-
کیا مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ ممکن ہے؟
- سیاسی
- گھر
کیا مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ ممکن ہے؟
529
m.u.h
08/09/2023
0
0
تحریر:عادل فراز
اٹھارویں صدی کے اواخر میں جب نپولین نے مصر پر حملہ کیاتو مرادبے نے جامع ازہر کے علما کو جمع کرکے ان سے موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے مشورہ کیا۔علمائے ازہر نےبا اتفاق یہ رائے دی کہ جامع ازہر میں صحیح بخاری کاختم شروع کردیناچاہیےکہ یہ حصول مقاصد کے لئے تیر بہ ہدف ہے ۔مرادبے قوت فیصلہ سے عاری تھا اس لئے اس نے علما کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے صحیح بخاری کا عمل شروع کروادیا۔لیکن ابھی صحیح بخاری کا ختم،ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ اہرام کی لڑائی نے مصر سلطنت کا خاتمہ کردیا۔مراد بے شکست کھاکر فرار ہوگیا اور یک عرصے تک گوریلا جنگوں میں مصروف رہا،مگر مصری سلطنت کی بازیافت نہیں ہوسکی۔ناعاقبت اندیشانہ سلسلہ یہیں نہیں تھما ۔انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسی فوجیوں نے بخارا کا محاصرہ کیاتو امیر بخارا نے فوجی مقابلے کے بجائے حکم دیاکہ تمام مدرسوں اور مسجدوں کے مناروں سے ’ختم خواجگان ‘ پڑھاجائے ۔اُدھر روسی توپیں شہر کا حصار منہدم کررہی تھیں اِدھر لوگ ختم خواجگان کے حلقوں میں بیٹھے ’’ یا قاضيَ الحاجات ویَا کافيَ المہمات یا دافعَ البلیّاتِ یا حلّ المشکلات‘‘ کا وظیفہ پڑھ رہے تھے ۔نتیجہ یہ ہواکہ ایک طرف ’ختم خواجگان ‘ کا عمل پورا ہوا اور دوسری طرف روسی فوجیں شہر میں داخل ہونے لگیں ۔تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات مندرج ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ مسلمان کس تیزی کے ساتھ قوت عمل سے محروم ہوتے گئے ۔صوفیااور دانش سے عاری علما نے انہیں اورادووظائف میں الجھادیا ۔مسلمان خانقاہوں میں بیٹھے ’اللہ ہو‘ کے نعرے بلند کرتےرہے اور ان کی ریاست لٹتی رہی ۔صوفیا مظلوم عوام کوصبروتوکل کی تلقین کرتے رہے ،باہرنکلےتو معلوم ہواکہ انقلاب آچکاہے ۔اگر دعائوں اور وظائف سے انقلاب رونما ہوتا تو پیغمبر اسلامؐ کو فوجی تدبیروں کی ضرورت نہیں ہوتی ۔دشمن کے حملوں سے محفوظ رہنے کے لئے شہر کے اطراف میں خندق نہ کھدواتے ۔ہرعمل کا ایک صحیح اور معین وقت ہوتاہے ۔میدان جنگ میں تو نماز بھی مختصر پڑھی جاتی ہے،اب اس سے زیادہ شریعت کی زمانہ شناسی پر مزید کیابات ہوسکتی ہے ۔
