-
فلسطین کی بے بسی اور عالم اسلام کی بے حسی
- سیاسی
- گھر
فلسطین کی بے بسی اور عالم اسلام کی بے حسی
1163
M.U.H
22/05/2020
0
0
تحریر: شبیر احمد شگری
فلسطین پوری دنیا کا مسئلہ بن چکا ہے لیکن حیرت کا مقام ہے کہ انسانیت کا درد رکھنے والے غیر مسلم یہ حقیقت مانتے ہیں کہ فلسطین میں ظلم ہو رہا ہے مگر پھر بھی اسلامی دنیا خاموش ہے۔ اسرائیلی جارحیت کی کسی بھی عرب ملک نے اب تک مذمت نہیں کی، کیونکہ اب ان بادشاہتوں اور اسرائیل میں ان کی دوستی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اسرائیل ان کی بادشاہت کے تسلسل کا گرنٹر بن چکا ہے۔
قدس، قبلہ اول اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا دوسرا حرم ہے، یہ فلسطین کے ان دسیوں لاکھ مسلمانوں کی اصل سرزمین ہے، جنہیں عالمی استکبار نے غاصب صہیونیوں کے ہاتھوں آج سے 70 سال قبل سنہ 1948ء میں اپنے وطن سے جلاوطن کرکے قدس کو غاصب صہیونیوں کے تصرف میں دے دیا تھا۔ اس سامراجی سازش کیخلاف فلسطینی مسلمانوں نے شروع سے ہی مخالفت کی اور ان مظلوموں کی قربانی اور صبر و استقامت کے سلسلے میں پوری دنیا کے حریت نواز، بیدار دل انسانوں نے حمایت کی اور اسی وقت سے فلسطین کا مسئلہ ایک سیاسی اور فوجی جدوجہد کے عنوان سے عالم اسلام کے سب سے اہم اور تقدیر ساز مسئلے کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے۔ خدا نے وعدہ کیا ہے "اگر تم نے اللہ کی مدد کی تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثبات قدم عطا کر دے گا۔"
اب وقت آچکا ہے کہ دنیا کے مسلمان ایک ہو جائیں، مذہب اور اعتقادات کے اختلافات کو الگ رکھ کر حریم اسلام کے دفاع و تحفظ کیلئے اسلام و قرآن اور کعبہ و قدس کے تحفظ کیلئے، جو پورے عالم اسلام میں مشترک ہیں، وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک اور ایک ہو جائیں اور کفار و منافقین کو اسلامی مقدسات کی پامالی کی اجازت نہ دیں تو کیا مجال ہے کہ دو ارب سے زائد مسلمانوں کے قبلۂ اول پر چند لاکھ صہیونیوں کا تصرف، قتل عام اور غارتگری کا سلسلہ باقی رہ سکے۔ مگر جو بات امت مسلمہ کو خون کے آنسو رلاتی ہے، وہ علاقے کے عرب ممالک کے حکمرانوں کا منافقانہ رویہ ہے۔ عرب ممالک کے سربراہ یوں تو اپنے ہر مسئلے کو عربوں کا مسئلہ قرار دے کر اس کیلئے شب و روز کوششیں کرتے ہیں اور پورے عالم اسلام میں اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر مدد مانگتے ہیں، لیکن فلسطین کے مسئلے پر ان کا رویہ ہمیشہ منافقانہ رہا ہے۔
جیسا کہ سعودی شہزادے کی جانب سے اسرائیل کے بارے میں صاف بیان سامنے آیا کہ فلسطین کیساتھ جنگ کی صورت میں وہ یہودیوں اور اسرائیلی جمہوری خواہشات کا ساتھ دیں گے۔ شہزادے کا کہنا تھا کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ کی صورت میں عرب ممالک کی جانب سے اسرائیلی اقدامات کی مخالفت کے لئے اٹھائے جانیوالے اقدامات کو روکنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔ ایک جانب سعودی حکام خود کو اسلام، قرآن اور سرزمین نبوت اور حرمین شریفین کا خادم اور نمائندہ کہلاتے ہیں اور دوسری جانب اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو یہ کسی مذہبی اور سماجی سانحے سے کم شمار نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل سے سعودی عرب کے تعلقات نہ صرف مسلم امہ بلکہ خود سعودی بادشاہت کیلئے بھی بہت نقصان دہ ثابت ہونگے اور اس سے سعودی بادشاہت ملک کے اندر بھی تنہائی کا شکار ہو جائیگی۔ مسلم امہ کبھی بھی اس چیز کو قبول نہیں کریگی اور سعودی عوام بھی اس بات کو قبول نہیں کریگی کہ سعودی بادشاہت چوری چھپے یا اعلانیہ اسرائیل سے کسی بھی قسم کے تعلقات قائم رکھے۔
