787 m.u.h 30/11/2020
عوامی مسائل کے تئیں مرکزی حکومت کی بے حسی و سنگ دلی ایک بار پھر جگ ظاہر ہو گئی۔ اس وقت کسان سڑکوں پر ہیں اور حکومت کو ان کی کوئی پروا نہیں۔ جب تقریر کرنے کا موقع آتا ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی اور حکومت کے دوسرے عہدے داران کسانوں کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ ان کو ان داتا کہہ کر ان کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔ انھیں ملک کو کھلانے والا بتایا جاتا ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حکومت ان کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔
جب 2014 میں پارلیمانی الیکشن ہو رہا تھا تو بہت سے دل کو لبھانے والے وعدے کیے گئے تھے۔ انھی وعدوں میں ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ ملک کے کسانوں کی آمدنی دو گنی کی جائے گی اور کسان اپنی محنت کا پورا معاوضہ حاصل کریں گے۔ لیکن ساڑھے چھ سال ہو گئے کسانوں سے کیا گیا یہ وعدہ آج تک پورا نہیں کیا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جب کسان اپنے مطالبات کے ساتھ سڑکوں پر اترتے ہیں تو ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔ لاٹھی چارج سے ان کی آؤ بھگت ہوتی ہے اور اس سردی میں بھی ان پر پانی کی بوچھاریں چھوڑی جاتی ہیں۔
ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ اس لیے تاکہ وہ ملک کے دار الحکومت دہلی پہنچ کر اپنی بپتا نہ سنا سکیں۔ تاکہ وہ دہلی میں میڈیا کے سامنے اپنی باتیں نہ رکھ سکیں۔ تاکہ وہ دنیا کو یہ نہ بتا سکیں کہ ان کے ساتھ کیسا ظلم ہو رہا ہے۔ دہلی کسی کی جاگیر نہیں ہے اور نہ ہی کسی نے اس پر اپنا کاپی رائٹ لکھوا رکھا ہے۔ دہلی پورے ملک کی ہے اور ایک ایک بچے کو وہاں پہنچے کی آزادی ہے اور حق ہے۔ اس کے باوجود جب پنجاب اور ہریانہ کے کسان دہلی پہنچنا چاہتے ہیں تو انھیں بزور طاقت روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بات یہیں تک نہیں رکتی بلکہ دہلی کے اسٹیڈیموں کو ان کے لیے جیل خانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور دہلی حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس کی اجازت دے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ دہلی حکومت نے اجازت نہیں دی۔ ورنہ دہلی کے تمام اسٹیڈیم کسانوں کے لیے جیل بنا دیئے گئے ہوتے۔
کسانوں کا جرم کیا ہے؟ صرف یہی نا کہ وہ اپنی محنت کا معاوضہ چاہتے ہیں۔ وہ اس ملک میں جینے کا حق چاہتے ہیں۔ وہ کسان جو پورے ملک کو کھلاتا ہے آج خود اپنے پیٹ کے لیے سڑکوں پر نکل آیا ہے اور حکومت کہتی ہے کہ تمھیں اس کی اجازت نہیں ہے۔ کسانوں کے اس احتجاج کو اور اس تحریک کو ناکام کرنے کے ساتھ ساتھ بدنام کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ بی جے پی کے کئی لیڈروں نے الزام عاید کیا ہے کہ اس احتجاج کے پیچھے خالصتانی عناصر ہیں۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کے امت مالویہ نے بھی ایسا ہی الزام لگایا ہے۔ بی جے پی رہنماؤں نے بغیر کسی ثبوت کے کانگریس کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان لوگوں کو شرم نہیں آتی کہ وہ ان کسانوں کو خالصتانی بتا رہے ہیں جو اپنے حق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔
