-
شکر ہے عدلیہ کا ضمیر ابھی زندہ ہے
- سیاسی
- گھر
شکر ہے عدلیہ کا ضمیر ابھی زندہ ہے
517
m.u.h
25/04/2022
0
0
تحریر:سہیل انجم
شکر ہے کہ ہندوستانی عدلیہ کا ضمیر ابھی کسی حد تک زندہ ہے۔ ورنہ موجودہ مرکزی حکومت کل کے بجائے آج ہی ہندوستان کے مکمل اور عملی طور پر ہندو راشٹر ہونے کا اعلان کر دے۔ حالانکہ اب ہندو راشٹر کے قیام میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اب آنکھوں کی شرم بھی ختم ہو گئی ہے۔ ورنہ کون سا ایسا کام ہے جو ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے میں مانع ہو۔ آئین و دستور کی کھلم کھلا دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ قانون و انتظام کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اقلیتوں اور غریبوں کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے۔ پورے ملک پر ہندو اکثریت کی بالا دستی قائم ہو گئی ہے۔ اگر کوئی اپوزیشن لیڈر کچھ بولنے کی جرأت کرتا ہے تو اس کے خلاف انتقامی کارروائی کی جاتی ہے اور اس طرح اس کا منہ بند اور اس کی زبان خاموش کر دی جاتی ہے۔
حکومت نے جمہوریت کہ چوتھے ستون کہے جانے والے میڈیا یا ذرائع ابلاغ کو پہلے ہی اپنا بے دام غلام بنا لیا ہے۔ بیشتر میڈیا ادارے حکومت کی خوشامد میں سجدوں پر سجدے کیے جا رہے ہیں۔ اگر حکومت رکوع کا اشارہ کرتی ہے تو وہ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ میڈیا حکومت اور پولیس کے غلط کاموں کی حمایت اور طرفداری کو اپنا فرض منصبی تصور کرتا ہے۔ جب بھی مرکزی حکومت یا ریاستوں کی بی جے پی حکومتوں کی جانب سے کوئی عوام مخالف کام کیا جاتا ہے تو میڈیا اس کی ستائش میں زمین و آسمان کے قکابے ملانے لگتا ہے۔
گزشتہ دنوں جب شمال مغربی دہلی کے جہانگیر پوری میں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور ہندووں کی دیگر تنظیموں کی جانب سے ہنومان جینتی کے موقع پر شوبھا یاترا نکالی گئی تو جب تک فساد نہیں ہو گیا یاترا کے ذمہ داروں کو چین نہیں آیا۔ جب دو دو یاتراؤں میں کوئی ہنگامہ نہیں ہوا اور مسلمانوں نے تمام قسم کی اشتعال انگیزی کو برداشت کر لیا اور ایک پتہ بھی نہیں ہلا تو پھر ایک منصوبے کے تحت ایک اور جلوس نکالا گیا۔ حالانکہ جلوس نکالنے کے لیے پولیس کی اجازت درکار ہوتی ہے لیکن اس تیسرے جلوس کے لیے کوئی اجازت نہیں لی گئی۔ اس کا اعتراف خود دہلی کے پولیس کمشنر راکش استھانہ نے کیا ہے۔
جب ہندووں کے جلوس کے خلاف سنجیدہ اور پر امن طبقات کی جانب سے احتجاج کیا جانے لگاتو دہلی میونسپل کارپوریشن میں اکثریت رکھنے والی بی جے پی کے لیڈر تلملانے لگے اور انھوں نے مقامی مسلمانوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا۔ ریاستی بی جے پی کے صدر آدیش گپتا نے مشرقی کاپوریشن کوآدیش دے دیا کہ چونکہ دنگا بنگلہ دیشیوں اور روہنگیاوں نے کیا ہے اور انھوں نے سرکاری زمینوں پر نجائز قبضے کر رکھے ہیں لہٰذا انھیں سبق سکھانے کے لیے ناجائز قبضوں کو ہٹایا جائے۔ پھر کیا تھا اگلے ہی روز کارپوریشن کے بلڈوزر وہاں پہنچ گئے اور صبح نو بجے سے ہی انہدامی کارروائی شروع کر دی گئی۔ جبکہ وہاں نہ بنگلہ دیشی ہیں اور نہ ہی روہنگیا ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انہدامی کارروائی دوپہر دو بجے سے ہونے والی تھی لیکن چونکہ پولیس کو معلوم ہو گیا تھا کہ کچھ لوگوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اس لیے انہدامی کارروائی قبل از وقت شروع کر دی گئی۔ اسی درمیان سپریم کورٹ کے سینئر وکلا کپل سبل، دشینت دوے اور پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ بلڈوزر رکوائے جائیں کیونکہ وہ غیر قانونی طور پر چلائے جا رہے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے حکم صادر کیا کہ انہدامی کارروائی روک دی جائے۔ عدالت اگلے روز اس معاملے پر سماعت کرے گی۔ لیکن ا س کے باوجود ڈیڑھ گھنٹے تک بلڈوزر چلتے رہے۔
