تحریر: پی چدمبرم
وزیراعظم نریندر مودی نے اکٹوبر سے گجرات کا متعدد مرتبہ دورہ کیا اور توقع ہے کہ وہ جاریہ ماہ گجرات کے مزید دورے کریں گے کیونکہ ریاست گجرات میں یکم اور 5 ڈسمبر کو دو مرحلوں میں رائے دہی ہونے والی ہے۔ ایسے میں وزیراعظم اپنی پارٹی امیدواروں کے حق میں مہم چلانے کیلئے گجرات جائیں گے۔ واضح رہے کہ مودی نے ریاست کے 33 اضلاع میں سے ہر ضلع میں عملی مہم چلائی ہے۔ جب تک الیکشن کمیشن رواداری کا مظاہرہ کرے گا ،مودی جی کسی نہ کسی طرح انتخابی مہم چلائیں گے، ویسے بھی وزیراعظم مختلف پراجیکٹس اور پروگرامس کی افتتاحی مہمات پر ہیں اور ان پراجیکٹس اور پروگرامس یا اسکیمات کو انتخابی ضابطہ اخلاق سے بچانے کیلئے ’’سرکاری پروگرامس‘‘ کا نام دیا گیا ہے لیکن ہمارے وزیراعظم کی تقریر کے متن اور ماخذ میں کوئی بھی چیز ’’سرکاری‘‘ نہیں ہوتی ۔ ان کی تمام تقاریر میں (چاہے وہ گجرات، ملک کے کسی مقام یا پھر بیرونی ملک کیوں نہ ہو) ایک بات بلکہ دعویٰ مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہندوستان کی جدید تاریخ اور ہندوستان کی عظمت رفتہ کی بحالی کا آغاز 2014ء سے ہوا (2014ء میں ہی مودی کی زیرقیادت بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا تھا اور اب اس کی دوسری میعاد بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے) اسی طرح مودی یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ جدید گجرات کی عظمت رفتہ سال 2001ء میں بحال ہوئی ۔ اگر ان کے بیانات میں کچھ بے آہنگی پائے جاتے (یہاں تک کہ گجرات ہندوستان سے بھی پہلے) یہ ایک ایسی پہلی ہے جسے ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کے مطابق گجرات ہندوستان کیلئے ایک نمونہ ایک مثال ہے۔ یہ دعویٰ کرنے میں وہ ایک قدم پیچھے ہے کہ ہندوستان دنیا کیلئے ایک نمونہ ایک ماڈل ہے۔ بہرحال گجراتی عوام وزیراعظم کے اس دعویٰ پر ڈسمبر کے اوائل میں اپنے ووٹ کے ذریعہ رائے دیں گے، لیکن بدقسمتی سے دنیا کے لوگوں کو مودی کے دوسرے دعوے کی تصدیق یا انکار میں ووٹ دینے کا موقع نہیں ملے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کی بدقسمتی ہے۔
حسد کرنے کیلئے نہیں
آیئے گجرات ماڈل کا جائزہ لیتے ہیں، میں نے اس ماڈل میں بعض منفرد خصوصیات دیکھی ہیں:٭ اگرچہ بی جے پی گجرات میں ایک طویل عرصہ سے اقتدار میں ہے لیکن سال 2016ء سے تین چیف منسٹروں نے ریاست میں اقتدار کی کمان سنبھالی، ان میں سب سے زیادہ عرصہ تک وجئے روپانی کو بحیثیت چیف منسٹر خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ وہ 2016ء سے 2021ء تک ریاست کے چیف منسٹر رہے لیکن انہوں نے ایک ایسا نہ مٹنے والا نشان چھوڑا کہ انہیں ان کی ساری کابینہ کے ساتھ بڑے ہی روکھے پن بلکہ توہین آمیز انداز میں اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ اگر دیکھا جائے تو جدید گجرات اور گجرات کی عظمت رفتہ کی بحالی سے متعلق بات کی جائے تو یہ گھومنے والے دروازہ کے چیف منسٹرس کا ترجیحی ماڈل ہے (کیونکہ عہدۂ چیف منسٹری سے ہٹایا جاتا ہے اور دوسرے کو لایا جاتا ہے) گجرات کے ساتھ اس طرح کی مثالیں ہمیں بی جے پی کی زیراقتدار ریاست کرناٹک، اتراکھنڈ وغیرہ میں بھی ملتی ہیں جہاں پارٹی قیادت نے بار بار چیف منسٹروں کو تبدیل کیا۔