عالمی اداروں کی خاموشی، عرب حکمرانوں کا منافقانہ رویہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دوہرے معیار اور عالمی برادری کی عدم توجہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ امت مسلمہ اتحاد و وحدت اور اسلامی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کے حل کیلئے میدان عمل میں آجائے۔ تل ابیب اور واشنگٹن کے تعلقات ہمیشہ وسیع پہلوؤں کے حامل رہے ہیں، کیونکہ جو بھی صدر امریکہ میں برسر اقتدار آتا ہے، اس کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ اسرائیل کیساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں دوسرے پر سبقت لے جائے۔ اسی سبب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات سے پہلے بھی اور وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے کے بعد بھی کھل کر اسرائیلی حکومت کے لئے اپنی حمایت کا اعلان کیا۔ ٹرمپ نے امریکہ کی سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کے برخلاف قدم اٹھاتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے مقبوضہ فلسطین منتقل کر دے گا۔ ٹرمپ حکومت، اسرائیل کیلئے بلا عوض امداد میں اضافے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔ امریکہ کی طرف سے اسرائیلی حکومت کو سالانہ تین ارب ڈالر بلاعوض امداد دی جاتی ہے، جس کا بڑا حصہ فوجی ساز وسامان پرخرچ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ سالانہ اربوں ڈالر آسان شرائط پر اسرائیل کو قرض دیتا ہے، جن سے اسرائیلی حکومت مغربی ملکوں کے جدید ترین اسلحے خریدتی ہے۔ امریکہ اسرائیل کی حمایت کرکے فلسطینیوں کیلئے مسائل پیدا کر رہا ہے، فلسطین پوری دنیا کا مسئلہ بن چکا ہے، لیکن حیرت کا مقام ہے کہ انسانیت کا درد رکھنے والے غیر مسلم یہ حقیقت مانتے ہیں کہ فلسطین میں ظلم ہو رہا ہے، مگر پھر بھی اسلامی دنیا خاموش ہے۔ اسرائیلی جارحیت کی کسی بھی عرب ملک نے اب تک مذمت نہیں کی، کیونکہ اب ان بادشاہتوں اور اسرائیل میں ان کی دوستی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اسرائیل ان کی بادشاہت کے تسلسل کا گرنٹر بن چکا ہے۔ اسرائیل کی جارحانہ اور دہشتگردانہ پالیسیوں اور عزائم سے واضح طور پر ایسا لگتا ہے کہ غاصب اسرائیل صرف فلسطین پر غاصبانہ تسلط تک محدود نہیں رہنا چاہتا بلکہ وہ پوری دنیا کو اپنا غلام بنا کر اس پر حکومت کرنا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج مشرق وسطیٰ آگ میں جل رہا ہے، جنوبی ایشیا کا حال بھی اسی طرح ہے اور اگر ان تمام معاملات کی تحقیق کی جائے تو تمام تر سازشوں کے تانے بانے اسرائیل تک جا ملتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی سمجھدار اور باشعور ریاستیں مل کر بیٹھ جائیں اور مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے امن کیلئے خطرہ، غاصب اسرائیلی ریاست کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور اسرائیلی ہٹ دھرمی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اسرائیل کیخلاف سخت سے سخت کارروائی کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کو بین الاقوامی کنٹرول میں لیا اور دنیا کے امن کو یقینی بنایا جائے۔ متعدد مرتبہ خود اسرائیلی ذرائع ابلاغ اس بات کا انکشاف کرچکے ہیں کہ اسرائیل مہلک اور خطرناک ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ دو سو سے زائد ایٹم بم رکھتا ہے، آخر اسرائیل کو 200 ایٹم بم رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے، یہ اسرائیل ہی ہے کہ جس نے سرزمین فلسطین پر غاصبانہ تسلط کے بعد سے متعدد مرتبہ فلسطینیوں کو نہ صرف کیمیائی ہتھیاروں کا نشانہ بنایا ہے بلکہ آج کے دن تک خطرناک اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف عمل ہے، جبکہ دنیا کی مقتدر قوتیں جو بلند و بانگ دعوے کرتے ہوئے تو نظر آتی ہیں، لیکن دراصل اسرائیلی سفاک ریاست کے سامنے بے بس ہیں، جو اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی لگانے تو کیا اس کے ہتھیاروں کے بارے میں تذکرہ کرنا بھی گوارہ نہیں کرتی ہیں کہ کہیں خطرے کا رخ ان ہی کی طرف نہ ہو جائے۔
اسرائیل ہی وہ ناجائز ریاست ہے، جو فلسطینی زمین پر غیر قانونی بستیاں تعمیر کر رہی ہے۔ اسرائیل کی ناجائز رژیم نے تقریباً 7 ہزار فلسطینیوں کو قید، فلسطینی پناہ گزینوں کو واپسی کے حق سے محروم، اپنے ہی شہروں میں فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا ہے، یہاں تک فلسطینی عوام کو بیت المقدس ان کے اپنے دارالحکومت میں جانے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اسرائیلی ناجائز حکومت کے اہم وزراء یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ مستقبل میں فلسطینی نام کی کوئی بھی ریاست نہیں ہوگی اور بیت المقدس کو تقسیم نہیں کیا جائے گا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل کی ناجائز ریاست امن و امان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ امریکہ اور برطانیہ غزہ میں مظلوم فلسطینی بچوّں کے قتل عام کی باضابطہ طور سے حمایت کر رہے ہیں۔ اگر دنیا کے کسی گوشے میں ایک جانور کو مار دیا جائے تو اس کا دنیا بھر میں پرچار کرتے ہیں، لیکن غزہ پر غاصب صہیونی حکومت کے حالیہ حملوں اور خاص طور سے فلسطینی معصوم بچوں کا قتل عام ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
اقوام عالم غزہ میں درد ناک واقعات کا مشاہدہ کر رہی ہیں کہ نام نہاد انسانی حقوق کے دعویدار ممالک اور تنظیموں کو، مغرب خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ کے حامی قصّابوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کا منظر گویا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ غزہ میں غاصب صہیونی حکومت کے جرائم پر عالمی برادری کی معنی خیز خاموشی، دنیا کی تلخ حقیقت کی ہولناک تصویر ہے۔ غزہ میں صہیونی حکومت کے وحشیانہ حملوں پر اسرائیل کے حامی مغربی ذرائع ابلاغ ایسی حالت میں چپ سادھے ہوئے ہیں، جب کہ صہیونی معاشرے میں ہر قسم کی اخلاقی برائیاں اور بدعنوانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ جرائم مقبوضہ فلسطین میں انجام پا رہے ہیں۔ اس کے باوجود صہیونیوں کو ہر حالت میں مغرب کی حقوق انسانی کی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے، حتیٰ مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینی نوجوان کو زندہ جلا دینے پر مبنی صہیونی آبادکاروں کا وحشیانہ اقدام بھی مغربی ممالک کے نام نہاد انسانی حقوق کے حامیوں کے ضمیر کو بیدار نہ کر سکا اور صہیونزم کے حامی ذرائع ابلاغ نے تو گویا اس جارحیت کو دیکھا ہی نہیں۔
