-
راہل اور کھڑگے بی جے پی کے لیے’ کرن اور ارجن‘!
- سیاسی
- گھر
راہل اور کھڑگے بی جے پی کے لیے’ کرن اور ارجن‘!
374
m.u.h
03/10/2022
0
0
تحریر: اعظم شہاب
۔1995 میں آنے والی شاہ رخ خان اور سلمان خان کی فلم ’کرن ارجن‘ سے بھلا کون واقف نہیں ہوگا۔ کرن یعنی کہ سلمان اور ارجن یعنی کہ شاہ رخ خان دونوں مل کر ٹھاکر درجن سنگھ یعنی امریش پوری کی ہیکڑی نکال دیتے ہیں۔ کانگریس کے راہل گاندھی بی جے پی کے لیے تنِ تنہا ’کرن‘ بنے ہوئے تھے، ضرورت تھی ایک عدد ارجن کی جو ملکارجن کھڑگے کی صورت میں بہت جلد کانگریس کو ملنے والا ہے۔ اب کرن یعنی راہل گاندھی اور ارجن یعنی ملکارجن کھڑگے دونوں مل کر بی جے پی کا اگر ناطقہ بند کردیتے ہیں تو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ یوں بھی کانگریس کے صدارتی الیکشن کے پرچہ نامزدگی کے داخلے کے ساتھ ہی یہ منظر تقریباً صاف ہوگیا ہے کہ ملکارجن کھڑگے ہی کانگریس کے آئندہ کے صدر بننے والے ہیں۔ اس بات سے کہ کانگریس کو ایک طویل عرصہ بعد ایک کل وقتی صدر مل رہا ہے، جتنا اطمینان کانگریس کے اندر ہونا چاہئے اس سے کہیں زیادہ گھبراہٹ بی جے پی میں نظر آنے لگی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گھبراہٹ اب اپنا بند توڑ کر جامے سے بھی باہر آگئی ہے۔ کمال کی ہے یہ گھبراہٹ بھی جو بسا اوقات اس گیس آمیز مشروبات کی مانند ہوجاتی ہے کہ جسے پینے کے بعد حد درجہ ضبط کے باوجود ڈکار آہی جاتی ہے۔ یہ اسی گھبراہٹ اور بے چینی کا ہی نتیجہ ہے کہ کھڑگے کے صدر بننے کے امکان کو کوئی ’کانگریس کی کٹھ پتلی کی تلاش‘ قرار دے رہا ہے تو کوئی ’ریموٹ کنٹرول‘ بتا رہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بیانات اس پارٹی کے لیڈروں کی جانب سے آرہے ہیں جس کے اپنے صدر خود دو لوگوں کے ذریعے نامزد کئے ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں کیڈر کی سطح پر اس کی توثیق کرائی گئی۔
اترپردیش کی یوگی حکومت کے نائب وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے کھڑگے کے ممکنہ انتخاب کو ریموٹ کنٹرول کا انتخاب بتایا ہے۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”کانگریس کی نیا نہ تو گاندھی پریوار سے پار ہوگی اور نہ ہی اس کے کسی ریموٹ کنٹرول سے“۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کانگریس کی نیا پار کرانے میں انہیں اتنی فکر کیوں ہونے لگی جن کی نیا خود روز بروز ڈوبتی جا رہی ہے؟ یہ وہی موریہ جی ہیں جو 2022 کے اسمبلی انتخاب میں خود اپنی سیٹ تک نہیں بچا پائے تھے اور انہیں ودھان سبھا کے پچھلے دروازے سے یوگی کابینہ میں شامل کیا گیا۔ لیکن چونکہ بیان بازی ہی ان مہاپرشوں کی سب سے بڑی حصولیابی ہے، اس لیے ہم ان کی گھبراہٹ اور جھنجھلاہٹ کو سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن حد تو اس وقت ہوجاتی ہے جب پنجاب کے لوگ بھی ڈفلی بجانے لگ جاتے ہیں۔ بی جے پی کے ایک لیڈر ہیں ترون چوگھ، مہاشے جی کا تعلق امرتسر سے ہے، ان کا کہنا ہے کہ کھڑگے کا انتخاب کانگریس میں کٹھ پتلی کی تلاش ہے اور اس سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ چوگھ صاحب کا یہ بیان دیکھ کر ہنسی آگئی۔ جب کھڑگے کے آنے سے کچھ نہیں ہونے والا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اتنی ہائے ماری کیوں مچی ہوئی ہی ہے؟
