-
کیا راہل ہندوستان کو بدنام کررہے ہیں؟
- سیاسی
- گھر
کیا راہل ہندوستان کو بدنام کررہے ہیں؟
543
m.u.h
15/03/2023
0
0
تحریر:عادل فراز
ملک اس وقت ’امرت کال‘ سے گذررہاہے ،اس لئے ملک کی سرکار پر تنقید گویا جرم عظیم ہے ۔’امرت کال‘ کی روپ ریکھا کس نے تیار کی اور اس کے نتائج کیا ہوںگے ،اس پر بحث فضول ہے ۔آپ صرف یہ مان لیجیے کہ موجودہ صدی ’امرت کال‘ کی صدی ہے ۔’امرت کال‘ کے ساتھ مختلف نعروں کا ذکر بھی ہوگا جیسے ’آتم نربھر بھارت‘ اور ’میک ان انڈیا‘وغیرہ ۔یہ الگ بات کہ ملک میں غربت کی شرح میں اضافہ ہواہے ۔لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے ۔اقتصادی ڈھانچہ مسلسل تنزلی کا شکار ہے ۔مہنگائی پر سرکار کاکوئی کنٹرول نہیں ہے ۔نفرت اور تقسیم کی سیاست شباب پر ہے ۔اقلیتوں کے حقوق مسلسل پامال ہورہے ہیں ۔لیکن پھر بھی یہ مانیے کہ ہم ’امرت کال ‘ میں جی رہے ہیں ۔یہی تو وزیر اعظم مودی کا طلسم ہے جسے توڑ پانا کسی کے بس میں نہیں ۔راہل گاندھی نے مسلسل اس طلسم کو توڑنے کی کوشش کی ہے مگر ہر بار انہیں ناکامی ہاتھ لگی ،کیونکہ سوتے ہوئے کو جگایاجاسکتاہے لیکن جو ’بن کے سوجائے‘ اس کو جگانا آسان نہیں۔اس بارراہل نے لندن جاکر’بن کے سوئے ہوئے بھکتوں‘ کی نیند خراب کردی ۔کیونکہ ملک ’امرت کال‘ سے گذررہاہے لہذا راہل کے بیان کو ملک کی بدنامی کا سبب قرار دیاگیا ،جبکہ اس حقیقت سے سب نظریں چرارہے ہیں کہ راہل کو اس قدر تنقید کی ضرورت کیوں پیش آئی؟کیا راہل نے ملک کی سیاسی صورتحال کی غلط عکاسی کی ہے ؟اگر نہیں تو پھر ملک کی بدنامی کا سبب کون ہے ؟
راہل گاندھی نے برطانیہ میں مختلف فورم پر گفتگوکرتے ہوئے ملک کو درپیش مسائل پر سخت تبصرہ کیا۔انہوں نے پیگاسس جاسوسی معاملہ ،میڈیا اور جمہوری اداروں پر حکومت کے تسلط ،ہندوستانی سرحدوں میں چین کی دراندازی،اپوزیشن کے خلاف تفتیشی ایجنسیوں کا غیر قانونی استعمال ، جمہوری قدروں کے زوال اور دیگر مسائل پر کھل کر بات کی ۔راہل نے اپنی تقریر میں کہاکہ ہندوستان میں جمہوریت خطرے میں ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں پر فرضی مقدمے تھوپے جارہے ہیں ۔میڈیا اورایجنسیوں کا غلط استعمال ہورہاہے ۔پیگاسس کے ذریعہ ان کی جاسوسی کروائی جارہی ہے ۔ہم مسلسل دبائومحسوس کررہے ہیں کیونکہ ہمیں دھمکایا جاتاہے اور فرضی مقدموں میں الجھایاجاتاہے ۔میڈیا اور دیگر جمہوری اداروں پر غیر آئینی طریقے سے تسلط جمایا جارہاہے جس سے عوام سے رابطے میں بھی مشکل پیش آرہی ہے ۔آیا راہل گاندھی کا یہ بیان حقیقت سے عاری ہے ؟ حال ہی میں پیش آئے واقعات کو دیکھ کر راہل کے اس بیان کی بنیادوں کو تلاشا جاسکتاہے ۔گجرات فساد اور وزیر اعظم مودی پربی بی سی کی ڈاکیومنٹری ریلیز ہوتے ہی اس پر پابندی عائد کردی گئی۔ بی بی سی کے دفتر پر سی بی آئی نے چھاپے مارے ۔کیا یہ جمہوری قدروں کے خاتمے کا اشارہ نہیں ہے ؟کیا حزب اختلاف کے لیڈروں کو فرضی مقدمات کے ذریعہ پریشان نہیں کیا جارہاہے ؟تفتیشی ایجنسیاں حکومت کے اشارے پر کسی کے بھی گھر آدھمکتی ہیں ،کیا یہ جمہوریت مخالف عمل نہیں؟اگر ملک میں آزادیٔ اظہار اور حزب اختلاف کو اس قدر دبایاجائے گا توپھر ملک میں آمریت کا راج ہوگا۔
