-
کربلا میں نہ ہوتے ہوئے بھی کربلائی شہید
- سیاسی
- گھر
کربلا میں نہ ہوتے ہوئے بھی کربلائی شہید
835
M.U.H
19/08/2021
1
0
ہانی ابن عروہ
تحریر:مولاناسید نجیب الحسن زیدی
نام نمود شہرت عزت قوم قبیلہ یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو انسان کو سماج میں بڑا بناتی ہیں معاشرے میں اگر کسی کو مقبولیت حاصل ہو جائے لوگوں کے درمیان کسی کو اعتبار مل جائے تو انسان مقبولیت کو باقی رکھنے کے بارے میں فکر مند رہتا ہے اپنے بھرم کو بچانے اور بڑھانے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے لیکن کربلا ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح سب کچھ اپنے مالک کی بارگاہ میں قربان کر کے انسان سرخ رو ہوتا ہے ہمارا سلام ہو اس شہید تمہید کربلا پر جس نے نہ اپنے نام کی پروا کی نہ شہرت کی نہ قوم و قبیلہ میں بیٹھی ہوئی دھاک کی ہر چیز کو راہ ولایت میں قربان کر دیا بنی مراد کے سربراہ تھے مذحج کے سردار تھے لوگوں کے درمیان ہانی کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا تھا لوگ آپس کے جھگڑوں میں ہانی بن عروہ کی بات کو حرف آخر مانتے تھے جہاں بیٹھ جاتے وہاں ہانی کے حرف پر کسی کو حرف نہ ہوتا جو بات کرتے وہ فیصلہ کن ہوتی گھر سے باہر نکلتے تو اتنے محافظ ساتھ چلتے کہ لگتا کسی ملک کا سربراہ وامیر چل رہا تاریخ لکھِتی ہے جب قبیلہ مراد کو مدد کے لئے پکارتے تو چار ہزار زرہ پوش سوار ایک آواز پر آپ کے ہمراہ ہو جاتے ۸۰۰۰ پیادے سپاہی آپ کے ساتھ چلتے افسوس جب یہ شخص اپنی قتل گاہ کی طرف جا رہا ہے تو اکیلا و تنہا ہے کوئی ساتھ نہیں ہے ، یہیں سے دنیا کی پستی کا احساس ہوتا ہے کہ سب ساتھ دیں گے سب ساتھ رہیں گے لیکن اسی وقت تک جب انسان کے پاس کچھ ہو خالی ہاتھ انسان کے ساتھ کوئی نہیں رہتا ہاںیہ اور بات ہے کہ خالی ہاتھ انسان کا ہاتھ خدا کبھی نہیں چھوڑتا ہانی جب گھر سے نکلتے اور ساتھیوں کا ہجوم ہوتا تو ہانی بن عروہ کی دھاک شوکت و وقا رسے بڑے بڑے سورما کونے میں دبک جاتے کتنا عجیب ہے ایسی شخصیت کو گرفتار کر کے ظالم حاکم کے سامنے لایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے مسلم ابن عقیل کو ہمارے حوالے کر دو تو تاریخی جواب دیتے ہیں ، تو مسلم بن عقیل کو حوالے کر نے کی بات کرتا ہے خدا کی قسم اگر جہاں میں کھڑا ہوں اور قدم جمائے تیرے سامنے ہوں مسلم بن عقیل کی رہایش کسی ایسی جگہ ہو کہ میرے ایک پیر ہلانے سے اسکا پتہ چل جائے تو ہر گز میں اپنے پیر کو ادھر سے ادھر کرنے کو تیار نہیں ہوں
جب لوگ اپنے ایمان کی بولی لگا رہے تھے تو یہ عاشق حسین آواز دے رہا تھا عشق حسین نے مجھے اتنی طاقت دے دی ہے کہ جس ظالم سے پورا کوفہ تھر تھر کانپ رہا ہے میں اسکے سامنے اسکے اشارے پر ایک پیر بھی اٹھا کر رکھنے کو تیار نہیں ہوں ، جہاں ہوں حسینت کے ساتھ ہوں اور ڈٹا رہوں گا میرا نام میرا اعتبار میری خاندانی وجاہت سب حسین پر قربان ۔