سچائی یہ ہے کہ کھڑگے کے کانگریس کا صدر بننے کے بعد بی جے پی کو کانگریس کی جانب سے ملکی سطح پر ایک مضبوط اپوزیشن کے ملنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ یہ امکان اس قدر مضبوط ہے کہ بی جے پی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اب اس کا توڑ کہاں سے لائے گی اور اسی لیے بی جے پی کے لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگے ہیں۔ یہ مضبوط اپوزیشن بی جے پی کو اسی صورت میں مل سکتا ہے جب کانگریس میں تنظیمی سطح پر بی جے پی سے مقابلے طاقت پیدا ہوجائے اور اس طاقت کے پیدا ہونے کا امکان کانگریس کو ایک کل وقتی صدر ملنے کی صورت میں مزید بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ اس بات سے شاید ہی کوئی انکار کرے کہ موجودہ سیاست کی تین سطحیں ہوتی ہیں۔ پہلی سطح عوام ہے، دوسری پارٹی ہے اور تیسری حکومت ہے۔ حکومت میں آنے کے لیے کسی بھی پارٹی کو عوام کی حمایت چاہئے اور عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پارٹی کو تنظیمی سطح پر مضبوط ہونا چاہئے۔ بدقسمتی سے کانگریس پارٹی اپنے تنظیمی ڈھانچے کی جانب کم توجہ دے سکی۔ جس کا نتیجہ یہ رہا کہ اس کے ایم ایل اے دوسری پارٹیوں میں شامل ہوتے رہے، اس کے لیڈران پارٹی چھوڑتے رہے یہاں تک کہ پارٹی کے اندر بھی بعض اوقات اختلافات اور ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوتی رہی۔
راجستھان میں کانگریس کے درمیان کا حالیہ تنازعہ پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کی کمزوری کا جیتا جاگتا ثبوت تھا جس پر بروقت قابو پالیا گیا۔ لیکن اس طرح کے حالات پر قابو پانے اور پارٹی کے کیڈر کو مضبوطی کے ساتھ ایک دوسرے سے مربوط رکھنے کے لیے کانگریس کو ایک کل وقتی صدر کی اشد ضرورت تھی۔ بی جے پی کے لوگ شاہ صاحب کی انتخابی چانکیائی کی تعریف کرتے نہیں تھکتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ شاہ صاحب کی انتخابی حکمت عملی کے سامنے تمام پارٹیاں ڈھیر ہوجاتی ہیں۔ جبکہ اس حکمت عملی کی بنیادی وجہ آر ایس ایس کے کیڈر کا منصوبہ بند طریقے سے استعمال ہے۔ شاہ صاحب یہی کرتے ہیں کہ وہ سنگھ و بی جے پی کے کیڈر کے انتظامی امور پر اپنی توجہ مبذول کرتے ہیں اور انتخابی تشہیر کا کام نریندرمودی و بی جے پی کے دوسرے لیڈران کی ہوتی ہے۔ لیکن جب سے شاہ صاحب وزیر داخلہ ہوئے ہیں، یہ ذمہ داری انہوں نے جے پی نڈا کے کندھوں پر ڈال دیا ہے کہ وہ پارٹی کے انتظامی امور پر اپنی توجہ مبذول رکھیں۔ ملکارجن کھڑگے کے کانگریس کا صدر بننے کی صورت میں کانگریس کے کیڈر کو مضبوط کرنے پر وہ اپنی توجہ مبذول کریں گے اور پارٹی کی تشہیر اورعوامی مسائل اٹھانے کی ذمہ داری راہل و پرینکا نیز دیگر لیڈران اٹھائیں گے۔
اس امر سے شاید ہی انکار کیا جاسکے کہ تنظیمی امور کے لحاظ سے کانگریس میں ایک زبردست خلا تھا جسے قیادت کا فقدان بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ تنظیمی ڈھانچے کی کمزوری کا نتیجہ اترپردیش اسمبلی انتخاب میں سامنے آیا تھا جب پرینکا گاندھی پارٹی کی تشہیر کرتی تھیں لیکن اس تشہیری مہم سے حاصل ہونے والے فائدے کو کیش کرنے والا کیڈر موجود نہیں تھا۔ جب مرکز میں منموہن سنگھ کی حکومت تھی تو پارٹی کیڈر اور الیکشن کی مہم میں تشہیر کی ذمہ داری سونیا گاندھی و راہل گاندھی سنبھالے ہوئے تھے۔ اب اگر کانگریس کے دیگر لیڈران پارٹی کی تشہیر وتوسیع پر اپنی توجہ مبذول رکھیں گے تو پارٹی صدر تنظیمی امور کو سنبھالیں گے۔ یہ وہی طریقہ کار ہوگا جس پر عمل کے ذریعے بی جے پی عوامی حمایت حاصل کرتی ہے اور اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرتی ہے۔ یہ کیڈر کی مضبوطی کا ہی نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ اپوزیشن پارٹیوں کی حکومتوں کے ایم ایل ایز کو اپنے پالے میں کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اب یہی چانکیہ اصول کانگریس بھی اپنا سکتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو راہل اگر بی جے پی کے لیے ’کرن‘ بنے ہوئے ہیں تو ملکارجن کھڑگے ’ارجن‘ کا کردار ادا کریں گے۔ کھڑگے کے صدر بننے کی صورت میں راہل گاندھی پارٹی کی تنظیمی ذمہ داریوں سے فارغ ہوجائیں گے اور یہی بی جے پی نہیں چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کے اطمینان سے زیادہ بی جے پی میں بوکھلاہٹ اور جھنھلاہٹ ہے۔