-
آزاد ہندوستان کاتاریخی فیصلہ
- سیاسی
- گھر
آزاد ہندوستان کاتاریخی فیصلہ
508
M.U.H
15/01/2024
0
0
تحریر:عادل فراز
بالآخر بلقیس بانو نے انصاف کی جنگ جیت لی۔آزاد ہندوستان میں ہم نے پہلی بار انصاف کے لئے اس قدر جدوجہد کا مشاہدہ کیا۔جدوجہد کی لفظ بھی شاید اس کے لئے مناسب نہیں ہے ،بلکہ اس کو انصاف کی جنگ سےتعبیرکرنا ہی مناسب رہےگا۔ناانصافی اور حق تلفی کے اعدادوشمار تو بے حساب ہیں،لیکن اس لڑائی کی نوعیت دوسری تھی ۔بلقیس بانو کاعزم مصمم ،جرأت اور صبرو تحمل کا مظاہرہ تمام انصاف طلب افراد کے لئے قابل عمل ہے ۔ان کی لڑائی چند مجرموں کو سزادلوانے تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ پورے ایک نظام اور اقتدارپر مسلط لوگوں سے لوہالے رہی تھیں ۔اس طویل جنگ میں انہیں بے شمار مصیبتوں اور مشکلوں کا سامنا کرناپڑا،لیکن اس خاتون نے حوصلہ نہیں ہارا۔ انہوں نے ثابت کردیاکہ ہارکر گھر میں بیٹھ جانا ،نفسیاتی مرض میں مبتلاہوجانا یاموت کو گلے لگالینے سے مسائل کا حل نہیں نکلتا،بلکہ میدان عمل میں ڈٹے رہنے اور مشکلات کا مقابلہ کرنےسے مسائل حل ہوتے ہیں۔یہ بھی واضح رہے کہ جب ۱۵ اگست ۲۰۲۲ کو یوم آزادیٔ ہند کے موقع پر گجرات حکومت نے بلقیس بانو کیس کے مجرموںکو رہاکیاتھا،اس کے بعد سب سے زیادہ ردعمل ان خواتین کی طرف سے سامنے آیاتھا،جو فاشزم کے موجودہ عہد میں سیکولر ہندوستان کی پہچان کو قائم رکھنے میں اہم کردار اداکررہی ہیں۔مجرموں کی رہائی کے خلاف مفاد عامہ کی تین درخواستیں دائر کی گئی تھیں ،جن میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا پولیٹ بیورو کی رکن سبھاشنی علی ،ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا،صحافی ریوتی لائول اور پروفیسر روپ ریکھا ورما جیسی شخصیات شامل ہیں ۔ظاہر ہے مہوا موترا کےساتھ جو کچھ ہوا،اس میں بی جے پی کےخلاف ان کا اٹل موقف ،زعفرانی تنظیموں کے ایجنڈے پر کھلی تنقیداور گجرات حکومت کے جرم کے خلاف عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی شامل ہے ۔
ایسانہیں ہے کہ بلقیس بانو آزاد ہندوستان کی وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے اس قدر ظلم برداشت کیا ۔ہرگزنہیں! نہ جانے کتنی ایسی €خواتین ہیں جو اس کرب سے گذری ہیں لیکن وہ بلقیس بانو جیسا عزم و حوصلہ نہیں رکھتی تھیں ،اس لئے ان کی مظلومیت ظاہر نہیں ہوسکی ۔گجرات میں جو کچھ ہواوہ درندگی کا پہلاواقعہ نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی مسلسل ایسے بدنما واقعات رونما ہوتے رہےہیں جنہوں نے آزاد ہندوستان کی تاریخ کو شرم سار کیاہے ۔یرقانی تنظیموں کے عروج کے بعد جس طرح مسلمانوں کو دبانے اور کچلنے کی سیاست ظہور میں آئی ،اس کی نظیر دنیا میں نہیں ملے گی۔ایساصرف بی جے پی کے دور اقتدار میں نہیں ہوابلکہ یہ سلسلہ کانگریس کے عرصۂ حکومت میں شروع ہوچکاتھا ۔مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے فرضی مقدموں میں گرفتارکرکے ان کے مستقبل کو برباد کرنا،اس بنیاد پر مسلمانوں کو مشکوک قراردینا اور ان کی اجتماعی تذلیل کرنا،اچھے اور برے مسلمانوں کی تفریق کو جنم دینااورمسلمانوں کے خلاف منظم سیاسی اور سماجی بیانیہ کو تشکیل دیناہر €حکومت کا بنیادی کارنامہ رہاہے،جس میں کانگریس کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیاجاسکتا ۔