اس کے بعد مذکورہ وکلا نے چیف جسٹس کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جس پر انھوں نے سختی سے اس حکم پر عمل کروانے کی ہدایت دی۔ اس کے بعد ہی کہیں جا کر انہدامی کارروائی روکی گئی۔ اس درمیان مسلمانوں اور ہندووں کے متعدد مکان اور دکان نیست و نابود کر دیے گئے۔ ایسی کئی دکانیں بھی توڑ دی گئیں جو بیس اور تیس سال پرانی تھیں اور جو کاپوریشن کی جانب سے الاٹ شدہ تھیں۔ جب اس پر احتجاج ہونے لگا تو کہا گیا کہ ناجائز قبضے ہٹائے گئے ہیں کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ جبکہ یہ بالکل کھلی ہوئی بات تھی کہ مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے یہ کارروائی عمل میں لائی گئی۔
اس انہدامی کارروائی پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ دو رکنی بینچ نے کہا کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھے گی کہ عدالتی حکم کے باوجود انہدامی کارروائی کیوں چلتی رہی۔ اسے کارپوریشن کی ہٹ دھرمی نہیں کہا جائے گا تو اور کیا کہا جائے گا کہ اس نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھی دھجیاں اڑائیں اور اس کو تار تار کیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی کے نزدیک عدالت کا کوئی احترام نہیں ہے۔ اگر عدالت نے انہدامی کارروائی پر دو ہفتے کے لیے ہی سہی روک نہیں لگائی ہوتی تو اب تک جانے کتنے غریب بے گھر ہو گئے ہوتے۔
عدالتی سرگرمی کا مظاہرہ اس وقت بھی ہوا جب سپریم کورٹ نے لکھیم پور میں گاڑی سے کسانوں کو ہلاک کر دینے کے معاملے کے کلیدی ملزم مرکزی وزیر اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا کی ضمانت خارج کر دی۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے اسے ضمانت دے دی تھی اور وہ اتنا بڑا جرم کرنے کے باوجود جیل سے باہر آگیا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے متاثرین کے حقوق پر کوئی توجہ نہیں دی آشیش مشرا کی ضمانت خارج کر کے اسے ایک ہفتے کے اندر خود سپردگی کا حکم دیا۔ پیر کے روز ایک ہفتہ مکمل ہو رہا تھا اور اس نے ایک روز قبل یعنی اتوار کے روز خود کو جیل کے حوالے کر دیا۔ اگر سپریم کورٹ نے سختی نہ دکھائی ہوتی تو وہ اب بھی آزاد گھوم رہا ہوتا۔
اسی طرح ممبئی کی ایک عدالت نے بی جے پی کی ایم پی نونیت رانا اور ان کے شوہر ایم ایل سے روی رانا کو چودہ روز کے لیے عدالتی تحویل میں جیل بھیج دیا۔ دراصل دونوں میاں بیوی نے مہاراشٹرا کے وزیر اعلیٰ اودھو ٹھاکرے کے گھر ماتوشری کے باہر ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کے اعلان کے بعد شیو سینا کے کارکنوں نے ان دونوں کے خلاف زبردست احتجاج کیا جس کے بعد پولیس نے ان دونوں کو گرفتار کر لیا اور ان کے خلاف متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ انھیں ممبئی کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا جہاں سے انھیں عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا۔
عدالت کی حق گوئی کا ایک اور نمونہ اس وقت ملا جب دہلی پولیس نے سریش چوانکے نامی ایک نام نہاد صحافی کے بارے میں کہا کہ اس نے مسلمانوں کے خلاف ہیٹ اسپیچ یعنی نفرت انگیز تقریر نہیں کی ہے۔ حالانکہ چوانکے اور اس کے دیگر ساتھیوں نے دہلی کے جنتر منتر پر ایک پروگرام کے دوران مسلمانوں کے خلاف انتہائی شرانگیزی کی تھی اور انھیں گالیاں دی تھی۔ لیکن جب دہلی کی پولیس نے اس معاملے میں عدالت میں جواب داخل کیا تو چوانکے کو کلین چٹ دیتے ہوئے کہہ دیا کہ اس نے کسی بھی مذہب کے خلاف کوئی قابل اعتراض بات نہیں کی تھی۔ جبکہ اس سلسلے میں کئی ویڈیوز وائرل ہیں۔
اس پر عدالت نے دہلی پولیس کی خوب خبر لی اور کہا کہ اس نے کیسے کہہ دیا کہ ہیٹ اسپیچ نہیں دی گئی ہے۔ اس نے پولیس کو ہدایت دی کہ وہ دوبارہ حلف نامہ داخل کرے اور اپنا دماغ اور ذہن لگا کر حلف نامہ تیار کرے۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ پولیس نے جو حلف نامہ داخل کیا ہے وہ غلط ہے اور اسے اپنے حلف نامے میں چوانکے کے خلاف الزام طے کرنا چاہیے اور اس نے جو اشتعال انگیزی کی تھی اس کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ بہر حال یہ چند مثالیں تھیں۔ ورنہ یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر عدالت اپنی آنکھیں کھلی نہ رکھے تو جانے کیا ہو جائے۔