-
چلتی ٹرین سے لیکر نوح تک نفرت کی آگ ۔ کون ذمہ دار ؟
- سیاسی
- گھر
چلتی ٹرین سے لیکر نوح تک نفرت کی آگ ۔ کون ذمہ دار ؟
378
m.u.h
08/08/2023
0
0
تحریر:روش کمار
چلتی ٹرین میں چیتن سنگھ نام کا ایک آر پی ایف کانسٹبل اپنی بندوق سے چار لوگوں کا قتل کردیتا ہے ۔ وزیر ریلوے اس خطرناک واقعہ کی مذمت میں ایک ٹوئیٹ تک نہیں کرتے ہیں ۔ حالانکہ وہ یہ پیام دے سکتے تھے کہ ریلوے میں ایسی حرکات برداشت نہیں کی جائیں گی ۔ جبکہ اس واقعہ میں ریلوے پروٹیکشن فورسس کے اسسٹنٹ انسپکٹر تکارام مینا کا بھی قتل ہوا ہے ۔ وزیر ریلوے کی اس خاموشی کو آپ جیسے پڑھتے ہیں لیکن انتخابات ہوں یا نہ ہوں اب ایسے واقعات کی اطلاعات کہیں نہ کہیں سے آتی رہیں گی انہیں رپورٹ کرنا بھی کسی نفسیاتی بیماری یا ذہنی تناؤ کے قریب پہنچنے سے کم نہیں ہے ۔یکم اگسٹ کے ہی مختلف اخبارات میں ایسی کئی خبریں شائع ہوئی ہیں ہریانہ کے گروگرام فریدہ آباد میں تناؤ کی خبریں شائع ہورہی ہیں یہاں سے آنے والی خبریں دل و دماغ میں تناؤ بھر دیتی ہیں گزشتہ دس سال کے دوران میوات میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور تناؤ پیدا کرنے کی کتنی کوشش ہوئیں اور کس نے کی ؟ ایمانداری سے دیکھیں تو پتہ جل جائے گا ۔ کبھی مہا پنچایت تو کبھی ویڈیو بناکر کھلے عام دھمکیاں ، طرح طرح کی یاتراوں کے نام پر تناؤ پیدا کئے جانے کی ان خبروں کو آپ اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے ٹھیک سے پڑھ لیجئے ۔ جنہیں ڈاکٹر ، انجینئر بنانا چاہتے ہیں میری نیت صرف اتنی ہے کہ وہ آپ کے بیٹوں کو فسادی بنانا چاہتے ہیں میں چاہتا ہوں کہ آپ کے بچے ڈاکٹر بنیں ، اگر مذہب کو اتنا ہی خطرہ ہے تو اس کی لڑائی کی ذمہ داری ان ہی کے کندھوں پر کیوں ہے جو غریب گھر کے لڑکے ہیں ۔ جو سر پر پٹی باندھ کر یاتراوں میں للکارنے والے نعرے لگاتے ہیں اور ڈی جے بجاتے ہیں ، تشدد میں شامل ہوجاتے ہیں ، متوسط طبقہ اور ہاوزنگ سوسائٹیز کے واٹس ایپ گروپس کے انکلس اپنے بچوں کو بیرونی ملک بھیج کر ان غریب بچوں کیلئے تالی بجاتے ہیں جو اس طرح کی سیاست کی وجہ فسادی اور قاتل بن جاتے ہیں ۔ واقعات کہیں کے بھی ہوں مگر سب ہی میں باتیں ایک جیسی سنائی دیتی ہیں ۔ یو پی کے بریلی سے لیکر ہریانہ کے نوح تک جو ہورہا ہے وہ اس لئے ہورہا ہے تاکہ مذہب کی سیاست کے نام پر وہ قائدین دیوتا بن جائیں اور آپ کا وہ بیٹا فسادی ، اس ملک میں پولیس کا انتظام ہے فوج کا نظم ہے لیکن اس کے بعد بھی آسام سے یہ خبر ہیکہ ایک تنظیم نوجوانوں کو بندوق چلانے کی تربیت دے رہی ہے کیا وہ محافظ بنارہا ہے ؟ کیا اسے فوج اور پولیس کی منظوری دی جاسکتی ہے ۔ کیا اس کی اجازت ہیکہ دوسرے مذاہب کے لوگ ایسا کریں گے تو ایساکرنے کی اجازت دی جائے گی ؟ کوئی ہے ! جس کا نام آپ جانتے بھی ہیں وہ چاہتا ہے کہ آپ جو دن رات اپنی اپنی غریبی سے لڑائی لڑرہے ہیں ، گھر چلانے کی لڑائی لڑرہے ہیں آپ اپنی لڑائی چھوڑدیں اور اس کی لڑائی لڑیں مذہب کے نام پر اپنے پڑوسی سے بھڑ جائیں، پڑوس میں کوئی نہ ملے تو کسی دوسری بستی میں جاکر لڑجائیں آپ لڑیں گے تب ہی اس کا اقتدار بچے گا ۔ اس لڑائی نے معاشرہ کو بیمار کردیا ہے اور معاشرہ نے اس بیماری کو سیاسی طور پر گلے لگالیا ہے کیونکہ سماج کی اجازت اور شراکت کے بغیر یہ بیماری نہیں پھیل سکتی اس بیماری کو پھیلنے سے روکنے کیلئے کوئی لاک ڈاؤن نافذ نہیں کیاجاتا ہے اب خود دیکھ لیجئے کہ کس کس نے جئے پورہ ، ممبئی سوپر فاسٹ ایکسپریس میں چار لوگوں کے قتل ، مسلم دشمن سوچ و فکر کے خلاف آواز اُٹھائی ہے ؟ گزشتہ دس برسوں میں یہ بیماری اتنی تیز رفتاری سے پھیلی ہیکہ سماج سمجھ ہی نہیں پایا کہ اس کا آخر انجام کیا ہوگا ۔ گودی میڈیا کا ایک اینکر امن چوپڑا مستقل علاج کی بات کرتا ہے اس جیسے کتنے ہی اینکر طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ میڈیا نے مسلسل نفرتی مباحث کے ذریعہ بھولے بھالے لوگوں کو سمجھا دیا ہے کہ مذہب کے نام پر جنگ چل رہی ہے اسی رفتار سے آپ کے رشتہ دار خاص کر آپ کے ماں باپ بیرونی ملکوں میں مقیم انکلس اور سوسائٹی کے گیٹ پر گھومتے مل جانے والے کئی وظیفہ یاب انکلس ہر دن واٹس ایپ میں مسلم مخالف میمس بھیجتے ہیں ۔ مذہب کے نام پر غرور کی دکان کھیلتے رہتے ہیں ان سب نے ملکر نفرت کی رفتار سماج میں بہت تیز کردی ہے ۔ چیتن سنگھ کو آپ اس عارضہ سے الگ نہیں کرسکتے اُس کی اِس بیماری یا عارضہ کا ذمہ دار کون ہے ، آپ کو معلوم ہے گودی میڈیا یہ نہیں بتاتا کہ چار لوگوں کا قتل کرنے والا ریلوے پروٹیکشن فورس کا جوان چیتن سنگھ اگر ذہنی طور پر بیمار تھا تو اس بیماری کی کچھ وجہ بھی ہوگی ۔ سوال یہ بھی ہیکہ وہ بیمار تھا تو ڈیوٹی پر کیسے تھا ویسے انڈین ایکسپریس میں ویسٹرن ریلوے کے پرنسپل چیف سیکوریٹی کمشنر پی سی سنہا کا بیان شائع ہوا ہے ان کا کہنا ہے کہ چیتن سنگھ گرم مزاج کا تھا لیکن گزشتہ 5 سال میں ایک بھی واقعہ ریکارڈ میں نہیں ہے بہت ہی صاف ستھرا ریکارڈ ہے اس لئے 6 ماہ قبل میں نے اس کی تعیناتی ممبئی میں کی تھی ۔ اسی سنہا صاحب نے پہلے کہہ دیا تھا کہ چیتن سنگھ ذہنی طور پر بیمار ہے اب تحقیقات چل رہی ہے ۔ انڈین ایکسپریس میں چیتن سنگھ کا جو بیان شائع ہوا ہے اس سے واضح ہے کہ اُسے یہ بیماری کہاں سے ملی ہے ۔ گودی میڈیا سے ملی ہوگی ۔ ایک مسافر نے واقعہ کے بعد ویڈیو ریکارڈ کیا ہے جس کی حقیقت کی تحقیقات کی جارہی ہے اُس ویڈیو میں چیتن سنگھ واضح طور پر کہتا ہے کہ پاکستان سے یہ آپریٹ ہوئے ہیں اور میڈیا یہی کوریج دکھائی دے رہی ہے ان کو سب پتہ چل رہا ہے کہ یہ کیا کررہے ہیں اگر ووٹ دینا ہے اگر ہندوستان میں رہنا ہے تو میں کہتا ہوں مودی اور یوگی یہ دو ہیں ۔ چیتن سنگھ ذہنی طور پر نہیں بلکہ سیاسی طور پر بیمار ہوگیا ہے اس بیماری نے اسے قاتل بنادیا ہے ۔ آپ اس نعرہ کو اچھی طرح جانتے ہیں ہندوستان میں رہنا ہے تو یوگی یوگی کہناہے مودی مودی کہنا ہے اس سے ملتے جلتے اور بھی کئی نعرے ہیں ان نعروں کے سہارے ایک مخصوص کمیونٹی کیلئے بھارت میں رہنے کی شرائط تھوپی جارہی ہیں ۔ انہیں سننے والوں کو کچھ غریب گھروں کے لڑکوں کو لگتا ہے کہ ان شرائط کو لاگو کرنا ان کا کام ہے تاکہ متوسط طبقہ اور ہاوزنگ سوسائٹیز کے بچے آئی ٹی سیکٹر میں جاکر مال کماتے رہیں ۔ سی اے اے احتجاج کے دوران آپ نے دیکھا تو تھا کہ ایک وزیر نعرے لگارہے تھے کہ دیش کے غداروں کو گولی مارو ، دو نوجوان بندوق لیکر آتے ہیں اور گولی بھی چلاتے ہیں ایک کی گولی ایک طالبعلم کو لگتی بھی ہے اور دوسرا ہوا میں گولی چلاتا ہے ۔ اس وقت بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ نوجوانوں نے کس طرح کے نعرے لگائے تھے اور نعرے کن کن چیزوں سے بنتے ہیں ۔ مذہب کی سیاست نے ان دونوں کو جو بنادیا آپ جانتے ہیں ۔ شاہین باغ میں گولی چلانے والے کپل گجر نے کہا تھاکہ ہندو راشٹر زندہ باد ، ہمارا دیش ہندو راشٹر ہے ، ہمارے دیش میں اور کسی کی نہیں چلے گی صرف ہندو کی چلے گی ۔ یہی وہ لائن ہے جسے چیتن سنگھ نے کسی اور طریقے سے دہرا دیا ۔ کیونکہ یہ مڈل کلاس اور ہاوزنگ سوسائٹیز کے واٹس ایپ گروپوں کے انکلوں کے بچے نہیں ہیں لیکن چیتن سنگھ جیسے نوجوان ان انکلوں کی سیاست کے کام آتے ہیں اس لئے یہ لوگ بھی چپ ہوجاتے ہیں یہ تب بھی خاموش رہتے ہیں جب منی پور کی دو خواتین کو برہنہ کر کے گشت کروانے کا ویڈیو منظر عام پر آتا ہے ۔ انہیں پتہ ہیکہ چیتن سنگھ کو قاتل بنانے کے پیچھے جو سوچ و فکر ہے اس کے پھیلانے میں ایک حد تک ایسے لوگ بھی شامل ہیں ایسے لوگ اُس گودی میڈیا کے خلاف بھی کچھ نہیں کہتے جو دن رات مسلم دشمن نفرت پھیلاتا رہتا ہے جن کی بات ریلوے پروٹیکشن فورس کا جوان چیتن سنگھ بھی کرنے لگا ۔ 