راہل گاندھی نے پیگاسس سافٹ وئیر کے ذریعہ جاسوسی کے مسئلے کو اٹھایا تو اس پر بھی ان کی تنقید کی جارہی ہے ۔یعنی جاسوسی کے ملزموں کی تنقید کے بجائے جاسوسی سے متاثر شخص کی تنقید و تنقیص کی جارہی ہے ،یہ اندھ بھکتی کا عالم ہے ۔اسرائیلی سافٹ وئیر پیگاسس کے ذریعہ جاسوسی کا مسئلہ فقط ہندوستان تک محدود نہیں ہے ،بہت سے ملکوں میں اس کے شواہد سامنے آئے ہیں ۔فرانس کے صدرمیکرون نے تو اپنا اور اہل خانہ کے موبائل بدل دیے تھے ،کیونکہ انہیں جاسوسی کا خدشہ لاحق تھا۔البتہ ہندستان میں سپریم کورٹ نے اس مسئلے کی تحقیقات کروائی تھی ،جس میں جاسوسی کے شواہد دستیاب نہیں ہوئے۔جس طرح رافیل ڈیل میں بدعنوانی کے ثبوت فراہم نہیں ہوسکے ۔شاید اسی بنا پر راہل نے کہاکہ اب تو عدلیہ بھی حکومت کے زیر اثر ہے ۔
راہل نے میڈیا اور جمہوری اداروں کے ساتھ عدلیہ کی آزادی پر بھی سوال اٹھائے ۔ظاہر ہے جس ملک کا چیف جسٹس بابر ی مسجد کا فیصلہ ’آستھا‘ کی بنیاد پر ہندوئوں کے حق میں سنادے ،وہاں عدلیہ کی حالت زار کیا ہوگی؟اس کے فوراً بعد جسٹس گوگوئی کو راجیہ سبھا کی کرسی بطور دان دیدی گئی ،یہ عدلیہ پر سرکاری اختیار کا اعلامیہ تھا۔ ریاستی سطح پر بھی عدالتوں کا اختیار سرکار کی دسترس سے باہر نہیں ہے ۔حکمراں طبقے کے اشارے پر فیصلے صادر کئے جاتے ہیں ۔بدلے میں ججوں کو اچھے عہدے،راجیہ سبھا کی ممبری اور گورنری کے عہدے ریوڑیوں کی طرح بانٹے جارہے ہیں ۔ایسے حالات میں یہ کہنا کہ ہماری عدلیہ خودمختار اور اپنے فیصلوں میں آزادہے ،شاید صحیح نہیں ہوگا۔
راہل نے اپنے بیان میں کہاکہ ہندوستان میں مذہبی تنوع ہے ۔اس ملک میں مسلمان،سکھ ،عیسائی اور سبھی مذاہب کے لوگ موجود ہیں لیکن وزیراعظم انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں ۔تقریر کے اس نکتے پر زیادہ ہنگامہ آرائی ہے ۔سوال یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم مسلمانوں ،سکھوں اور عیسائیوں کوتمام بنیادی حقوق کے معاملے میں ہندوئوں کے مساوی سمجھتے ہیں توپھر ان کے خلاف اس قدر نفرت کیوں بڑھ رہی ہے ؟ آئے دن اقلیتوں پر حملے ہورہے ہیں لیکن وزیر اعظم اس پر خاموش رہتے ہیں ۔مسلمانوں کے ساتھ دیگر اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے اور ان سے حق رائے دہی سلب کرنے کے لئے الہ آباد اور بنارس میں متعدد جلسے ہوچکے ہیں ،اس سلسلے میں انتظامیہ اور سرکار نے کیا اقدامات کئے ؟آئین ہند کے خلاف نیا آئین ترتیب دیاجارہے جس کا پہلا مسودہ پیش کیا جاچکاہے،اس سلسلے میں حکومت اور ایجنسیاں کس قدر سنجیدہ ہیں یہ ہم نہیں جانتے۔جبکہ اس مسودے کے اکثر نکات منصہ شہود پر ہیں لیکن ہر سطح پر چشم پوشی کی جارہی ہے کیونکہ اس کے پس پردہ حکومت اور یرقانی تنظیموں کی پالیسی کارفرماہے ۔ ایسانہیں ہے کہ راہل گاندھی نے مودی حکومت کی بعض پالسیوںسے اتفاق رائے نہیں کیا ۔انہوں نے خواتین کو مفت گیس سلینڈر دینے اور جن دھن اسکیم کے تحت مفت بینک اکائونٹ کھولنے کی پالیسی سے مکمل اتفاق کیا ۔لیکن انہوں نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہاکہ جب مخالفت کی بنیادی زیادہ ہوں تو ایک دو پالیسوں پر اتفاق کوئی معنی نہیں رکھتا۔