حضور ختمی مرتبتؐ کے بعد مسلم حکمرانوں نے اسلام کو پور ی دنیا میں فروغ دیا ۔ایسانہیں ہے کہ وہ تمام حکمران مذہبی اصولوں کے پابند اور دیندار تھے لیکن ان حکومتوں میں موجود دوسرے افراد دین کےمخلص اور ملت کے ہمدرد تھے ۔انہوں نے بلاتفریق عقائد باہم جنگیں لڑیں اور سرحدوں کو تسخیر کرتے رہے ۔اس مہم کے دوران حکمرانوں کے نظریاتی حریف بھی ان کی مدد سے باز نہیں رہے بلکہ اپنا بھر پور تعاون پیش کیا۔بنوامیہ اور بنوعباس کےعہد میں مسلمان ہندوستان تک پہونچے جبکہ دونوں خلافتوں میں حکمرانوں کی شخصی مذہبی حالت ناگفتہ بہ تھی ۔لیکن مسلمانوں کے اتحاد نےانہیں دنیا پر مسلط کردیا ۔رفتہ رفتہ مسلمانوں میں احساس برتری نفوذ کرگیا اور قوت عمل دم توڑنے لگی ۔دولت کی فراوانی اور پُرتعیش زندگی نے انہیںجفاکشی سے محروم کردیا۔ورنہ جس عہد میں خلافت عثمانیہ کا پرچم دنیا پر لہرارہاتھا اس وقت اس حکومت کے فرماں روا حکومتی مصلحتوں اور عوامی تقاضوں کی تشخیص کے بجائے شخصی مفاد میں الجھے رہے ۔استعمار اور استکبار کی سازشوں سے بے خبر آرام دہ محلوں کے نرم و گداز بستروں میں خواب خرگوش کے مزے لیتےرہے ۔مآل آخر سلطنت عثمانیہ استعماری سازشوں کی نذر ہوگئی اور دائرۂ اثر ایک ملک تک سمٹ کررہ گیا ۔وہ بھی اس قدر بے اثر کہ نہ قومی زبان محفوظ رہی اور نہ اسلامی تہذیب و ثقافت ۔ہم آج اسی دوراہے پر کھڑے ہوئے ہیں ۔زبان حالت نزع میں ہے اور تہذیب و ثقافت مائل بہ زوال ہے ۔
مغلیہ اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی مسلمان عرصۂ دراز تک یہ باور نہیں کرسکے کہ ان پر برطانیہ کی بالادستی قائم ہوچکی ہے ۔وہ اب بھی احساس حکمرانی اور اقتدار کی خوش گمانی میں جی رہے تھے ،جس نے ان کے سیاسی شعور پر کاری ضرب لگائی ۔ماضی عبرت کے لئے ہوتاہے لیکن مسلمانوں نے عہد پارینہ پر افتخارکو ترجیح دی ۔انہوں نے کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ مسلم حکومت کے زوال کا احتساب کیاجائے بلکہ وہ بادشاہوں کی سیرت کو حجت اور ان کے اعمال کو سنت سمجھنے لگے ۔چونکہ ان کے آباء و اجداد مسلم حکومتوں میں اہم عہدوں پر رہ چکے تھے اس لئے انہوں نے حکمرانوں کے دفاع کو اپنا شرعی اور اخلاقی فریضہ قرار دیا۔ان کے ظلم و تشدد کی شرعی توجیہات کرنے لگے ۔جس طرح بادشاہوں کے دربارمیں موجود مفتی اور فقیہ ان کے غیر متشرع اعمال کے شرعی جواز تلاش کرتے تھے ۔یہ روش مسلمانوں کی نفسیات کا حصہ بن گئی اور انہیں اس کا اندازہ بھی نہیں ہوا۔اس کا نقصان یہ ہواکہ مسلمان سماجی اور سیاسی عینیت سے ناواقف رہے اور رفتہ رفتہ ان کی نکیل دوسروں کے ہاتھوںاوراد میں چلی گئی ۔برطانوی نظام کے خاتمے کو مسلمان نشاۃ ثانیہ سے تعبیر کررہے تھے جبکہ ان کی قیادت نشاۃ ثانیہ کے اسرارورموزسے ناواقف تھی ۔ایک طرف تو تقسیم ہند کی حمایت کی جارہی تھی اور دوسری طرف جامع مسجد کی سیڑھیوں سے پاکستان کے قیام کی مخالفت ہورہی تھی ۔قیادت ایک مسلم سیکولر ریاست کا اعلان کررہی تھی اور مسلمان متشرع حکومت کا قیام چاہتے تھے ۔قیام پاکستان کے بعد سیکولر ریاست کا نظریہ دم توڑ گیا اور اقتدار پر فوجی نظریہ مسلط کردیاگیا ۔اس پر ستم یہ ہواکہ نظام پاکستان کو نظام مصطفیٰ سے تعبیر کیاجانے لگا اور لبرل حکمران ریاست مدینہ کے سنہری خواب دکھلانے لگے ۔متضاد نظریات کی بناپر فکری تصادم رونما ہوا جس نے پاکستان کو مذہبی شدت پسندی کی راہ پر ڈال دیا۔
