حوصلوں اور ولولوں کو جلا بخشنے کا موقع میسر آئے۔ لیکن اس کام کو صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے خیر امت قرار دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ خیر امت اپنے وجود سے اس بات کو ثابت کرنے کی پوزیشن میں آجائے!
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)