مضمون نگار : انیلیش مہاجن
(سینئرایسوسی ایٹ ایڈیٹربزنس ٹوڈے)
ترجمانی:نایاب حسن
اسرائیل کے ساتھ براہِ راست دوستی کا قیام بی جے پی اور اس کے نظریاتی سرپرست آر ایس ایس کا لمبے عرصے سے خواب رہا ہے؛کیوں کہ آر ایس ایس کے لیے اسرائیل ایک قوم یا ملک سے بڑھ کر اور بھی بہت کچھ ہے، اس کی نظر میں اسرائیل کے اندر وہ سب خصوصیات ہیں، جن کے سانچے میں یہ ہندوستان کو ڈھالنا چاہتا ہے، آر ایس ایس-اسرائیل تعلقات کے سفر کوہم سنگھ کے تین پرچارکوں کے کردارکے پس منظرمیں دیکھ سکتے ہیں ؛چنانچہ اٹل بہاری واجپئی اپنی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں ہندوستان کے ایسے پہلے وزیر اعظم تھے، جنھوں نے2003ء میں اسرائیلی وزیر اعظم ایرئل شیرون کا استقبال کیا، اس کے بعد اب نریندر مودی ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم ہیں، جنھوں نے تل ابیب کا دورہ کیا اور تیسراشخص، جو ان دونوں کے مقابلے میں ذرا غیر مشہور ہے، وہ آر ایس ایس کے تیسرے سرسنگھ چالک(سربراہ) بالاصاحب دیورس کے بھائی بھاؤراؤ دیورس ہیں، جنھوں نے اس خواب کو تعبیر کا جامہ پہنانے میں سرگرم رول اداکیا۔ البتہ آر ایس ایس -اسرائیل دوستی یا ایک دوسرے کی طرف جھکاؤ کا دور اُسی وقت شروع ہوگیا تھا، جب آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے یہودیوں اورقیامِ اسرائیل کی حمایت سے صاف انکار کرتے ہوئے اس سلسلے میں مشہور نوبل اعزاز یافتہ سائنس داں البرٹ آئنسٹائن کی سفارش بھی ٹھکرادی تھی، جبکہ اسی وقت آر ایس ایس سربراہ ایم ایس گولوالکر نے تخلیقِ اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیاتھا۔ آر ایس ایس کے تمام پرچارکوں کا یہ ماننارہاہے کہ اسرائیل عالمِ اسلام یا اُس پان اسلامزم کا حقیقی دشمن ہے، جوماقبل1947ء نموپذیر ہوا اور پوری دنیا میں پھیلنے لگا تھا۔
برطانونی اتحاد نے1948ء میں عالمِ عربی کو چھوڑنے سے پہلے خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرکے عربوں کو مختلف بادشاہتوں کے حوالے کیا اور عراق، اردن، لبنان اور شام نے اپنی زمین کا ایک فیصد حصہ یہودیوں کو رہنے کے لیے دے دیا، اس کے بعد سے اب تک اسرائیل نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے؛بلکہ کہیں سے کہیں پہنچ چکا ہے، ہندوستان نے ستمبر1950میں قیامِ اسرائیل کو تسلیم کیا، البتہ آزادی کے بعد لگ بھگ اکتالیس سال تک ہندوستان کی خارجہ پالیسی نہروکے طے کردہ خطوط پر قائم رہی، پھر بھاؤراؤدیورس نے سابق وزیر اعظم نرسمہاراؤکو اس پالیسی میں تبدیلی کرنے پر آمادہ کرلیا، اس سے پہلے تک ہندوستان کے مسلم ووٹ بینک کو بچائے رکھنے کے لیے عربوں کی سیاسی حمایت کی جاتی اور اسرائیل سے باضابطہ ڈپلومیٹک تعلقات قائم کرنے سے احتراز کیاجاتا تھا۔ دیورس گاندھی-نہرو طرزِ سیاست پر خطِ نسخ پھیرنے کی کوشش میں تھے؛چنانچہ جنوری1992ء میں جب ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا، تو اس کے پسِ پشت دیورس کا اہم رول تھا۔ اس وقت اس اہم اقدام کے لیے ایک موقع یوں بھی ہاتھ آگیا کہ ہندوستان اوآئی سی میں اپنی شمولیت کے خلاف پاکستانی سازشوں سے نالاں تھا؛چنانچہ دیورس کو امید کی ایک کرن نظر آئی اور اس نے حکومتِ ہند کے سامنے اپنی پیش کش رکھ دی، دیورس سنگھی ذہنیت کے کانگریسی اور کمیونسٹ لیڈروں کے مابین رابطے کاکام بھی کرتے تھے؛بلکہ کہاجاتا ہے کہ سابق وزیر اعظم آں جہانی راجیوگاندھی کو’’نرم ہندوتوا‘‘کی راہ پر لگانے میں انہی صاحب کا رول تھا، جس کی وجہ سے راجیوگاندھی نے بابری مسجد کا تالا کھلوایااور پھر بعد کے سانحات رونما ہوئے۔
