-
گاندھی کی وراثت پر سیاست
- سیاسی
- گھر
گاندھی کی وراثت پر سیاست
1181
M.U.H
05/10/2019
2
0
سراج نقوی
گذشتہ ۲ ،اکتوبر یعنی گاندھی جینتی پر جس طرح حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے درمیان گاندھی کی نظریاتی وراثت پر زبانی جنگ ہوئی اس سے واضح ہے کہ گاندھی کے قاتلوں کی پشت پناہی کرنے والے بھی بابائے قوم کی نظریاتی وراثت سے دستبردار ہونے کا حوصلہ نہیں کر پا رہے ہیں۔یہ الگ بات کہ گاندھی کے تئیں ان کے دلوں میں جو منافقت ہے وہ ملک میںگزشتہ چند برسوں میں رونما ہونے واقعات سے بار بار ظاہر ہوئی ہے،
گاندھی جینتی پر ملک کے مختلف حصوں میںحسب روایت بابائے قوم کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے مختلف پروگرام منعقد کیے گئے۔مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے لیکر بیشتر سیاسی پارٹیوں نے بھی اپنی اپنی سطح پر اس سلسلے میں پروگراموں کا انعقاد کیا۔واضح رہے کہ اس سال کو بابائے قوم مہاتما گاندھی کی ۱۵۰ ویں جینتی کے طور پر منایا جا رہا ہے۔اسی لیے اس سال گاندھی جینتی کے پروگراموں کو منعقد کرنے کے لیے خصوصی اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ایک طرف وزیر اعطم نے اس موقع پر گجرات کے سابرمتی میں ۰۰۰،۲۰ سرپنچوں کے اجلاس سے اپنے خطاب میں گاندھی جی کی نطریاتی وراثت کا ذکر کیا تو دوسری طرف اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اپوزیشن کو گاندھی جی کے اصولوں کی یاد دلاتے نظر آئے۔یہ عجیب بات ہے کہ جس پارٹی کی حکومت میں گاندھی جی کے مجسموں کو بار بار نقصان پہنچایا گیا ہو،ان کے پتلے بنا کر اس پر گولیوں برسا کر گاندھی جی سے نفرت کا ثبوت دیا گیا ہواور ایسا کرنے والوں کی بی جے پی سے وابستگی کے ثبوت بھی سب کے سامنے ہوںاس پارٹی کی اتر پردیش حکومت یعنی یوگی سرکار اپوزیشن پر بابائے قوم کی توہین کا الزام لگائے۔
دراصل یوگی حکومت نے گاندھی جی کی ۱۵۰ ویں جینتی کے موقع پر ریاستی اسمبلی کا ایک خصوصی اجلاس طلب کیا تھا۔اسمبلی اسپیکر اور حکومت کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے اس اجلاس میں شرکت پر اپنی رضامندی بھی دے دی تھی،لیکن اس کے باوجود ۲،اکتوبر کو جب ۳۶ گھنٹے کا یہ خصوصی اجلا س منعقد ہوا تو اپوزیشن نے اس کا بائیکاٹ کیا اور اپنے اپنے طور پر گاندھی جینتی کی تقریبات منعقدکیں۔
اپوزیشن کے فیصلے سے نہ صرف وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بلکہ اسپیکر بھی برہم نظر آئے۔یوگی نے تو اجلاس میں اپوزیشن کی عدم شرکت کو گاندھی جی کی توہین قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ایسا کہتے وقت شاید وہ یہ بھول گئے کہ ان کے دور اقتدار میں ہی اتر پردیش کے علی گڑھ میں ایک انتہا پسند ہندو تنظیم کی لیڈر نے گاندھی جی کے پتلے میں خون کے غبارے بھر کر اور اس پر گولیاں چلا کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ گاندھی ان جیسے لوگوں کے لیے اتنے ہی ناپسندیدہ بلکہ قابل نفرت ہیںجتنے کے ناتھو رام گوڈسے کے لیے تھے جس نے انھیں اسی نفرت کے تحت قتل کردیا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ گوڈسے کے نقش قدم پر چلنے والی مذکورہ خاتون کے بی جے پی سے قریبی رشتے منظر عام پر آچکے ہیں۔صرف یہی خاتون نہیں بلکہ بی جے پی کی کرم فرمائیوں کے نتیجے میں جیل سے نکل کر لوک سبھا تک پہنچنے والی سادھوی پرگیا ممبر پارلیمنٹ منتخب ہونے کے بعد گاندھی جی کے بارے میں جو کہہ چکی ہیں اس سے بھی پورا ملک واقف ہے۔یہ الگ بات کہ وزیر اعظم مودی کے اظہار ناراضگی کے بعد سے پرگیا کی زبان بند ہے۔حالانکہ وہ آج بھی بی جے پی میں ہی ہے۔گاندھی جی کی اس طرح کھلے عام توہین کرنے والوں کی پشت پناہی کرنے والے اگر اپوزیشن کے رویے کو گاندھی جی کی توہین قرار دیںتو ان کی اس دیدی دلیری یابے شرمی پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ریاستی اسمبلی کے مذکورہ خصوصی اجلاس سے خطاب میں یوگی نے اپوزیشن کے فیصلے کو نشانہ بناتے ہوئے اسے بابائے قوم کی توہین قرار دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ باپو کے نام پر اقتدار کا مزہ چکھنے والے آج باپو کے نظریات کو ہی بھول گئے ہیں۔