عالم نقوی
وقت کےسوال خواہ کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں جواب تو بس ایک ہی ہے:
ظلم کا خاتمہ اورانصاف کی بحالی! لیکن یہ ہو تو کیونکر ہو؟
قیادت اور رہنمائی کی باگ ڈور جن کے ہاتھوں میں ہونی چائیے اُن کی اکثریت ٹُک ٹُک دیدند، دم نہ کشیدند کا مصداق بنی ہوئی ہے اور اقلیت، یا تو بے حس اور بے خبر ہے یا پھر ’جتنے منھ اُتنی باتیں‘ ! عملی کام اور کمترین پیمانے ہی پر سہی عملی رہنمائی، برائے نام ہے۔
ایسے میں یا تو رویش کمار، ابھیسار شرما، اپوروا نند جھا اور رام پنیانی جیسے مٹھی بھر لوگ نظر آتے ہیں یا پھر حال ہی میں دلتوں نے کسی منظم قیادت اور کسی طاقتور لیڈر کے بغیروہ کر دکھایا ہے جس کی کوئی دوسری نظیر ہمیں تو کہیں نظر نہیں آتی۔ سبھی محروم، مظلوم او رمقہور طبقوں کا سماجی اتحاد، مستقبل میں بھی اِس کارنامے کو دوہرا سکتا ہے بشرطیکہ ہم خود غرض اور مفاد پرست قیادت کی ایک نہ سنیں۔
سبھی مشکل اور ہوش رُبا سوالوں کا جواب یہ ہے کہ ہر پریشانی اور مصیبت اپنے ساتھ، ایک نہیں، بہت سی آسانیاں اور راحتیں بھی ساتھ لاتی ہے کہ۔ ۔اِنَّ مَعَ ا لعُسرِ یُسراً ۔ فَاِ نَّ مَع َالعُسرِ یُسراً۔ ۔کے یہی معنی ہیں جو ہم اِس سے پہلے بھی اَپنےبیدار قارئین کے گوش گزار کر چکے ہیں۔
فرقہ وارانہ، نسلی و مسلکی فسادات ہوں یا ہولوکاسٹ، پوگروم اور نسل کشی، مستضعفین فی ا لارض کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔
معلوم دنیا کی تاریخ میں بہت دور نہ بھی جائیں تو صرف پچھلے ڈیڑھ دو سو برس کی تاریخ میں عبرت کے بے شمار نمونے ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ اٹھارہ سو ستاون اور انیس سو بیس کے آس پاس، انیس سو سینتالیس اور اُس کے اطراف، پھر انیس سو نوے سے دونوں طرف متصل برسوں میں غیر منقسم ہندستان، ترک امپائر، وسطی اور مغربی ایشیا نیز یورپ کے بلقان اور قفقاز علاقوں میں جو کچھ ہو چکا ہے اُس کی تفصیلات کسی صیغہِ راز میں نہیں تاریخ کے اَوراق پر اَظہر مِنَ ا لشَّمس ہیں۔
غزہ، بوسنیا، افغانستان، عراق، شام اور یمن، میانمار اور کشمیر جنت نظیر میں لکھی جانے والی ظلم و دہشت کی داستانیں کون نہیں جانتا !کیا آنے والے برسوں میں خدانخواستہ وطن عزیز میں بھی یہی تاریخیں پھر سے دوہرائی جانے والی ہیں؟ اگر مستقبل قریب اِس کا جواب اِثبات میں لے کر آنے والا ہے تو بھی مایوسی کفر ہے۔ خود غزہ اور عراق، سیریا اور یمن اِس کا ثبوت ہیں!
کرہ ارض سے ہر ذی حیات کا خاتمہ اور پہاڑوں کا چٹیل میدان بن جانا تو قیامت میں طے ہے لیکن اُس سے پہلے ایک بار اِس زمین کا عدل و قسط سےبھرنا بھی مقدر ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم ظلم کے خاتمے اور انصاف کے قیام کے لیے کیا کر رہے ہیں؟
پوری دنیا اور پوراملک تو درکنار ہم میں سے کوئی بھی صرف اپنی بستی اپنے محلے اور اپنے خاندان کو بھی پوری طرح تبدیل کر دینے پر قادر نہیں ۔ ہم صرف اور صرف اپنی ذات پر قدرت رکھتے ہیں۔ لہٰذا ہر پل، ہر لمحہ، ہر گھڑی ہماری صرف ایک ہی ذمہ داری ہے اور وہ یہ کہ ہم خود کو جھوٹ، ظلم اور بد عنوانی (کرپشن) سے پاک بنانے کی کوشش کرتے رہیں۔ ہم ٹرمپوں، مودیوں، یوگیوں اور یاہوؤں سے زمین کو پاک کرنے کی طاقت نہیں رکھتے لیکن ہم اپنے آپ کو اور اپنے کردار کو مودی، یوگی، ٹرمپ اور یاہو کی ذات اور کردار کا نمونہ بننے سے باز رکھنے کی طاقت بہر حال رکھتے ہیں !
لہٰذا حالات کا ماتم کرنے، رونے اور کُڑھنے کے بجائے ہمیں بس خود کو بدلنےمیں ہمہ دم مصروف رکھنا چاہئیے۔ ہمارا کام اِسی کوشش میں مصروف رہنااور اپنے زیر اثر افراد کو بھی اِسی کوشش میں مصروف رکھنا ہے۔اور بس۔ نتیجہ صرف اُس خالق مالک اور پالنہار کے اختیار میں ہےجو سب جانتا بھی ہے اور سب کے کیے کا ریکارڈ بھی رکھتا ہے اور جو وقت آنے پر سبھی فرعونوں، نمرودوں، قارونوں، اور یزیدوں کو اُس برے انجام سے ہمکنار کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے جو وقت کے سبھی جھوٹو ں، غاصبوں، منافقوں اور ظالموں کا مقدر ہے !انشا اللہ۔
تو آئیے ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم خود کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے۔ ہم جانتے بوجھتے ہوئے سچ کو نہیں چھپائیں گے۔ نہ ہم خود کسی پر ظلم کریں گے نہ حتی ا لمقدور کسی پر ظلم ہونے دیں گے۔ نہ ہم بد عنوانی میں ملوث ہوں گے نہ کرپٹ لوگوں کی تائید اور حمایت کریں گے۔ اگر ہم صرف اپنے آپ کو جھوٹ بولنے اور ظلم کرنے سے روک لیں تو یاد رکھیے کل ہمارا ہے، جھوٹوں اور ظالموں کا نہیں۔ کیا آپ کو فرعون و ہامان، نمرودو قارون اور شداد و یزید کا انجام یاد نہیں ؟
اکیسویں صدی کے بھی تمام فرعون،قارون اور یزید خواہ وہ امریکہ میں ہوں یا بھارت میں، عرب میں ہوں یا عجم میں، مشرق میں ہوں یا مغرب میں، بہت جلد، انشاللہ، اُسی بُرے اَنجام سے دوچار ہونے والے ہیں جو دنیا کے تمام مُسرِفین، مُترِفین، ظالمین، کاذِبین اورمنافقین کا مقدر ہے۔ فھل من مدکر؟
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)