آزاد ہندوستان میں فسادات کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کی گئی لیکن گجرات میں ہوئے مسلم کش فساد کی مثال نہیں ملے گی۔اس فساد نے ہاشم پورہ کے زخم تازہ کردئیے تھے جبکہ گجرات میں ہوا نقصان ہاشم پورہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھا۔ہاشم پورہ اور سلطان پور میں ہوئے فساد کی کڑیاں آپسی میں ملتی ہیں ۔انہی فسادات کے بعد یرقانی تنظیموں کی خوشنودی کے لئے بابری مسجد کا دروازہ کھلوایاگیاتھا جس نےاترپردیش سے کانگریس کے وجود کو ختم کردیا۔آج راہل گاندھی انہی زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کانگریس اب تک اترپردیش کے مسلمانوں کااعتبار نہیں جیت سکی ۔جس طرح گجرات فساد کے بعد اب تک اس کے سیاسی مجرموں کو مسلمان بھلا نہیں سکے ۔بعض وہ مسلمان چہرے جو بی جے پی اور یرقانی تنظیموں کی خوشنودی کی خاطر ہر مسئلے کا €ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہراتے رہتے ہیں ،وہ بھی اپنی قوم کے درمیان منفور سمجھتے جاتے ہیں اور ان کااعتبارساقط ہوچکاہے ۔وہ نہ بی جے پی کے کام آسکتے ہیں اور نہ بی جے پی میں رہ کر مسلمانوں کابھلاکرسکتے ہیں ۔کیونکہ ملت کو آج جس ہزیمت اور پسماندگی کا سامنا کرنا پڑرہاہے اس کی ذمہ داری جہاں ان دونوں سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے وہیں مسلم قیادت کو بھی اس €ذمہ داری سے بری نہیں کیاجاسکتا۔وہ قیادت جو آج گونگی اور بہری بنی ہوئی ہے ۔جو مزاحمت اور بغاوت کی قوت سے محروم ہوچکی ہے ۔
عدالت عظمیٰ نے گجرات حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے سوال کیاکہ اس نے مئی ۲۰۲۲ کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی عرضی کیوں داخل نہیں کی،جس میں اسے مجرمین کی سزا معاف کرنے کا مجاز قرار دیاگیاتھا۔جسٹس بی وی ناگرتھنااور اجل بھوئیاں نے مقدمے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ بلقیس بانو کا مقدمہ گجرات سے مہاراشٹر اسی لئے منتقل کیاگیا تھاکیونکہ وہاں انصاف ملنے کی امید نہیں تھی ۔گجرات حکومت مجرمین کی رہائی کے لئے غیر مجاز تھی ،اگر مجرموں کی رہائی کے لئے کوئی اقدام کرنا تھاتو اس کے لئے مہاراشٹر حکومت مجاز تھی کیونکہ مقدمہ اسی ریاست میں چلایا گیاتھا۔جسٹس بی وی ناگرتھنانے اس تاریخی فیصلے کو لکھتے وقت یونان کے مشہور فلسفی افلاطون کا قول بھی نقل کیا جس میں قاضی اور منصف کو ڈاکٹر کے ہم پلہ قراردیاگیاہے جو اپنے مریضوں کی بہتری اورشفایابی کے لئے اسے تلخ سے تلخ دوائیں دیتاہے ۔گویاکہ جسٹس ناگرتھنا یہ کہناچاہتے تھے کہ معاشرتی اقدار کی بہتری کے لئے منصف اور قاضی کو ڈاکٹر کی طرح کام کرنا چاہیے جو مریض کے مرض پر توجہ مرکوز کرتاہے ناکہ اس کے مذہب اور ذات پر ۔انہوں نے اپنے فیصلے میں کہاکہ متاثرہ اور اس کے اہل خانہ کو انصاف کاحق حاصل ہے اور ایک خاتون خواہ وہ کسی بھی سماج،مذہب اور نسلی پس منظر سے تعلق رکھتی ہو،اس کو احترام کا حق بھی حاصل ہے ۔