یوگی کے مطابق گاندھی جی نے جن اصولوں اور اقدار کو سب کے سامنے رکھاآج کانگریس اس کا بائیکاٹ کر رہی ہے۔اپوزیشن پارٹیوں نے ترقی سے منھ موڑ لیا ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ مندر و مسجد کی سیاست کرنے والے،مذہبی سیاحت کو ملک و ریاست کی ترقی قرار دینے والے اور گاندھی جی کے ’رام راجیہ‘کے تصور کی عملی توہین کرنے والے ہی دوسروں کو گاندھی جی کے نظریات پر عمل کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ہر چند کہ یہ گاندھی جی کے نظریات اور اقدار کی عسری معنویت کا ثبوت ہے کہ ان کے چھپے ہوئے دشمن بھی ان کی تعریف کر رہے ہیں لیکن اس سے ان کی منافقت اور دوہرے رویے کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔حالانکہ اصولی طور پر یہ بات بھی درست ہے کہ گاندھی جی کے نظریات اور اقدار کو پامال کرنے میں خود کو سیکولر کہنے والی جماعتوں کا رول بھی بیحد خراب اور غیر ذمہ دارانہ رہا ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو گاندھی کے قاتل کو ہیرو بنانے والی پارٹی اور مبینہ ثقافتی تنظیم کا آج نام و نشان ہی نہ ہوتا۔ظاہر ہے سیکولرزم کی مدعی پارٹیوں میں بھی آزادی کے بعد سے ہی ایسی کالی بھیڑیں موجود رہی ہیں جو گاندھی کا نام لے لے کر ان کے قاتلوں کے نظریات کی تشہیر و توسیع میں بالواسطہ ہی سہی اپنا منفی رول ادا کرتی رہی ہیں۔اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے بی جے پی میں شامل ان کھانٹی کانگریسیوں کی فہرست پر ہی ایک نگاہ ڈالنی کافی ہوگی جو اس وقت اقتدار کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں اور خود کو بظاہر گاندھی کا حامی بھی قرار دیتے ہیں۔
بہرحال ایک طرف تو اتر پردیش میں اپوزیشن جماعتوں نے گاندھی جینتی کے موقع پر بلائے گئے خصوصی اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کیا تو دوسری طرف اس موقع پر کی گئی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر بھی اپوزیشن کے نشانے پر رہی۔مودی نے سابر متی کے اپنے پروگرام میں گاندھی جی کے نظریات پر بولتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے ایسا نظام بنانے کی کوشش کی ہے جیسا مہاتما گاندھی چاہتے تھے۔‘مودی کے مطابق باپو کے خوابوں کا بھارت ایسا ہوگا جہاں ہر شخص صحت مندہوگا۔فِٹ ہوگا۔نیا بھارت بھید بھائو سے مبرّا ہوگا۔‘‘ممکن ہے کچھ لوگوں کے نزدیک مودی کا یہ بیان مضحکہ خیز ہو لیکن سچ یہ ہے کہ اس طرح کے بیانات ہماری قیادت کے قول و عمل میں تضاد کا نمونہ ہیں اور اس سے ملک کی اعلیٰ قیادت کے کردار کا پتہ چلتا ہے۔گاندھی کے قاتلوں کے ہم نوائوںکو ملک کی جمہوریت کے مندر یعنی پارلیمنٹ پہنچانے والی پارٹی اگر گاندھی کے خوابوں کو پورا کرنے کی مدعی ہو تو اسے گاندھی کی عظمت کیااعتراف کے طور پر تو دیکھا جاسکتا ہے لیکن اس سے گاندھی جی کے نظریات پر منڈراتے خطروں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔بد قسمتی سے اپوزیشن پارٹیاں یہ سمجھنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔البتہّ وزیر اعظم کے مذکورہ بیان پر کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی نے یہ کہہ کر حملہ ضرور کیا کہ گذشتہ پانچ سال میں ملک کی جو حالت ہوئی ہیاس سے گاندھی جی کی ’آتما بھی دکھی‘ ہوگی۔کانگریس کی جواں سال لیڈر اور جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے یہ کہہ کر بی جی پی پر حملہ کیا کہ ’’بی جے پی پہلے سچّائی کی راہ پر چلے پھر باپو کی بات کرے۔‘‘حالانکہ خود ان کی پارٹی بھی اگر باپو کی بتائی ہوئی سچائی کے راستے پر واقعی چلی ہوتی تو آج یہ ملک فرقہ پرست طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا نہ بنا ہوتا۔
بہرحال گاندھی جی کی ۱۵۰ ویں جینتی حکمراں اور اپوزیشن کے درمیان ان کی نظریاتی وراثت پر دعویداری کی سیاسی جنگ کا موقع بن کر رہ گئی۔حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس موقع پر حکمراں جماعت بھگوا نظریات سے کنارہ کشی کرتے ہوئے گاندھی کے نظریات کو واقعی اپنے عمل سے ثابت کرتی اور گوڈسے حامی اس ٹولے سے خود کو الگ کرنے کا اعلان کرتی جو آج بھی گاندھی جی کی توہین کسی نہ کسی طرح کرتے رہتے ہیں۔