-
یوم قدس اوراس کے اثرات
- سیاسی
- گھر
یوم قدس اوراس کے اثرات
248
M.U.H
28/03/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
’یوم قدس ‘ہرسال ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو فلسطین کی آزادی اور قبلۂ اول کی بازیابی کے لئے احتجاج کا مخصوص دن ہے ۔جب ایران میں انقلاب اسلامی کی تحریک پروان چڑھ رہی تھی ،اس سے ٹھیک پہلے اسرائیل کے قیام کا باضابطہ اعلان کردیاگیاتھا۔۱۹۴۸ء میں یہودیوں نے اسرائیلی ریاست کاباقاعدہ اعلان کیاجس کی مخالفت روز اول ہی سے شروع ہوگئی تھی ۔اس ریاست کے قیام کا مقصددنیا بھر میں منتشراور آورہ یہودیوں کو ایک مستقل وطن فراہم کرنا تھا۔ انہوں نے عالمی استکبار کی مدد سے اس پورے علاقے کو اپنی مذہبی کتاب کی روشنی میں ’پرومیسڈ لینڈ‘ سے تعبیرکیاجس کا بنیادی ہدف ’گریٹر اسرائیل‘ کی تشکیل پر مبنی تھا۔عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ جیسے اداروں نے بھی مسئلۂ فلسطین کے حل پر خاص توجہ نہیں دی بلکہ ان کا کردار اسرائیل کی حمایت اور اس کے ناجائز وجود کو جواز فراہم کرانے میں متحرک رہاہے ۔اسی بناپر فلسطین کی خودمختارانہ حیثیت اور القدس کی بازیابی کئے یہ تحریک منصہ شہود پر آئی۔
یوم قدس کے آغاز کے متعلق بعض یہ کہتے ہیں کہ یہودی۱۹۶۸ء سے ہرسال ’یوم یروشلم ‘ مناتے تھےجو ۱۹۹۸ء میں قومی تعطیل میں بدل دیاگیا۔’یوم یروشلم ‘ کے خلاف امام خمینیؒ نے ’یوم قدس‘ کااعلان کیاتاکہ ’یوم یروشلم ‘ کی طرز پر ہر سال ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو اسرائیلی ناجائز قبضے اور فلسطین کی آزادی کا مطالبہ دہرایاجاسکے ۔لیکن یہ پس منظردرست معلوم نہیں ہوتا۔کیونکہ یوم قدس کا مقصد ’یوم یروشلم ‘ کا جواب دینا نہیں تھا۔بلکہ اس دن کو بطور احتجاج منانے کا مقصد یہ تھاکہ فلسطینی مظلوموں کی حمایت کی جائے اور مقدس سرزمین سےیہودی قبضے کو خالی کرانے کی تحریک میں روح پھونکی جائے جو عربوں کی بے غیرتی کی بنیاد پر دم توڑ رہی تھی ۔امام خمینی نے جب۷ اگست ۱۹۷۹ء میں پہلی بار ’یوم قدس‘ منانے کا اعلان کیااُس وقت اس کو شیعہ وسنّی کی عینک سے دیکھاگیا۔مسلمانوں کی اکثریت نے یوم قدس کی مخالفت کی ۔خاص طورپر ماہ رمضان جس کو طاعت وعباد ت کا مہینہ کہاجاتاہے اور اس کا آخری جمعہ مسلمانوں کے لئے بڑی اہمیت کاحامل ہے ،اس دن یوم قدس کی تحریک کو رمضان کی عظمتوں سے چشم پوشی اور عبادت وطاعت سے انحراف کا سبب قراردیاتھا۔اس کے پس پردہ صہیونی سازشیں کارفرماتھیں تاکہ یوم قدس کی تحریک کو ابتدا ہی میں کچل دیاجائے ۔اس کے لئے انہوں نے تکفیری اوروہابی مولویوں اور مفتیوں کا بھی استعمال کیا ۔انجام کار مسلمانوں نے اس تحریک کے اثر کو باورکیااور آج پوری دنیامیں ’یوم قدس‘ منایاجاتاہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر آیت اللہ خمینیؒ ’یوم قدس‘ کی تحریک شروع نہ کرتے تو مسئلۂ فلسطین اپنے قیام کے فوراًبعد دم توڑدیتا۔یوم قدس نے آہستہ آہستہ رفتارپکڑی اور پھر پوری دنیاکو اپنی گرفت میں لے لیا۔اس کے اثرات ظاہر ہونے لگے ۔جہاں صہیونی اثر تھاوہاں انہوں نے اس نہضت میں خلل ڈالنے کی کوشش کی اور یہ مشہور کردیاگیاکہ یوم قدس در اصل ’ضد سامیت(Anti Semitism) ‘ ہے ۔گویاکہ اسرائیل نے اس تحریک کویہودی مخالف تحریک کے طورپر متعارف کرانے کی کوشش کی تاکہ دنیا اس کے پس پردہ کارفرما مقصد اور مسئلہ فلسطین پر توجہ مرکوز نہ کرسکے ۔امام خمینیؒ نے پہلی بار جب فلسطین کی آزادی اور یہودی قبضے کے خلاف آواز احتجاج بلند کرتے ہوئے یوم قدس منانے کی اپیل کی توان کا درد دل اس طرح جھلکا:
’’میری دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیں اور اس دن فلسطین کے مسلمان عوام کے قانونی حقوق کی حمایت میں اپنے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ میں عرصۂ دراز سے تمام مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کے خطرے سے آگاہ کر رہا ہوں، جس نے ان دنوں ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں پر اپنے مظالم میں اضافہ کر دیا ہے اور خاص طور پر جنوبی لبنان میں فلسطینی مجاہدین کے خاتمے کے لیے ان کے گھروں پر مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ میں پورے عالم اسلام کے مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو جائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کے دن جو ایام قدر میں سے بھی ہے اور فلسطینی عوام کی تقدیر کو واضح کرنے کا دن بھی ہو سکتا ہے، اس کو 'یوم القدس قرار دیں اور کسی پروگرام کے ذریعے بین الاقوامی طور پر ان مسلمان عوام کے ساتھ تمام مسلمانوں کی ہمدردی کا اعلان کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو کافروں پر فتح عنایت کرے۔‘‘