عدالت عظمیٰ کے دوججوں کی بینچ نے اس مقدمے میں پانچ بنیادی سوالات قائم کرتے ہوئے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔بینچ نے آرٹیکل ۳۲ کے تحت بلقیس بانو کی درخواست کو قابل سماعت قراردیتے ہوئے مجرمین کے وکلاء کے تمام دلائل کو مسترد کردیا۔بینچ نے ضابطہ فوج داری کی دفعہ ۴۳۲ کی تشریح کرتے ہوئے کہاکہ اس میں مناسب حکومت کے التزام کے ساتھ یہ بھی مذکورہے کہ حکومت سزاسنانے والے جج کی رائے کی بنیاد پر مجرمین کی رہائی پر غورکرسکتی ہے ۔جبکہ گجرات حکومت نے بلقیس بانو کے مجرموں کو خودمختارانہ حیثیت سے رہاکردیاتھا تاکہ اس کو انتخابی فائدہ مل سکے ۔گویا گجرات حکومت خود کو عدالت عظمیٰ سے برتر اور آئین کو حقیر سمجھ رہی تھی ۔اسی بنیاد پر عدالت عظمیٰ نے مجرموں کی رہائی کو غیر آئینی مانتے ہوئے گجرات حکومت کے فیصلے کو کالعدم قراردیااور کہاکہ گجرات حکومت نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔گویا عدالت نے واضح الفاظ میں کہاکہ یہ ایک طرح کا آمرانہ فیصلہ تھا جس میں آئین کی بالادستی اور منصفانہ طریق کو نظر انداز کیاگیا۔عدلیہ نے یہ بھی کہاکہ اگر مجرموں کو سزا سے بچنے اور اس طرح کی آزادی فراہم کی گئی تو معاشرے میں امن و امان کا قیام ایک سراب بن کر رہ جائے گا۔اس سے پہلےبھی جسٹس ناگرتھنا نے گجرات حکومت کے رویے پر سخت تنقیدکرتے ہوئے کہاتھاکہ جیلیں قیدیوں سے بھری پڑی ہیں تو پھر انہیں سدھرنے کاموقع کیوں نہیں دیاجاتا؟ صرف منتخب قیدیوں کو ہی رہائی کیوں دی گئی ؟ اس پالیسی کو ان معاملات میں کیوں نافذ نہیں کیاگیا جہاں مجرموں نے ۱۴ سال کی سزا مکمل کرلی ہے ؟ ظاہرہے عدلیہ باربار اپنےتبصروں میں گجرات حکومت کی انسانیت مخالف ذہنیت پر تنقید کررہی تھی ،جو نچلی عدالتوں اوربعض ان ججوں کے لئے بھی نظیر ہے جو سرکار اور زعفرانی گروہ کےزیر اثر ہیں ۔عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے انصاف اور آئین کی بالادستی قائم ہوگی اور وہ لوگ جن کااعتبار عدلیہ پر کم ہورہا تھاایک بارپھر ان کااعتبار بحال ہوگا۔اس فیصلے کے بعد ملک کے مظلوم عوام جو اپنے حق اور انصاف کے لئے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں ،ان کے یقین میں اضافہ ہوگا۔ساتھ ہی عدلیہ کا سخت موقف ان حکمرانوں کے لئے بھی درس عبرت ثابت ہوگا جو اقتدار کی ہوس میں انتخابی فائدے کے لئے مجرموں ،قاتلوں اور زانیوں کی نا صرف پذیرائی کرتے ہیں بلکہ انہیں جمہوریت کے مندر میں رکنیت بھی دلوادی جاتی ہے ۔اب دیکھنایہ ہے کہ ان مجرموں کے ساتھ سرکار کا رویہ کیساہوگاکیونکہ اس سے پہلے ان کی سزا کی ایک مدت پیرویل پر گذری ہے ۔ایسانہیں ہے کہ انصاف کی یہ جنگ یہیں ختم ہوجائے گی بلکہ بلاقید مذہب و ملت تمام زندہ €ضمیر اور حق پسند لوگوں کو متحد ہونا ہوگا۔مسلمانوں کو بھی اس حقیقت کو باورکرنا ہوگاکہ ابھی ہندوستان کی جمہوری اور آئینی روح ختم نہیں ہوئی ہے ۔وہ گنگا جمنی تہذیب جس کی باتیں بزرگ کرتے تھے ،اس کازوال ضرور ہواہے ،لیکن خاتمہ نہیں ہوا۔ایک بار پھر اس خوش گوار فضا کو قائم کیاجاسکتاہے،البتہ اس کے لئے سخت جدوجہد اور دوطرفہ ایثار کی ضرورت ہے۔