"امریکہ اسرائیل پر قربان"
ویسے تو امریکہ عام طور پر علاقے میں اسرائیل کے مفادات کے لئے بہت سے اخراجات خلیج فارس کی عرب قبائلی حکومتوں سے وصول کرتا ہے لیکن اس کے اپنے اخراجات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ جاثیہ تجزیاتی نیوز کے مطابق، اسرائیل کو امریکی مالی امداد کی فراہمی کی کیفیت کچھ زیادہ ہی دلـچسپ ہے۔ 1991 میں امریکی کانگریس کے منظور کردہ قانون کے مطابق، یہودی ریاست ہر سال کے آغاز پر امداد کی پوری رقم وصول کرتی ہے؛ یعنی امریکی انتظامیہ ـ جس بھی جماعت سے تعلق رکھتی ہو ـ پر لازم ہے کہ بیرونی ذرائع سے قرض لے کر یہودی ریاست کو کافی موٹی رقم ادا کرے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ امریکہ میں سب دست بہ سینہ ہوکر یہودی ریاست کے سامنے کرنش کررہے ہوں؛ وہاں بھی کئی لوگ بالخصوص جامعات سے وابستہ اساتذہ اور طلبہ اور ممتاز علمی شخصیات ہیں جو صہیونی ریاست کے سامنے امریکہ جیسی بڑی طاقت کی کرنش اور خفت آمیز معذرت خواہانہ پالیسیوں پر انگلی اٹھاتی ہیں گوکہ یہ سوالات بطور معمول تشنہ جواب ہی رہتے ہیں اور ان کا کوئی معقول جواب نہیں دیا جاتا اور ابہام برقرار رہتا ہے۔
“امریکہ کی طرف سے یہودی ریاست کی ہمہ جہت حمایت کا خرچہ ـ منافع” ایک بہت اہم سوال ہے جو میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی شعبہ لسانیات کے پروفیسر “آوراہام نوآم [نوعام] چومسکی” سے پوچھا گیا لیکن امریکہ کے سپید و سیاہ کے مالک سیاستدانوں نے ابھی اس کا جواب نہیں دیا ہے۔
امریکہ اپنی بساط پر کھیلنے والے ممالک کو سالانہ مالی اور عسکری امداد دیا کرتا ہے اور امریکی کانگریس کے تحقیقی مرکز کی رپورٹ کے مطابق بیرونی ممالک کو دی جانے والی امداد کا 53 فیصد حصہ یہودی ریاست کو دیا جاتا ہے جبکہ امریکہ دنیا بھر میں پہلے درجے کا مقروض ملک ہے جس پر قرضوں کا حجم 2000 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے؛ یہودی ریاست کو ملنے والی امریکہ کی اوسط سالانہ عسکری امداد تین ارب ڈالر ہے؛ یہ عسکری امداد در حقیقت اس ریاست کے سالانہ فوجی بجٹ کا پانچواں حصہ ہے اور اس رقم کا ایک تہائی حصہ مختلف امریکی کمپنیوں سے ساز و سامان کی خریدار پر خرچ ہوتا ہے جبکہ دو تہائی حصہ مقبوضہ فلسطین میں واقع یہودی کمپنیوں سے عسکری ضروریات کی اشیاء خریدنے کے لئے خرچ کیا جاتا رہا ہے۔
اسرائیل کو امریکی مالی امداد کی فراہمی کی کیفیت کچھ زیادہ ہی دلـچسپ ہے۔ 1991 میں امریکی کانگریس کے منظور کردہ قانون کے مطابق، یہودی ریاست ہر سال کے آغاز پر امداد کی پوری رقم وصول کرتی ہے؛ یعنی امریکی انتظامیہ ـ جس بھی جماعت سے تعلق رکھتی ہو ـ پر لازم ہے کہ بیرونی ذرائع سے قرض لے کر یہودی ریاست کو کافی موٹی رقم ادا کرے۔
گیلپ کمپنی کی 2014 کے سروے کے مطابق 18 سے 34 سال کے 50 فیصد نوجوان اسرائیل ـ فلسطین تنازعے سے متعلق خبروں میں دلچسپی نہیں دکھاتے اور باقی 50 فیصد رائے دہندگان کی رائے کے مطابق یہودی ریاست ہمدردی اور مدد و حمایت حاصل کرنے کے لئے مناسب ریاست نہیں ہے۔