راہل گاندھی نے ایک موقع پر پارلیمنٹ میں جمہوری قدروں کی پامالی پر بھی گفتگو کی۔انہوں نے کہاکہ اب تو پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے لیڈروں کے تقریر کے دوران مائک بند کردیے جاتے ہیں ۔راہل گاندھی نے اس مسئلے کوپارلیمانی اجلاس میں بھی اٹھایا تھا مگر اسپیکر نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی ۔ظاہر ہے راہل گاندھی کا اعتراض جمہوری بنیادوں پر تھا ۔پارلیمانی اجلاس کے دوران کسی لیڈر کو مائک بندکرکے تقریر سے روک دینا غیر جمہوری عمل ہے ،جس کی ذمہ داری اسپیکر پربھی عائد ہوتی ہے ۔لیکن جب اسپیکر سرکار کے زیر اثر ہو،اور وہ جمہوریت اور آئین کا ترجمان نہ ہوکر ایک مخصوص فکر کا ترجمان بن جائے تو کچھ بھی ممکن ہے ۔
اس ہنگامے کے بعد زعفرانی گروہ نے پریس کانفرنس میں راہل کو گھیرنے کی کوشش کی ۔مگر افسوس یہ کوشش بھی ناکام رہی ۔ لندن میں انڈین جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے پروگرام میں راہل گاندھی سے سوال ہواکہ آیا وہ اس طرح ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں ؟اس سوال پر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہاکہ ملک کی بدنامی کا ذریعہ تو وزیر اعظم خود بنے ہیں ،میں نے ملک کی صورتحال پر بات کی ہے ۔راہل نے وزیر اعظم کے بیانات کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے کہاکہ جب غیر ملکی سرزمین پر وزیر اعظم مودی بھارت میں پیداہونے پر اظہار شرمندگی کرتے ہیں ،کبھی کہتے ہیں ملک میں گذشتہ 70 سالوں میں کچھ ہواہی نہیں،توکیا یہ بیانات ملک کو بدنام نہیں کررہے تھے؟زعفرانی میڈیا اس ردعمل پر بوکھلاہٹ کا شکارہے ۔
برطانیہ میں مختلف موقعوں پر دیے گئے راہل کے بیانات کے نکات اہم تھے۔خاص طورپر کیمبرج یونیورسٹی میں ان کی تقریر ہرجگہ موضوع بحث ہے ۔ان کے بیانات کو کسی بھی طرح ملک مخالف یا ہندوستان کو بدنام کرنے والا نہیں کہا جاسکتا۔ملک کی بدنامی تو اس وقت ہوتی ہے جب پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں جمہوری قدروں کو رونداجاتاہے ۔جب اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو مسمار کیا جاتاہے ۔ان کے گھروں پر بلڈوزر چلائے جاتے ہیں ۔ان کی نسل کشی اور اقتصادی بائیکاٹ کے نعرے لگائے جاتے ہیں ۔جب مسلم نوجوانوں کو فرضی مقدمات میں پھنساکر ان کامستقبل تباہ کیاجاتاہے ،تو اس وقت ملک کی بدنامی نہیں ہوتی؟اس لئے راہل کی تنقید سے پہلے ملک کی بدنامی کے معیارات طے کرلئے جائیں ،تاکہ اس پرسرکار اور حزب اختلاف دونوںپابند عمل ہوں۔لیکن ہم جانتے ہیںیہ ممکن نہیں ہوگا۔