اس تحریک کے اثر کو عرب ملکوں نے بھی محسوس کیااور آہستہ آہستہ ان کے عوام بھی فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے لگے ۔۱۹۸۹ء میں اردن کی حکومت نے بھی سرکاری سطح پر یوم قدس کا اہتمام کیاتھا۔معروف مفکر ایڈورڈ سعید لکھتے ہیں :’’اگر مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنامقصودہے توفلسطینیوں کے مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ غوروفکرکرناہوگا۔‘‘یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسئلۂ فلسطین کے حل تک مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔جنگ اور بدامنی اسی طرح جاری رہے گی ۔دنیا کی کوئی طاقت فلسطینیوں کو ان کے مطالبے اور جائز حق سے دست بردارنہیں کرسکتی ۔
عالمی یوم قدس کے اثرات ہمہ گیر اور مسلمانوں کے ساتھ دنیا بھر کےانسانوں کے جذبات واحساسات پر محیط ہیں۔دنیا کا کوئی بھی حق پسند اور منصف مزاج انسان اب مسئلۂ فلسطین پر دُہرے رویّے کا اظہارنہیں کرتا۔اس رائے کی تشکیل وتعمیر میں یوم قدس کی تاثیر اور مزاحمتی محاذ کی قربانیوں کا بڑادخل ہے ۔ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ خامنہ ای نے اپنی ایک تقریر میں کہاتھاکہ:’عالمی یوم قدس دنیا کے غیور مسلمانوں کو مظلوم فلسطینی قوم کے دفاع اور حمایت کی سنگین ذمہ داری کی پہلے سے زیادہ تاکید اور یاددہانی کراتاہے ۔ امام خمینی ؒ نے اس دن کا اعلان کرکے انسانی ضمیروں کی سطح پر مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا اور صیہونی حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو ایک نقطےپر مرکوز کر دیا۔‘‘
آیت اللہخمینی نے یہودی ریاست کو ’سرطان‘ سے تعبیرکیاتھا۔یہ سرطان اب پورے شباب پر ہے اور اس کی تکلیف پوری دنیامحسوس کررہی ہے ۔خاص طورپر وہ عرب ملک جو ’گریٹراسرائیل‘ کی زد میں ہیں وہ بھی امام خمینیؒ کی دوراندیشی اور سیاسی حکمت عملی کے قائل ہوچکے ہیں ۔گوکہ اب ان میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ اس ’سرطان ‘ کا علاج کرسکیں مگر ان کے عوام اس کی تکلیف کی شدت سے چیخ رہے ہیں ۔یمن جو اسرائیلی ریاست کےقیام کے فوراًبعد اُردن ،مصر ،شام اور عراق کے ساتھ جنگ میں شامل نہیں ہواتھا،آج اسرائیل کے خلاف میدان عمل میں ہے ۔اُردن جس کے حکمرانوں کو صہیونیوں نے اپنا ہم نوابنالیاتھاوہ بھی غرب اردن میں صہیونیت مخالف تحریکوں کو پنپنے سے نہیں روک پارہے ہیں ۔اسی طرح لبنان جس کی حکومت میں صہیونی حامی عناصر ہمیشہ شامل رہے ہیں ،اب اس سرطان کے بڑھتے ہوئے دائرۂ اثر سے پریشان ہے ۔اس کی حکومت بھی حزب اللہ جیسی تنظیم کو وجود میں آنے سے نہیں روک سکی ۔اسی طرح شام اور عراق میں صہیونیت کے خلاف عوامی بیداری میں بہت تیزی آئی ہے ۔اسرائیل کے ہم سایہ ملکوں کے علاوہ غیر مسلم ملک بھی اسرائیل کےفساد سے روشناس ہورہے ہیں اور ان کے یہاں بھی صہیونت مخالفت تحریکیں پنپ ر ہی ہیں۔یوم قدس کی تاثیر پر گفتگوکرتے ہوئے آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں:’’اگر عالم اسلام اس دن کو کما حقہ منائے اور صیہونیوں کے خلاف فلک شگاف نعرے بلند کرنے کے لئے اس دن کا بخوبی استعمال کرے تو کافی حد تک دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے، اسے پسپائی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔‘‘
مختصر یہ کہ امام خمینیؒ کی آواز نے پوری دنیا کی توجہات مسئلہ فلسطین کی جانب مبذول کیں اور اس انتقاضہ کو زندہ رکھنے میں اہم کردار اداکیا۔اگر یوم قدس کی تحریک معرض وجود میں نہ آتی تو جس شدت سے آج مسئلہ فلسطین دنیاکے سامنے موجود ہے ،شاید نہیں ہوتا۔خاص طورپر جس استقامت اور مقاومت نےخطے میں نموپائی ہے اس کے عناصر کو پنپنے کے لئے مزید وقت درکار ہوتا۔