2016 کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ جماعت کے نامزد امیدوار برنی سینڈرز (Bernie Sanders)، جنہوں نے یہودی ہوتے ہوئے بھی، یہودی ـ صہیونی ریاست کے خلاف مسلسل خطابات کے ذریعے امریکی نوجوانوں کے جذبات کو ابھار کر انہیں اپنے ساتھ کرلیا تھا، نے اپنے خطاب میں صلکونی ریاست کی پالیسیوں اور امریکہ کی طرف سے اس کی اندھادھند حمایت کو کڑی نکتہ چینی اور خردہ گیری کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: امریکی عوام ایک مشترکہ اور یکسان موقف پر زور دیتے ہیں کہ جو کچھ بنیامین نیتن یاہو اور دوسرے اسرائیلی حکام کہتے ہیں ضرورتا صحیح نہیں ہے اور ہمیں ان کے موقف کی قیمت ادا نہیں کرنا چاہئے”۔
بہرحال خرچ اور منافع متوازن نہ ہو تو سوالات اٹھتے ہی ہیں، اور اگر خرچ اور منافع متوازن نہ ہو یا خرچ ہو اور منافع سرے سے موجود ہی نہ ہو تو اس خرچ اور قومی مفادات کے درمیان تضاد کا سوال اٹھے گا اور اسرائیل کو فراہم کی جانے والی امداد کے سلسلے میں امریکہ میں ایسے ہی سوال اٹھے ہوئے ہیں جن کا کوئی بھی جواب نہیں دے رہا ہے۔ امریکہ کے قومی مفادات اور اسرائیل کی حمایت میں تضاد ہے اور اس سے زیادہ اہم بات یہ کہ اس تضاد کو امریکیوں نے سمجھ لیا ہے اور اس مضمون کے آغاز میں اٹھائے جانے والے سوال اور دوسرے سوالات نے اسی تضاد سے جنم لیا ہے ۔۔۔
اسرائیل کی حمایت پر امریکہ کو کس قدر قیمت چکانا پڑتی ہے؟
“با وجود اس کے کہ امریکی عوام کی زندگی کی بہبود پر خرچ ہونے والے مالی ذرائع کی کیفیت پر جتنا جی چاہے اختلاف پایا جاتا ہے لیکن یہودی ریاست کو امداد کی فراہمی پر کیوں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے خواہ یہ امداد امریکہ کے قومی مفادات کی پامالی کے زمرے میں ہی کیوں نہ آتی ہو؟ ”
البتہ کچھ لوگوں نے اخبارنویسانہ انداز سے اور کچھ نے عمرانیاتی لحاظ سے اس سوال کے مختلف النوع جوابات دیئے ہیں اور مثلا کہا ہے: امریکی نظام کا ڈھانچہ سرمایہ داری (Capitalism) ہے جس میں پیسے کو بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔ لبرلسٹ قوتوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے لئے جو روش مقرر رکھی ہے؛ اس نظام میں معیشت ہر حکومت کی پالیسیوں کو سمت و جہت دینے میں ایک بنیادی عنصر کا کردار ادا کرتی ہے اور سفارتکاری در حقیقت ممالک کے بین الاقوامی مفادات کا ایک شعبہ سمجھی جاتی ہے۔
اس تمہید کے ساتھ جان لینا چاہئے کہ یہودی ریاست کے تمام یا پھر اکثر بڑے اداروں اور صدر کمپنیوں (Parent companies) کے مالکان وہ لوگ ہیں جو امریکہ میں چھوٹی اور اوسط درجے کی کمپنیوں کا انتظام و انصرام سنبھالے ہوئے ہیں، یعنی یہ کہ کوشش کی جارہی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے معاشی مفادات کو ایک دوسرے سے وابستہ کیا جائے جو ایک جاری اور حقیقی رویہ ہے۔
چنانچہ جتنا بھی امریکی مصنوعات اور کمپنیوں اور اداروں میں بطور سرمایہ لگایا جائے گویا کہ وہ مقبوضہ فلسطین میں نتیجہ خیز ثابت ہؤا ہے۔ یہی وابستگی ہے جس کے سبب امریکی سیاستدانوں کو اقتدار تک پہنچنے کے لئے صنعتوں اور کمپنیوں کے مالکان کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنا پڑتی ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ کی زیادہ تر صنعتوں اور کمپنیوں کے مالکان یہودی اور صہیونی ہیں جن کی خوشنودی صداراتی انتخابات تک میں بھی حاصل کرنا کامیابی کی ضمانت ہے!!!