دیورس ہندوستان میں ممبئی، کیرلا اور ملک کے دوسرے حصوں میں موجود یہودیوں سے رابطے میں رہتے اور انھیں آر ایس ایس-اسرائیل تعلقات کو صحت مند رخ دینے کے لیے پل کے طورپر استعمال کرتے رہے۔ انہی کی تحریک پر1991ء کے اخیر میں کئی اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ لال کرشن آڈوانی نے وزیر اعظم نرسمہا راؤ سے ملاقات کی اور زور دیا کہ ہندوستان کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنا چاہیے؛بلکہ یہ حقیقت ہے کہ مودی اور سابق صدر پرنب مکھرجی سے پہلے آڈوانی ہی ہندوستان کی پہلی اعلیٰ سیاسی شخصیت تھے، جس نے بحیثیت نائب وزیر اعظم2000ء میں اسرائیل کا دورہ کیاتھا۔ ان کا یہ دورہ اس وقت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ کے ساتھ تھا اوراس کا مقصد’’دہشت گردی‘‘سے نمٹنے کے سلسلے میں تبادلۂ معلومات پر معاہدہ کرناتھا۔
سال 1992ء تک آر ایس ایس کے علاوہ صرف ہندوستانی انٹلی جنس ایجنسیز کا اسرائیل سے رابطہ تھا، وہ بھی اس وجہ سے کہ آر این کاؤ(راکے پہلے سربراہ) نے جب دیکھا کہ موساد(اسرائیلی خفیہ ایجنسی)چین، پاکستان اور شمالی کوریا کے عسکری روابط کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے، نیزخود موساد بھی پاکستانی افسران کے ذریعے کوریائی و چائنزذخائرکو استعمال کرکے لیبیا وایران کے ملٹری ایجنٹس کو عسکری تربیت دیے جانے سے پریشان تھا؛اس لیے رااور موساداپنے مشترکہ دشمنوں سے نمٹنے کے لیے باہم رابطے میں آگئے تھے۔ اس تمام پس منظر میں دیورس کو اوربھی بہت کچھ نظر آرہا تھا، وہ ذاتی طورپراسرائیل کی اپنی قدیم زبان کے احیاکی کوششوں سے بھی متاثر ہوئے؛کیوں کہ وہ خود یہاں سی کے شاستری(جنھیں گزشتہ سال حکومت نے ادب و تعلیم کے میدان میں ’’خدمات‘‘ کے اعتراف میں پدم شری ایوارڈسے نوازا ہے) کے ساتھ مل کرسنسکرت زبان کے احیا کی تحریک چلا رہے تھے، اسی طرح دیورس اسرائیل کے اس انتہا پسندانہ نظریۂ قومیت سے بھی متاثر تھے، جسے عسکری تربیت اور فلسطینی مزاحمت کاروں کوزیر کرنے کے طریقۂ کار کے ذریعے اسرائیل نے اپنے تمام شہریوں کے دل ودماغ میں بٹھادیا تھا۔ اسرائیل کی ان تمام ’’خصوصیات‘‘کادیورس کے دل ودماغ میں بے پناہ اثر تھا؛چنانچہ انھوں نے نرسمہاراؤ کے سامنے مضبوطی کے ساتھ اپنا ’’کیس ‘‘پیش کیا، ابتداء اً نرسمہاراؤ کو جھجک محسوس ہوئی اور انھوں نے خود اپنی پارٹی میں موجوداپنے مخالفوں کا حوالہ دیا، مگر پھر دیورس کے اصرار اوراسی سلسلے میں ایل کے آڈوانی کی مداخلت کی وجہ سے انھوں نے اسرائیل کے ساتھ’’ممکنہ دوستی‘‘کا خط و خال طے کرنے کے لیے ایک گروپ آف منسٹرز تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔
جنوری1992کے شروع میں فلسطینی صدر یاسر عرفات نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا، ایسا کہا جاتا ہے کہ نرسمہاراؤ نے اس موقعے سے فلسطینی صدر سے کہا تھا کہ’’ اگر ہندوستان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرتا ہے، تو یہ فلسطینی کازکے لیے بھی فائدہ مند رہے گااور ہم ان پر آپ کے حق میں مزید دباؤ بنانے کے اہل ہوں گے‘‘، پھرمشترکہ پریس کانفرنس میں نرسمہاراؤ نے اس فیصلے کااعلان بھی کردیا اور دس دن کے اندر اندر باقاعدہ ہند-اسرائیل رشتے ’’طے پاگئے‘‘۔ یہ ساری حصول یابی انہی بالاصاحب دیورس کے بھائی بھاؤراؤدیورس کی ’’محنتوں ‘‘کی بہ دولت ممکن ہوسکی، آر ایس ایس کے پرانے لیڈروں کاکہنا ہے کہ اسرائیل نے تو اس’’عظیم کارنامے‘‘کے عوض دیورس کواپنے ملک کا سب سے اعلیٰ شہری اعزاز دینے کا فیصلہ کرلیا تھا، مگر وہ اسی سال میں مئی میں آں جہانی ہوگئے، جس کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ قابلِ ذکر ہے کہ اسرائیل نے اپنے قیام سے لے کر اب تک کسی غیر یہودی کو یہ ایوارڈ نہیں دیا ہے۔
