-
اڈانی گروپ پھر بدعنوانی کے الزامات کی زد میں
- سیاسی
- گھر
اڈانی گروپ پھر بدعنوانی کے الزامات کی زد میں
345
m.u.h
05/09/2023
0
0
تحریر: سراج نقوی
ایسے حالات میں کہ جب مودی حکومت روز بہ روز طاقتور ہوتے ہوئے اپوزیشن کے نشانے پر ہے اور اپوزیشن کے اتحاد میں شامل پارٹیوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، اڈانی گروپ پر لگائے گئے تازہ الزامات حکومت کی پریشانیاں بڑھنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ الزامات ’گارڈین‘ کی ایک رپورٹ سے سامنے آئے ہیں۔ اس سے پہلے امریکی کمپنی ہنڈن برگ، جو دنیا بھر کی بڑی کمپنیوں کی اقتصادی بدعنوانیوں پر نگاہ رکھتی ہے اور کئی بڑی کمپنیوں کی مالی بدعنوانیوں کا بھی انکشاف کر چکی ہے، اس نے بھی جب اڈانی گروپ کے تعلق سے ایک رپورٹ شائع کر کے یہ دعویٰ کیا تھا کہ گروپ کئی فرضی کمپنیوں کے ذریعہ مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہے، تو اڈانی گروپ کے شئئیر اچانک آسمان سے زمین پر آ گئے تھے۔ اس کے سبب ہی خود اڈانی بھی دنیا کے مالدار ترین افراد کی فہرست میں کافی نیچے پہنچ گئے تھے۔ اڈانی گروپ کے لیے یہ ایک ایسا جھٹکا تھا کہ جس کے اثرات سے وہ آج تک باہر نہیں آسکا ہے۔ ان حالات میں ’گارڈین‘ میں اس گروپ کے تعلق سے شائع رپورٹ نہ صرف یہ کہ اڈانی کے کاروبار کو متاثر کرے گی بلکہ مودی حکومت پر بھی اس کے منفی اثرات پڑنا یقینی ہے۔ اس لیے کہ اڈانی کو مودی کا قریبی دوست بتایا جاتا ہے۔
گارڈین میں جو رپورٹ شائع ہوئی ہے اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آف شور مالیاتی ریکارڈ کے مطابق اڈانی گروپ نے ہندوستان کی شئیر مارکیٹ میں اپنی ہی کمپنیوں کے کروڑوں ڈالر کے شئیر خریدے۔ آف شور یا اڈانی کی غیر ملکی کمپنیوں کے ریکارڈ کے مطابق گروپ نے اپنی ہی کمپنیوں کے بڑے پیمانے پر شئیر خریدے۔ ایسا کیوں کیا گیا اس کو آسانی سے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ گروپ اپنی کمپنیوں سے بالواسطہ طور پر شئیر خرید کر مارکیٹ کو یہ فریب دینا چاہتا تھا کہ اس کے شئیروں کی قیمتوں میں اور کمپنی کی ساکھ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے دوسرے خریدار بھی گروپ کی کمپنیوں کے شئیر خریدنے میں دلچسپی لے سکتے تھے، اور ایسا ہوا بھی۔ یعنی گروپ نے ایک فراڈ کے ذریعہ یا مالی بدعنوانی کے ذریعہ راست طور پر اپنے شئیروں میں فرضی اچھال پیدا کرنے کی کوشش کی۔ گروپ کی ان سرگرمیوں پر اسی سال کے شروع میں ’ہنڈن برگ‘ نے ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کر کے پوری دنیا کے کاروباریوں میں سنسنی پیدا کر دی تھی۔ ہنڈن برگ نے اسے کارپوریٹ تاریخ کا سب سے بڑا گھوٹالا بھی قرار دیا تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ گوتم اڈانی جو دنیا کے تیسرے سب سے بڑے رئیس بنے بیٹھے تھے، اپنے اس مقام سے محروم ہو کر عالمی رئیسوں کی فہرست میں کافی نیچے آ گئے۔
لیکن اب ایک تازہ رپورٹ ’آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ‘ یا او سی سی آر کے ذریعہ تیار کی گئی ہے جسے مشہور انگریزی اخبار ’گارڈین‘ اور ’فنانشیل ٹائمز‘ نے شائع کیا ہے۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ماریشس کی ایک نامعلوم آف شور کمپنی نے مبینہ طور پر 2013 سے 2018 تک اس نامعلوم کمپنی کا استعمال اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے شئیروں کو سہارا دینے کے لیے کیا گیا۔ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ اڈانی کے بڑے بھائی ونود اڈانی بھی اس طرح کی سرگرمیوں میں شریک تھے۔ حالانکہ ونود اڈانی ان معاملوں میں اپنے کسی رول سے انکار کر چکے ہیں۔ لیکن ’ہنڈن برگ‘ بھی ثبوت کے ساتھ ان کے رول کو ثابت کر چکی ہے۔ اڈانی گروپ کا بھی دعویٰ ہے کہ ونود اڈانی کا گروپ کے روز مرہ کے معاملات میں کوئی دخل نہیں۔ ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو، لیکن یہاں معاملہ روز مرہ کے معاملات سے بہت آگے کا ہے، اور ونود اڈانی کے ذریعہ مالی فراڈ میں ان کے رول کا ہے۔ تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ونود اڈانی کے دو قریبی ساتھ آف شور کمپنیوں سے فائدہ اٹھانے والوں میں تھے۔ ان افراد کے ذریعہ ہی پیسہ بھیجا جا رہا تھا۔ رپورٹ میں دعویٰ ہے کہ ریکارڈ سے پتہ چلا ہے کہ ماریشس کے دو فنڈز سے اڈانی کے شئیروں میں سرمایہ کاری کی جا رہی تھی اور اس کی نگرانی دبئی کی ایک کمپنی کر رہی تھی۔ دبئی کی اس کمپنی کو بھی ونود اڈانی کا ایک معتمد ملازم چلا رہا تھا۔ اس سے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ دبئی کی یہ کمپنی بھی دراصل اڈانی گروپ کے ذریعہ ہی قائم کی گئی ہوگی۔
اڈانی گروپ کی طرف سے اس تازہ رپورٹ پر بھی تقریباً اسی طرح کا رد عمل ظاہر کیا گیا ہے جیسا کہ ہنڈن برگ کی رپورٹ پر کیا گیا تھا۔ گروپ کا کہنا ہے کہ یہ تازہ رپورٹ بھی ہنڈن برگ رپورٹ کی ہی ایک جھلک ہے۔ گروپ نے اس رپورٹ کو بھی حسبِ توقع مسترد کر دیا ہے۔ تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’دستاویزوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب پیچیدہ کھیل 2010 سے جاری ہے، جب اڈانی کے دو دوستوں چانگ چنگ لنگ اور ناصر علی شعبان نے ماریشس، برٹش ورجن جزائر اور متحدہ عرب امارات میں آف شور کمپنیاں قائم کرنا شروع کیں۔‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مودی کے قریبی دوست اڈانی نے ہوا کا رخ دیکھ کر اپنا کھیل بہت پہلے شروع کر دیا تھا، اور مرکز میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد اس کھیل میں تیزی آگئی۔ جن دو افراد کا بالائی سطور میں ذکر کیا گیا وہ اڈانی گروپ کی کمپنیوں میں ڈائیریکٹر رہ چکے ہیں۔ انھوں نے اپنی آف شور کمپنیوں کے توسط سے برمودہ کی جی او ایف نامی ایک بڑی اور سرمایہ کاری سے متعلق کمپنی میں بڑے پیمانے پر پیسہ لگایا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اڈانی جو کچھ مالی بدعنوانی سے کما رہے تھے اسے بلیک سے وہائٹ منی میں بدلنے کا کھیل کھیلا جاتا رہا۔ اس لیے کہ برمودہ کی سرمایہ کاری کمپنی میں لگائی رقم کو مذکورہ کمپنی نے اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے شئیر خریدنے میں استعمال کیا۔
’گارڈین‘ میں جو رپورٹ شائع ہوئی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ جب اس معاملے میں چانگ سے اڈانی کی کمپنی میں سرمایہ کاری اور ونود اڈانی سے اس کے تعلقات کو لے کر سوال کیا گیا تو چانگ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر چانگ کی اس معاملے میں گوتم اڈانی یا ان کے بھائی ونود اڈانی سے ملی بھگت نہیں ہے تو پھر جواب دینے سے گریز کیوں کیا گیا۔ ونود اڈانی اور چانگ کا تعلق ایک کھلی حقیقت ہے۔ اس معاملے میں کانگریس رہنما راہل گاندھی نے بھی ایک مرتبہ پھر گوتم اڈانی کو گھیرا ہے اور ان سے سوال کیا ہے کہ ’’اڈانی کے بھائی کا پارٹنر چینی شہری ہے، اس کی جانچ کیوں نہیں کر رہے ہیں مودی۔‘‘ وزیر اعظم مودی راہل گاندھی کے اس سوال کا جواب دیتے ہیں یا نہیں یہ وہی جانیں، لیکن یہاں یہ یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ اپنے حالیہ دورہ جنوبی افریقہ کے ساتھ ہی مودی نے بغیر کسی شور شرابے اور ایسے معاملوں میں کی جانے والے پروپگنڈے سے بچتے ہوئے یونان کا بھی دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں اڈانی گروپ کے کاروبار ی مفادات اور اس سے متعلق معاہدوں پر بھی بات ہونے کی خبر ہے۔ اگر اس تعلق سے آنے والی خبریں درست ہیں تو اس سے ایک مرتبہ پھر یہ سوال اٹھنے لازمی ہیں کہ آخر مودی کیوں اور کس لیے اڈانی کے کاروباری مفادات کو سرکاری تحفظ دے رہے ہیں۔ شاید اسی لیے کانگریس نے ایک بار پھر اس معاملے میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنا کر اس سے جانچ کرانے کا مطالبہ حکومت سے کیا ہے۔ حالانکہ اس مطالبے کا بھی وہی حشر ہونے کی امید ہے جو اس سے پہلے کیے گئے مطالبے کا ہو چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اڈانی گروپ کا جنّ آئندہ پارلیمانی الیکشن میں مودی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر سکتا ہے۔