-
قیادت کیسی ہو؟
- سیاسی
- گھر
قیادت کیسی ہو؟
1404
m.u.h
20/06/2019
1
0
سید مشاہد عالم رضوی،مقیم تنزانیہ
ہرقوم اپنے اجتماعی حقوق کی پاسداری بازیابی اور تحفظ کے لئے رہبر وقاید کی محتاج ہے ؛اگرقوموں میں شایستہ قیادت نہ ہوتوقوم اپنےاجتماعی حقوق سے محروم ہو جائے ؛ اور ہرقوت وطاقت والا اسے اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا کر قوم کے تمام طبقات کو پسماندہ وکمزوربنادے بلکہ ایسے حساس ونازک موقع پر غیر توغیر اپنی ہی قوم کے خودغرض اور مفاد پرست عناصر قوم وملت کے حقوق کچلنے لگے گیں اور اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے میں ذرہ برابر بھی مروت سے کام نہ لیں گے ؟
پھر اگر کوئی شخص یا شخصیت یہ سوچے ہمارا کام تو چل ہی رہا ہے مجھ سے کیا مطلب؟ تو یہ اس کاخیال پست اور نہایت تنگ نظری کی علامت ہے؛کیا سیاسی حقوق مضبوط قیادت اور شجاعانہ ہمت کے بغیرکسی حکومت سے حاصل کیۓ جاسکتے ہیں؟ جبکہ زندگی کا تجربہ بتاتا ہے کہ حکومتیں حق
چھیننا تو جانتی ہیں دینا نہیں جانتیں؟
قیادت خاندانی نہیں قومی بالغ نظری سے حاصل ہوتی ہے
عموماً قومی قیادت کسی گھر خاندان کی تاجپوشی سے نہیں قاید کی اپنی ذاتی استعدادو صلاحیت اور اس کی قومی قربانیوں کا نتیجہ ہوتی ہے جسے قوم بچشم خود دیکھتی ہے اور اسے اپنی رھبری کے لئے چن لیتی ہے چنانچہً ابھر نے والےقایدین میں سننے سمجھنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ وسعت نظر بھی ہو اچھے صلاح و مشورہ دینے والے أمین وپڑھے لکھے دوراندیش مشورہ دینے والے ھمدرد قوم وملت افراد بھی ہوں تو قیادت میں چار چاند لگ جاتا ہے پھر قوم یا تو بالکل نقصان سے محفوظ رہتی ہے یا کم سے کم ضرر اٹھا تی ہے ؛عالمی پیمانہ پر اسکی مثال شیعہ طبقہ میں ایران میں رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای ہیں تو لبنان میں جناب سید حسن نصراللہ ہیں ۔۔۔ ہرچند یہ بھی ایک مسلم بات ہےکہ کوئی بھی قاید چاہیے جس قدر وہ ذاتی طور پر مضبوط دوراندیش شجاع اورتمام قایدانا صلاحیت کاحامل کیوں نہ ہو ؟ وہ کامیاب اسی وقت ہوتاہے جب پوری قوم اسکی مکمل حمایت کرے اورتمام سرد وگرم حالات میں اسکی پشت پناہی کرے ؛
جو قوم اجتماعی سوچ بوجھ کھو بیٹھتی ہے ؛اپنااورپرایانہیں پہچانتی مصلحت اندیشی کے شکار بناوٹی قایدین وحقیقی رہنما کی تمیز نہیں رکھتی وہ قوم اپنا تشخص اپنا وقار اپنی عظمت کھو بیٹھتی ہے اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کےلئے بھلا دی جاتی ہے ایک قاید صرف خوشیوں میں قوم کی ہمراہی نہیں کرتا ہے بلکہ ایک فطری اورحقیقی قاید وہ ہوتا ہے جو سختیوں اور مایوسیوں میں اپنی قوم کے شانہ بشانہ ہرموقع ومحل پر اس کے ساتھ ہوتا ہے ؛ اسےہمت دلاتا ہے
چنانچہ اگر ایسی قیادت کسی قوم کو ملے تواسے بارگاہ خداوندی میں شکر گزار ہوناچاہیے ؛ جیساکہ مومنین لکھنؤ نے کم از اس قیادت کاتجربہ مولانا سید کلب جواد صاحب قبلہ کی شکل میں بار بار کیا ہے؛ لیکن ہرنعمت کا شکریہ اس نعمت کےمطابق ہوتا ہے چنانچہ اس کا شکریہ یہ ہیکہ جسطرح رھبر وقاید قوم کے ہردکھ درد میں ساتھ رہتاہے اسی طرح قوم کو بھی چاہیے کہ جب خود قایدکی ذات اسکی حثیت اسکی جان مال اور اس کی ناموسِ پرحملہ ہو تو پوری قوم نڈر ہوکراسکی پشت پناہی کرے یہی اس بڑی نعمت کا شکریہ ہے ؛ دراصل اپنے رھبر کی حمایت وپشت پناہی خود اپنی اوراپنی قوم وملت اور اسکے حقوق کی پشت پناہی ہے
جوقوم اپنے قاید کے جگانے پر بیدار نہیں ہوتی وہ پھر دشمن کے دھکوں سے آچانک بیدار ہوتی ہے جسکا کوئی فائدہ نہیں ہوتا