تاریخ شہادت کے درخشان باب میں ایک نام ہانی ابن عروہ کا ہے ، ایسی شخصیت جسے ایک قبیلے کے سربراہ کے طور پر جانا جاتا ہے جس نے اس وقت اپنے ضمیر کو سودا نہیں کیا جب درہم و دینار کی جھنکاروں میں لوگ اپنے ضمیروں کی بولی لگا رہے تھے ، جب خاموش رہنے کی حکومت کی جانب سے منھ بولی قیمت دی جا رہی تھی ہانی نے اس وقت اپنا منھ بند رکھا اور دفاع ولایت میں اپنی زبان کھولی ، نہ صرف زبان کھولی اپنے قول سے اپنے عمل سے ولایت کا دفاع کیا ، ہانی امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے جمل میں مولا کے ساتھ رہے صفین میں آپ کی رکاب میں جنگ کی جمل و صفین کی معرکہ ہانی کی شجاعت و فاداری کے گواہ ہیں ۔
جناب مسلم ابن عقیل کے قیام میں ہانی بن عروہ کا ایک بڑا ہاتھ ہے ، جب لوگ حکومت کے خلاف بات کرنے سے ڈر رہے تھے جب ابن زیاد کی دہشت نے لوگوں کی زبانیں تالوں میں چپکا دی تھیں اس وقت یہ ہانی ابن عروہ کا گھر تھا جو کوفے میں انقلابی طرز فکر رکھنے والوں کا گڑ بنا ہوا تھا جناب مسلم ابن عقیل کے لئے ہانی ابن عروہ نے وہ سب کچھ فراہم کیا تھا جو ایک حجت خدا کے سفیر کے لئے ہونا چاہیے ۔
زخمی ہوئے ناک توڑ دی گئی خون بہا سر تن سے جدا کر دیا گیا لیکن ہانی نے نہ ابن زیاد جیسے سفاک کے سامنے گھٹنے ٹیکے نہ کہیں پرکسی مجبوری کا اظہار کیا بلکہ مکمل اختیار کے ساتھ جس راستے کو منتخب کیا تھا اسی پر چلتے ہوئے منزل شہادت کی طرف مڑ گئے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جاوداں ہو گئے
اس سے بڑھ کر اور جاودانی کیا ہوگی کہ سید الشہداء میدان کربلا میں نہ ہوتے ہوئے بھی ہانی کو پکار رہے ہیں اور آواز دیتے ہیں "یامُسْلِمَبْنَعَقیلٍ،وَیاهانِىَبْنَعُرْوَةَ،وَیاحَبیبَبْنَمَظاهِرَ،وَیازُهَیْرَبْنَالْقَیْنِ،وَیایَزیدَبْنَمَظاهِرَ،وَیایَحْیَىبْنَکَثیرٍ،وَیاهِلالَبْنَنافِعٍ،وَیاإِبْراهِیمَبْنَالُحصَیْنِ،وَیاعُمَیْرَبْنَالْمُطاعِ،وَیاأَسَدُالْکَلْبِىُّ،وَیاعَبْدَاللَّهِبْنَعَقیلٍ،وَیامُسْلِمَبْنَعَوْسَجَةَ،وَیاداوُدَبْنَالطِّرِمَّاحِ،وَیاحُرُّالرِّیاحِىُّ،وَیاعَلِىَّبْنَالْحُسَیْنِ،وَیاأَبْطالَالصَّفا،وَیافُرْسانَالْهَیْجاءِ،مالیأُنادیکُمْفَلاتُجیبُونی،وَأَدْعُوکُمْفَلاتَسْمَعُونی؟! أَنْتُمْنِیامٌأَرْجُوکُمْتَنْتَبِهُونَ؟"
اپنے باوفا اصحاب میں یوں توامام حسین علیہ السلام نے بہت سے جانثاروں کو پکارا حبیب ، زہیر و مسلم بن عوسجہ سبھی کو آواز دی لیکن مسلم بن عقیل کے فورا بعد جناب ہانی کو پکارنا بتا ہے کہ اس شخصیت نے اپنی قربانیوں سے سید الشہدا کے دل میں کس طرح جگہ بنائی تھی ۔
قافلہ دھیرے دھیرے اپنی منز ل کی طرف رواں دواں ہے ، دعائے عرفہ سب نے ساتھ پڑھی ہے مالک کی الوہیت و ربوبیت کا اقرار کیا ہے