31 جولائی کو ٹی وی 18 کا ایک اینکر امن چوپڑا ہریانہ کے نوح میں ہوئے فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادات کو لیکر جس طرح سے ٹوئیٹ کرتا ہے جیسی زبان کا استعمال کرتا ہے ہم تو اسے یہاں دہرا بھی نہیں سکتے ، امن چوپڑا نام کے اس اینکر کی زبان آپ ٹھیک سے سنئے ، ہاوزنگ سوسائٹیوں کے کئی انکلوں کی زبان سے ملتی جلتی سنائی دے گی ۔ اس سے ناراض ہو کر ایک سینئر صحافی راہول دیو ٹوئیٹ کرتے ہیں جس میں وہ لکھتے ہیں کہ میوات ، نوح کے فرقہ وارانہ فسادات پر اس عظیم اینکر کی باتیں سنئے پھر چیانل سے پوچھئے کہ کیا ہے ان کا مستقل علاج ، گوکل کیجئے ، کس نے کہا تھا فائنل سلیوشن ( حتمی حل ) اور کیا تھا 63 لاکھ یہودیوں کا قتل عام ۔ بہرحال آر بی ایف جوان کے ہاتھوں چلتی ٹرین میں چار لوگوں کے قتل کو بھی یاد رکھئے اس چیانل اور اینکر پر پابندی کیوں نہیں لگنا چاہئے ۔ مستقل علاج جیسی زبان کے بارے میں راہول دیو نے بتادیا کہ کہاں سے آرہی ہے یہ سوچ لیکن سوچئے امن چوپڑا ملک کے سب سے دولت مند اور طاقتور صنعت کار مکیش امبانی کے چیانل میں کام کرتا ہے یہ اپنے آپ میں ایک راز ہے کہ ان کے جیسا ارب پتی صنعت کار اس طرح کے اینکر کو کیسے رکھتا ہے ، راہول دیو نے جب انتباہ دیا تو امن چوپڑا نے اپنے بیان کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مستقل علاج سے اس کا ارادہ وہی ہے جس کی بات راہول دیو کررہے ہیں یہ وہ ارادہ ہے جسے دنیا میں کسی بھی چیانل پر نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ کئی جگہوں پر تو قانونی طور پر پابندی ہے مگر امن چوپڑا ، راہول دیو پر پلٹ وار کرتا ہے اور ٹوئیٹ میں لکھتا ہے کہ راہول سر نمستے آج 90 لاکھ یہودیوں کا ملک اسرائیل دشمنوں کے گھر میں گھس کر ان کا مستقل علاج کرتا ہے جس سے بھی کچھ بارودی دانشوروں کو تکلیف پہنچتی ہے ۔ پتھر بازوں کے مستقل علاج سے آپ کو کیا مسئلہ ہے ؟ سماج کا ہر حصہ پتھر بازی وای اس نئی وبا کا قطعی حل چاہتا ہے ایک ڈی ایس پی کے جسم میں شدید زخم ، انسپکٹر کے پیٹ میں گولی ، ایک جوان کی موت اور درجنوں زخمی ہیں ۔ پتھر بازوں کی حمایت کرنے کی آپ کی مجبوری سمجھ میں نہیں آئی ایک اینکر اپنے سینئر اور اتالیق سے لڑائی کی زبان میں بات کررہا ہے ۔ آخر میں راہول دیو تھک گئے اور اتنا ہی لکھا کہ تم اور تمہارے نظریاتی ساتھی صحافی میرے لئے صحافت پر ایک دھبہ ہے مستقل کچھ نہیں ہوتا ۔ آج کی تاریخ میں گودی میڈیا نفرت پیدا کرنے کی فیکٹری میں تبدیل ہوچکا ہے چیانلوں پر نظر رکھنے والی تنظیم NBDSA نے اس امن چوپڑا پر پہلے بھی جرمانہ عائد کیا ہے ۔