٭گجرات ماڈل کی ایک اور خاصیت اس کی ’’ڈبل انجن حکومت‘‘ ہے ہوسکتا ہے کہ آپ ڈبل انجن کے ساتھ ہی وزیراعظم اور چیف منسٹر کا تصور کریں گے، اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو غلط ہے۔ ڈبل انجن کا مطلب پی ایم، سی ایم نہیں بلکہ پی ایم اور ایچ ایم (وزیراعظم اور وزیر داخلہ) ہے۔ گجرات میں اس ڈبل انجن کے اشاروں پر ان کی مرضی و منشاء کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ اگر سارا ہندوستان گجرات ماڈل کو اپنالے تو پھر ریاستی حکومتوں سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ ساتھ ہی ایک ہندوستان ، ایک حکومت کی تخلیق عمل میں لائی جاسکتی ہے۔
زوال یا گراوٹ میں فخر
٭ گجرات ماڈل کی ایک خاص خوبی نمو کی شرحوں میں گراوٹ ہے لیکن پروان چڑھتا گجراتی فخر، ریاستی قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کی چار سالہ شرحوں کو ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
سال 2017-18ء میں یہ 10.7%، 2018-19ء میں 8.9% ، سال 2019-20ء میں 7.3% اور سال 2020-21ء میں 1.9% رہی۔ اب آپ کہیں گے کہ بحیثیت مجموعی سارے ملک کی شرح مجموعی پیداوار 2017-18ء سے مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ ایسے میں اس کا جواب یقینا ’’ہاں‘‘ میں ہے۔ یہ اس لئے ہوا کیونکہ ہندوستان نے گجرات ماڈل کی نقل کی اس کی تقلید کی۔ اگر مابعد کورونا وباء 2021-22ء میں گجرات کی جی ایس ڈی پی میں اُچھال آیا تب ہندوستان بھر کی جی ڈی پی میں بھی اچھال آیا ہے۔ گجرات نے گذرے ہوئے کل میں جو کیا، ہندوستان آنے والے کل میں کرے گا۔
سال 2003ء میں 66,068 کروڑ روپئے سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا لیکن حقیقت میں 30,746 کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کی گئی، سال 2005ء میں 1,06,160 سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا لیکن حقیقی سرمایہ کاری صرف 37,939 کروڑ روپئے رہی۔ اس طرح سال 2007ء میں 4,65,309 کروڑ روپئے سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن حقیقت میں 1,07,897 روپئے کا سرمایہ مشغول کیا گیا۔ سال 2009ء میں 12,39,562 کروڑ روپئے سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا لیکن 1,04,590 کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کی گئی۔ 2011ء میں 20,83,047 کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا۔ حقیقی سرمایہ کاری 29,813 کروڑ روپئے کی گئی۔ وعدہ اور حقیقت میں خلیج بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کا اسمیتا (فخر) بھی بڑھے گا۔
خواتین ، نوجوان اور بچے
٭گجرات اس بات کا ماڈل ہے کہ کیسے خواتین کے ساتھ (بدترین)سلوک کیا جاتا ہے۔ بچیوں کی شرح پیدائش سے صنفی تناسب (بچے ، بچیاں، مرد، عورتوں) کا سوال ہے یہ 919 ہے اس کے برعکس ہندوستان بھر میں تناسب 943 ہے۔ مزدوروں کی شراکت داری کی شرح 41.0% ہے اور اس میں خواتین کی شرح 23.4% ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچیوں کی شرح کیا ہے۔ اگر یہ باقی ہیں تو پھر ان میں سے 76% اپنے گھروں کے باہر کام نہیں کرتی۔
گجرات ماڈل نوجوانوں پر کام کا بوجھ عائد نہیں کرتا۔ وہاں 20 تا 24 سال عمر کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 12.49% ہے۔ یہ نوجوان الیکشن سے قبل بڑا آرام کرتے ہیں۔ گجرات ماڈل بچوں کی نگہداشت میں بھی مثالی ہے۔ ان کے تغذیہ، ان کی صحت دیکھنے کے لائق ہوتی ہے۔ وہاں کے بچوں میں 39% ٹھہرے ہوئے ہیں۔ 39.7% بچوں کا جسمانی وزن خطرناک حد تک کم ہے۔ ضائع ہونے والے بچوں کی تعداد 25.1% ہے۔ ملک کی 30 ریاستوں میں مذکورہ عشاریوں میں گجرات کا نمبر 26 اور 29 کے درمیان ہے۔ گجرات ماڈل اس ملک میں رہنے والے تمام ہندو ہیں، سے متعلق آر ایس ایس کے نظریہ کو اپنانا ہے، اس لئے بی جے پی نے 182 امیدواروں میں ایک بھی مسلم کو امیدوار نہیں بنایا اور 1995ء سے وہ اس پالیسی پر کاربند ہیں۔