خدا کے حضور گواہی دی ہے کہ مالک تیری ذات کے سوا ہمارا کوئی نہیں تو ہی حیات دینے والا ہے تو ہی پالنے والا ، حسین ابن علی علیہ السلام کے قافلے میں بڑوں کے ساتھ بچے بھی ہیں یقینا روز عرفہ جس طرح امام حسین علیہ السلام نے دعائے عرفہ میں اپنے رب کے سامنے اظہار عجز کیا ہے اسکے اثرات قافلے میں شامل ہر ایک بزرگ کی آنکھوں میں پائے جانے والے آنسووں کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں ، کوئی امام حسین علیہ السلام کے کے دعائے عرفہ کے دلنشین جملوں کو دہراتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے الهیاناالفقیرفیغنایفکیفلااکونفقیرافیفقریا ، میرے مالک میں بے اپنی بےنیازی میں بھی فقیر ہوں تو اپنی فقیری اور نیاز مندی میں کیوں کر فقیر نہ ہوں
کسی پر چلتے چلتے یہ جملے ہیں : "مَتىغِبْتَحَتّىتَحْتاجَاِلىدَليلٍيَدُلُّعَليْكَوَمَتىبَعُدْتَحَتّىتَكُونَالاْثارُهِىَالَّتىتُوصِلُاِلَيْكَ،
عَمِيَتْ عَيْنٌ لا تَراكَ عَلَيْها رَقيباً،
مالک تو ہماری نظروں سے پوشیدہ کب تھا کہ تیرے وجود پر دلیل قائم کی جائے تو ہم سے کب دور تھا کہ تجھے آثار کے ذریعہ پہچانا جائے
وہ آنکھ اندھی ہے جو تجھے اپنا نگہبان نہیں پاتی
کوئی زیر لب امام کے یہ جملے گنگناتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا ۔
الٰهِىكَيْفَلَاأَفْتَقِرُوَأَنْتَالَّذِىفِىالْفُقَراءِأَقَمْتَنِى؟أَمْكَيْفَأَفْتَقِرُوَأَنْتَالَّذِىبِجُودِكَأَغْنَيْتَنِى؟وَأَنْتَالَّذِىلَاإِلٰهَغَيْرُكَتَعَرَّفْتَلِكُلِّشَىْءٍفَماجَهِلَكَشَىْءٌ،وَأَنْتَالَّذِىتَعَرَّفْتَإِلَىَّفِىكُلِّشَىْءٍفَرَأَيْتُكَظاهِراًفِىكُلِّشَىْءٍ،وَأَنْتَالظَّاهِرُلِكُلِّشَىْ۔
کسی کی آہوں اور سسکیوں کے درمیان یہ صدا سنی جا سکتی تھی
الہی ماذاوَجَدَمَنْفَقَدَکَوَمَاالَّذیفَقَدَمَنْوَجَدَکَ،پروردگار! اسنےکیاپایاجسنےتجھےکھویااوراسنےکچھنہکھویا،جسنےتجھکوپایا،
اور خود لب سید الشہدا میں شاید یہ جملے تھے تَرَکْتُالْخَلْقَطُرّافیهَواکا
وَاَیْتَمْتُالْعِیالَلِکَیْاَراکا
میںنےساریمخلوقکو تیریکمحبتمیںچھوڑدیااورمیںنےاپنےبچوںکویتیمکیا،تاکہتجھےپاؤں۔
ایک الہی قافلہ ایک خدائی کاروان اپنی منزل کی طرف گامزن تھا کہ لوگوں نے دور سے کسی کو آتے ہوئے دیکھا آنے والا قریب آیا امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی کا حال پوچھا کہا مولا خلوت میں عرض کرونگا جواب ملا میرے اصحاب سے کوئی پردہ نہیں ہے جو بھی بات ہے سب کے سامنے کہو اب کہنے والے نے کہا تو پورے حسینی کاروان سے گریے کی آوازیں بلند ہو گئیں
مولا جب میں چلا تو ہانی کو شہید کیا جا چکا تھا جناب مسلم کی لاش کو کوفے میں رسی سے باندھ کر گھمایا جا رہا تھا یہ وہ منزل ہے جہاں جناب مسلم ابن عقیل کی شہادت کے ساتھ جب امام حسین علیہ السلام نے جناب ہانی کی شہادت کی خبر سنی ہے تو منزل ثعلبیہ پر سید الشہداء ٹہر گے لوگوں نے دیکھا کہ امام رکے
اپنے دونوں جانثاروں پر گریہ کیا کلمہ استرجاع جاری کیا انا للہ و انا الیہ راجعون اپنے دونوں ساتھیوں کو یاد کیا ، یہ پہلی منزل ہے جب امام حسین علیہ السلام نے ہانی کو شہادت کے بعد یاد کیا لیکن حسین ع اپنے اس جانثار کو بھولے نہیں ایک بار اور یاد کیا اور یہ تب یاد کیا جب آپ یک و تنہا تھے کڑکتی کمانیں تھیں نیزے تھے بھالے تھے زخموں سے بہتا لہو تھا اور حسین آواز دے تھے این این ہانی ابن عروہ ۔۔۔۔