بی جے پی لیڈروں کو 72 سالہ کسان بھیم سنگھ نے بھرپور جواب دیا ہے۔ ان کا بیٹا فوج میں ہے۔ انھوں نے بی جے پی والوں کو للکارتے ہوئے کہا کہ ان کا بیٹا سرحد پر ملک کی حفاظت کر رہا ہے۔ لیکن اس کے باپ کے ساتھ ایک دہشت گرد اور مجرم کی حیثیت سے پیش آیا جا رہا ہے۔ نہ صرف میرا بیٹا بلکہ میرے بھیتجے بھی فوج میں ہیں اور ملک کا دفاع کر رہے ہیں۔ لیکن آج انھی لوگوں کے خاندان بھوکوں مر رہے ہیں اور حکومت کے نئے زرعی قوانین کی وجہ سے وہ قرضوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ان کے چار بیٹے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا ایک ایک بیٹا آج فوج میں ہے۔ پھر بھی ہمیں دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ ہم اناج اگاتے ہیں۔ لوگوں کو کھلاتے ہیں اور آج ہمیں دہلی کے نرنکاری گراونڈ براڑی میں مجرموں کی طرح لا کر رکھا گیا ہے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر حکومت نے زرعی قوانین واپس نہیں لیے تو ہمارے بیوی بچے اور یہاں تک کہ ہمارے پوتے پوتیاں بھی سڑکوں پر اتر آئیں گے۔ ہم ملک کے لیے کیا کیا نہیں کرتے مگر ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ انھوں نے حکومت سے سوال کیا کہ کہاں گیا ہر شخص کے اکاونٹ میں پندرہ پندرہ لاکھ روپے جمع کرنے کا وعدہ اور کہاں گیا کسانوں کی آمدنی دو گنی کرنے کا لالی پاپ۔
دراصل یہ بی جے پی اور موجودہ حکومت کی ذہنیت ہے کہ اپنے مخالفین کو ملک دشمن کہہ کر دہشت گرد کہہ کر بدنام کر دو تاکہ وہ عوام میں سر نہ اٹھا سکیں۔ جب سی اے اے کے خلاف ملک کے بہت بڑے طبقے نے احتجاج کیا تھا تو ان لوگوں کو بھی دہشت گرد اور ملک دشمن کہا جا رہا تھا۔ اور انھیں بھی عوام کی نظروں میں بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ اس حکومت نے یہ خطرناک پالیسی بنا رکھی ہے کہ جو اس کے ساتھ ہے وہ دیش بھکت ہے اور جو اس کے ساتھ نہیں ہے وہ دیش دروہی ہے ملک دشمن ہے غدار ہے۔
لیکن کسانوں پر ان الزاما ت کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وہ اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں اور اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جائیں گے وہ واپس نہیں جائیں گے۔ انھوں نے مہینوں تک سڑکوں پر رہنے کا انتظام کر لیا ہے۔ جگہ جگہ ان کے بھنڈارے لگے ہوئے ہیں۔ متعدد مساجد میں بھی ان کے کھانے پینے کا انتظام کیا گیا ہے۔ جب مسلمانوں نے سی اے اے کے خلاف تحریک چلائی تھی تو سکھ بھائیوں نے ان کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا تھا۔ لہٰذا آج مسلمانوں نے بھی ان کے لیے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں۔
دراصل حکومت اسی اتحاد سے ڈرتی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ ملک کے مختلف طبقات ایک جٹ اور متحد رہیں۔ اسی لیے دہلی پولیس نے ان سکھوں کے خلاف بھی کارروائی کی ہے جنھوں نے مسلمانوں کی مدد کی تھی۔ لہٰذا یہ اندیشہ ہے کہ اس تحریک کے ختم ہو جانے کے بعد پولیس ایک بار پھر اپنی مکروہ چالیں چلے گی اور تحریک میں شامل لوگوں کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں گے۔ ان کی مدد کرنے والے مسلمانوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ لیکن حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ نہ تو سکھ بھائی حکومت و پولیس کی ان کارروائیوں سے خوف زدہ ہیں اور نہ ہی مسلمان۔
Imambara Ghufranmaab
Add : Maulana Kalbe Husain Road, Chowk, Lucknow-3 (INDIA)
مجلس علماء ھند پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں۔ ادارہ کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