مذکورہ معاشی موضوعات کے علاوہ ـ جو واشنگٹن ـ تل ابیب کے سیاسی ڈھانچے کی یکسانی کی اہم ترین دلیل ہے، ـ خواہ واشنگٹن یا تل ابیب میں حکومت جس جماعت کی ہی کیوں نہ ہو ـ مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ (اور مغربیوں کے بقول “مشرق وسطی”) کے لئے امریکی تزویری منصوبوں کی بنا پر بھی امریکی خارجہ پالیسی میں یہودی ریاست کی حیثیت زیادہ اہمیت کی حامل ہوئی ہے چنانچہ اب امریکی قوم پر حکومت کرنے والی امریکی انتظامیہ کو بھی امریکی مفادات کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ اگرچہ بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکی مفادات کی قربانیاں امریکہ ہی کے مختلف صدور کے الگ الگ کشورکشایانہ سپنوں کے لئے دی جارہی ہے لیکن جو لوگ اسرائیل کی جانبداری میں امریکہ کی زیادہ روی پر معترض ہیں، انہیں اس قسم کے تجزیئے قائل نہیں کرسکے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ خواہ پس پردہ کچھ بھی ہو، کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ امریکہ اپنے تمام تر مفادات کو اسرائیل پر قربان کررہا ہے جبکہ اسرائیل کے بغیر علاقے کے ممالک کے ساتھ زیادہ بغیر کسی خرچ کے دوستانہ تعلقات قائم کرنا ممکن تھے جبکہ اسرائیل کو پالنا بھی امریکہ کی ذمہ داری ہے، اس کی اندرونی اور بیرونی سلامتی کی ذمہ داری بھی امریکہ پر عائد ہے اور پڑوسی ممالک کو اس ریاست سے دور یا مصروف رکھنے کے لئے بھی الگ سے اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔
امریکہ کی موجودہ خارجہ پالیسی میں یہودی ریاست کا رتبہ وہی ہے جو پہلوی دور میں واشنگٹن کی خارجہ پالیسی میں ایران کو حاصل تھا۔ اُس زمانے میں امریکہ کی اصولی تزویری پالیسیوں کے برعکس، امریکہ نے ایران کو جدیدترین ہتھیاروں اور سازوسامان سے لیس کیا تا کہ ایران علاقے کا پولیس مین اور واشنگٹن کا نمائندہ ہو۔۔۔ اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد یہ کردار فلسطین اور قبلہ اول پر قابض یہودی ریاست کو تفویض کیا گیا۔
المختصر، جب تک کہ فریقین کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں یا یوں کہئے کہ جب تک کہ واشنگٹن میں اسرائیل یا یہودی ریاست نامی بگڑے ہوئے بچے کے نخروں کے خریدار موجود رہیں گے، یا پھر یوں کہ “جب تک کہ امریکہ صنعت و تجارت اور انتظامیہ اور عدلیہ اور افواج تک پر یہودی لابی مسلط رہے گی اور یہودی کمپنیوں کا فیصلہ بادشاہ گری کا کردار ادا کرتی رہیں گی اسرائیل کے تحفظ کے لئے کہیں تک بھی جایا سکتا ہے خواہ اس کے لئے امریکی عوام کو نہایت بھاری اور ناقابل انکار نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ [لگتا ہے کہ ٹرمپ جیسے صدور اور ان کے ہم جماعتوں کے ساتھ ساتھ صہیونی ریاست اور بعض عرب ریاستیں، جو حال ہی میں شرمناکیوں کو پھلاگ کر یہودی ریاست کی گود میں بیٹھی ہوئی ہیں، مل کر ہی امریکہ کو نیست و نابود کررہے ہیں]۔
بقلم: مہدی خان علی زادہ و فرحت حسین مہدوی