’’ کرسٹوفرجیفرلوٹ ‘‘نے بھی2007میں شائع شدہ اپنی کتاب ’’ہندو نیشنلزم ‘‘ میں لکھاہے کہ’’وی ڈی ساورکر اور ایم ایس گولوالکرجیسے ہندوقوم پرستوں نے قیامِ اسرائیل کو سراہا اوریہودیوں کے’’رائٹ ٹوجنم بھومی‘‘کی تائید کی تھی‘‘۔ انھوں نے ایک باب میں ساورکرکے افکار و نظریات کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’انھوں (ساورکر)نے اسرائیل کی تایید کے پیچھے اپناآئیڈیا اور منطق بھی بیان کی تھی، محض نہروکی مخالفت میں ایسا نہیں کیاتھا‘‘؛چنانچہ اسی وقت جبکہ نہرو نے قومی مفادات کا حوالہ دیتے ہوئے صاف طورپر کہہ دیاتھا کہ’’ہندوستان اسرائیل کی حمایت نہیں کرسکتا‘‘، ساورکر نے کھل کر اسرائیل کی تایید کی تھی۔ 2012ء میں سابق سفیر، اقوامِ متحدہ میں ہندوستان کے سابق نمایندہ اورایک عرصے تک مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے حوالے سے یواین سکریٹری جنرل کی نمایندگی کرنے والے ’ ’ چنمیا گھرخان ‘‘ نے نہروکے انکار کی وجہ یہ بتائی تھی کہ شاید وہ تقسیمِ ہند کے تجربے کے زیر ِ اثر اسرائیل کی حمایت سے انکارکررہے تھے؛چنانچہ اسرائیل کی اسٹریٹیجک اہمیت کے باوجودآزادی کے بعد سے اب تک ہندوستان کے محض تین وزراے خارجہ نے اسرائیل کا دورہ کیا، جن میں صرف ایک یوپی اے سرکارکے وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا(جو اب بی جے پی سدھارچکے ہیں )کا دورہ شامل ہے۔
مودی جی اسرائیل کے ساتھ اپنی پارٹی و نظریاتی سرپرست کے تعلقات کو نئی ’’اونچائیوں ‘‘تک لے جانا چاہتے ہیں ؛چنانچہ انھوں نے بحیثیت وزیر اعظم پہلی بار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو فلسطین سے الگ کیااور2016ء میں اپوزیشن کے اصرار کے باوجود پارلیمنٹ میں حماس کے خلاف کارروائی کے دوران اسرائیل کے ناجائزہتھیاروں کے استعمال کے خلاف کوئی مذمتی قرارداد نہیں پاس کیاگیا، ہندوستان نے دونوں میں سے کسی کی بھی حمایت یا مذمت سے کنارہ کشی اختیار کیے رکھی اور اس صورتِ حال کے لیے دونوں اطراف کو ذمے دار قرار دیا، اس کے بعد گزشتہ سال جب مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا، تو وہ غزہ یا فلسطین نہیں گئے، اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے حالیہ دورے سے پہلے امریکہ کے ذریعے یروشلم کو اسرائیلی راجدھانی تسلیم کرنے کے فیصلے پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہندوستان نے فلسطین کے حق میں ووٹنگ کی، جس پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے نتن یا ہو قدرے بددل تو تھے، مگر انھیں اپنے ’’نیچرل دوستوں ‘‘کے دل کا حال معلوم تھا، سو انھوں نے کہا کہ اس سے اسرائیل و ہندوستان کے تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور لگ بھگ ایک ہفتہ کے دورۂ ہند کے دوران ان کی جو آؤبھگت ہوئی اور جس طرح ان کے من مطابق معاہدے عمل میں آئے، اس سے ان کی اس بات کی تصدیق بھی ہوجاتی ہے۔ بہرکیف آر ایس ایس نے تو اپنا کام بڑی’’خوبی ‘‘سے کردیا ہے، البتہ بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ روزبروز گہراتی ہوئی ہندوستان کی یہ دوستی مستقبل میں دونوں ہی ملکوں کے لیے نئے دشمن پیدا کرے گی۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)