ہندوستان میں اس کے برعکس ہوا۔ہندوستان میں موجود مسلمان تقسیم ہند کا موافق نہیں تھا ۔انہیں انتخاب کا حق دیاگیا تو انہوں نے پاکستان کے قومی نظریے کو مسترد کردیا ۔اس وقت مسلمان یہ باور کررہاتھاکہ ہندوستان میں انہیں اکثریتی طبقے کے برابر حقوق دیے جائیں گے ۔ان کے ساتھ سوتیلارویہ روانہیں رکھا جائے گا ۔اس ملک میں ان کی حیثیت ثانوی توہوسکتی ہے لیکن حیثیت زیر سوال نہیں ہوگی ۔مگر آزادی کےبعد قیادت کی ناعاقبت اندیشی نے مسلمانوں کو دیوار سے لگادیا۔اس کے بعد قیادت پر کاری ضرب لگائی گئی اور مسلمان کو بے دست و پا کردیا گیا ۔ملت کی رہنمائی کے لئے اگر کسی نے مخلصانہ جدوجہد شروع کی تو اس کے وقار کو دائوں پر لگادیا گیا ۔اس کانتیجہ یہ ہواکہ مخلص افراد گوشہ نشینی پر مجبور ہوگئے اور مفاد پرست ملت پر مسلط ہوکر ننگاناچ کرنے لگے ۔اس پر ستم یہ ہواکہ قیادت کی باگ ڈور علما کو سونپ دی گئی ۔علما مدرسوں اور مسجدوں سے نکل کر سیاسی گلیاروں میں گھومتے نظر آئے ۔جن سروں پر صافے اور عمامے ہوتےتھے ان پر رنگ برنگی ٹوپیاں سجنے لگیں ۔ماتھے پر قشقہ کھینچا اور گلے میں زنار کی مالا ڈال لی ۔اپنے شخصی مفاد کے حصول کے لئےپوری قوم کو تھالی میں سجاکرسیاست مداروں کو پیش کردیا گیا ۔موجودہ بدتر قومی صورت حال کے لئے علما کی سیاسی قیادت کو ذمہ ٹھہرایا جانا چاہیے ۔اب بھی یہ خنّاس ان کے دماغوں میں ہے کہ ملت کی رہنمائی ان کے علاوہ کوئی دوسرانہیں کرسکتا۔جس وقت ارسطو ’مثالی ریاست ‘ قلم زد کررہا تھا ،اس نے شاعروں کو ریاست سے خارج کردیا تھا ۔اس نے کہاکہ شاعروں کا ہونا کسی بھی ’مثالی ریاست ‘ کے لئےخوش آئند نہیں ہے کیونکہ ان کے قول و فعل میں تضادہوتاہے ۔اگر ارسطو نےعلماکا سیاسی کردار ملاحظہ کیاہوتا تو وہ انہیں بھی ’ریاست بدر‘ کردیتا۔
موجودہ سیاسی و سماجی منظر نامہ مسلمانوں کے خلاف ہے ۔اس کے باوجود سیاسی جماعتوں میں نمائندگی اور ان کےجلسوں میں شرکت چہ معنی دارد؟ اگر ہمارے خودساختہ قائدین کے پاس ملت کے لئے کوئی لایحۂ عمل ہے تو اس پر عمل کیوں نہیں ہوتا؟ قرآن مجید میں تبدیلی کا مطالبہ ہے اور شریعت ہد ف تنقید ہے ۔مسلمانوں کی جان ،مال اور ناموس شرپسندوں کے لئے حلال کردی گئی ہے۔مذہبی عمارتیں تو ہمیشہ زد پر تھیں اب گھروں کو منہدم کیاجارہاہے ۔ کبھی ہماری سیاسی حیثیت زیرسوال تھی اب شہریت زیر بحث ہے۔ ایسی ناگفتہ بہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے مزاحمتی آوازوں کاہونا ضروری ہے ۔مگر جو لوگ ملت کےسروں پر عذاب کی صورت مسلط ہیں وہ جامع ازہر کے علما اور امیر بخارا کی طرح صحیح بخاری کے ختم اور ’ختم خواجگان‘ کی تلقین کررہے ہیں۔