بلا شبہ غزہ اور فلسطین کے دیگر علاقوں میں فلسطینی عورتوں اور بچوں کا قتل عام، مغرب میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے دم توڑنے کا غماز ہے اور غزہ میں انجام دی جانے والی وحشیانہ کارروائیوں میں اسرائیل کے حامی خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ بھی شریک ہیں۔ غزہ ایسی حالت میں صہیونی فوجیوں کے حملوں کا نشانہ بن رہا ہے جبکہ 2006ء سے اسرائیل نے اس علاقے کا محاصرہ کر رکھا ہے اور اسے دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ پر غاصب صہیونی حکومت کے وحشیانہ حملے، جنگی اور انسانیت کیخلاف جرائم کا حقیقی مصداق ہیں اور مغرب کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی غزہ کی حالیہ صورت حال کے مقابلے میں خاموشی نے مغرب میں انسانی حقوق پر خط تنسیخ کھینچ دیا ہے اور یہ تنظیمیں صرف استکباری طاقتوں کے ناجائز مفادات کو پورا کرنے میں مصروف ہیں۔ اسرائیل کا مفاد اسی میں ہے کہ عرب ملکوں پر طاغوتوں اور ڈکٹیٹروں کی حکومت قائم رہے۔ یہ ڈکٹیٹر بڑی شدت سے جمہوریت اور آزادی کے مخالف ہیں اور اسرائیل کے مفادات کا تقاضا ہے کہ عرب ملکوں میں اسی طرح کے حکمران برسر اقتدار رہیں۔
واضح رہے کہ عرب ملکوں اور قدس کی غاصب حکومت کے درمیان کئی برسوں سے خفیہ تعلقات ہیں، جو اب دنیا پر آشکار ہوچکے ہیں۔ ستاون ممالک کی اسلامی اتحادی افواج کی ٹھیکیدار سعودی عرب کی حکومت جو خود کو خادمین حرمین شریفین کہتی ہے، فلسطین کے موقف پر خاموشی اختیار کئے بیٹھی ہے، جو کہ بلاشبہ امریکہ اور صیہونی حکومت کے مفاد میں ہے۔ جیسا کہ سعودی شہزادے کی جانب سے اسرائیل کے بارے میں صاف بیان سامنے آیا کہ فلسطین کیساتھ جنگ کی صورت میں وہ یہودیوں اور اسرائیلی جمہوری خواہشات کا ساتھ دیں گے۔ شہزادے کا کہنا تھا کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ کی صورت میں عرب ممالک کی جانب سے اسرائیلی اقدامات کی مخالفت کے لئے اٹھائے جانیوالے اقدامات کو روکنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔ اگر تیسری دنیا کے کسی ملک اور خصوصاً کسی اسلامی ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو تو ساری دنیا بہت شور مچاتی ہے، لیکن اگر خود ان سپر پاورز اور ترقی یافتہ ممالک کے ہاں ایسا کچھ ہو جائے تو ایسا سنّاٹا چھا جاتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
انسانیت کیخلاف ہونیوالے جرائم میں امریکہ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس میں سیاہ فاموں اور مسلمانوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے، ان ترقی یافتہ ممالک میں ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کسی کو کیوں نظر نہیں آتیں؟ افغانستان، یمن، شام، مصر، لیبیا، فلسطین اور کشمیر میں ہونیوالی انسانی حقوق کی پامالیوں اور ان میں موجود سپر پاورز کے کردار پر کوئی واویلا کیوں نہیں مچایا جاتا؟ دنیا میں بسنے والے وہ انسان جن کا خون انتہائی سستا سمجھا جاتا ہے، ان میں مسلمان سب سے زیادہ ہیں، فلسطین میں پوری پوری جیتی جاگتی ہنستی بستی آبادی کو سیکنڈز میں خون میں نہلا دیا جاتا ہے، شہر کے شہر بمباری کرکے ہموار کر دیئے جاتے ہیں، لیکن کسی انسانی حقوق کی تنظیم کے پیٹ میں درد تک نہیں ہوتا، کوئی سپر پاور دیگر معاملات کی طرح خدائی فوجدار بن کے میدان میں نہیں کودتی بلکہ بعض اوقات ظالم کے ہاتھ مزید مضبوط کرتے دکھائی دیتی ہے۔ ابھی تک تو متواتر اسرائیلی حکومتیں کسی نہ کسی طرح یورپ کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہیں کہ ان کی جانب سے کسی بھی قسم کا سیاسی دباؤ اسرائیل کو امن مذاکرات کے عمل سے باہر کر دے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ امن مذاکرات کا یہ عمل بہت عرصہ پہلے ہی اپنا برائے نام وجود بھی کھو چکا ہے، اسرائیل نے فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کی حد کر دی، شیر خوار بچوں کو بھی نہیں بخشا، کمسن لڑکے لڑکیوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ اس کی جیلوں میں جہاں درجنوں فلسطینی مرد و خواتین قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، وہیں دو سو سے زائد کمسن بچے بھی اپنے ناکردہ گناہ کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان کا قصور یہ ہے کہ انہیں اپنی مقدس اراضی سے پیار ہے۔ بیت المقدس، مسجد اقصیٰ کیلئے وہ اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ اسرائیلی پولیس اور سکیورٹی فورسز کا ظلم و بربریت بڑھ جاتا ہے تو یہ معصوم اپنے ہاتھوں میں پتھر لئے یا پھر غلیلوں سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ویسے بھی اسرائیلی فورسز کے عصری اسلحہ کے سامنے ان پتھروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، پھر بھی کمسن فلسطینیوں کی جانب سے برسائے جانے والے سنگ اسرائیلی فورسز کا غرور و تکبر خاک میں ملا دیتے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کی سنگدلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ فلسطینی کمسنوں کو اغوا کرتے ہوئے انہیں جیلوں میں بند کر دیتی ہے۔
ان بچوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ یہودی آبادیوں پر دہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ بنا رہے تھے یا اس منصوبہ کا حصہ تھے، جو یہودیوں کی تباہی و بربادی اور ہلاکتوں کیلئے بنایا گیا تھا۔ حقوق انسانی کے تحفظ کا دعویٰ کرنیوالا امریکہ فلسطینی بچوں کو جیلوں میں ڈالے جانے سے متعلق اسرائیلی مظالم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اس میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی بچوں کے استحصال کیخلاف آواز اُٹھانے کی جرأت ہی نہیں، اس جرم میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی شامل ہے اور اس کا ثبوت امریکی حکومت کی خاموشی ہے۔ اس ایسوسی ایشن کا یہ بھی الزام ہے کہ امریکہ اسرائیل کی بربریت پر تنقید کرنے سے گریز کرتا ہے، لیکن اس کے برعکس اسرائیل کے تشدد اور ظلم و جبر کی جب فلسطینی مزاحمت کرتے ہیں تو ان کی مذمت کرنے میں وہ کسی قسم کی تاخیر نہیں کرتا۔ یہ دراصل امریکی حکومت کا دوغلا پن ہے۔
ایک طرف تو مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف درد اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب کی سرپرستی والے عرب ممالک مسلمانوں کے ابدی اور دائمی دشمن اسرائیل کیساتھ گہری دوستی اور تعلقات قائم کر رہے ہیں اور اسرائیل کے شوم منصوبوں کو عرب ممالک میں نافذ کرکے اسرائیل اور امریکہ سے شاباش حاصل کر رہے ہیں۔ کیا اسرائیل نے کسی عرب سرزمین پر غاصبانہ قبضہ نہیں کیا۔؟ اسلامی مقدسات کی توہین نہیں کی؟ فلسطینی بچوں کو بے رحمی کیساتھ قتل نہیں کیا۔؟ مسلمانوں کیساتھ عرب حکمرانوں کی خیانت طشت از بام ہوگئی ہے۔ واضح ہوگیا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے حامی عرب ممالک پر امریکہ اور اسرائیلی مزدوروں کا قبضہ ہے، جو امریکہ اور اسرائیل کی نیابت میں اسلامی ممالک پر جنگ مسلط کر رہے ہیں اور علاقہ میں دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