-
اپوزیشن اتحاد اور کانگریس کی سیاسی دور اندیشی
- سیاسی
- گھر
اپوزیشن اتحاد اور کانگریس کی سیاسی دور اندیشی
323
m.u.h
24/07/2023
0
0
تحریر: سہیل انجم
اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کے خلاف مرکزی حکومت کی جانب سے ایجنسیوں کے استعمال نے انھیں مجبور کیا کہ وہ ایک اتحاد قائم کریں اور بی جے پی کے خلاف مل کر الیکشن لڑیں۔ حالانکہ اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان مختلف ریاستوں میں باہمی اختلافات ہیں جو انتخابات میں ان کے ووٹوں کے بکھراؤ کا سبب بنے ہیں۔ اس بکھراؤ نے بی جے پی کو نہ صرف کئی ریاستوں میں بلکہ مرکز میں بھی برسراقتدار کر دیا ہے۔ اگلے سال ہونے والے انتخابات میں بھی اگر ان پارٹیوں کے درمیان اختلافات رہے تو ایک بار پھر بی جے پی کامیاب ہو جائے گی اور تیسری مرتبہ مسلسل مرکز میں برسراقتدار آجائے گی۔ اس بات کا احساس اپوزیشن جماعتوں کو ہوا اور انھوں نے ایک اتحاد قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں بہار کے وزیر اعلیٰ اور جنتا دل یو کے رہنما نتیش کمار نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے پہلے پٹنہ میں اور پھر بنگلور میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا اجلاس ہوا اور اب اگلا اجلاس ممبئی میں ہونے والا ہے۔ پٹنہ میں ابتدائی مراحل طے ہوئے اور بنگلور میں اتحاد کا نام طے ہوا۔ توقع ہے کہ ممبئی میں ان جماعتوں کی ایک مشترکہ ورکنگ کمیٹی بنے گی اور اس کا ایک کنوینر مقرر کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ جو اتحاد قائم ہوا ہے اس کا چیئر مین بھی منتخب کیا جائے گا۔
اپوزیشن اتحاد کا نام ”انڈیا“ رکھا گیا ہے جو کہ ایک بڑے نام کا مخفف ہے۔ یہ نام ہے ”انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس“۔ اس پر کافی گفتگو ہو چکی ہے کہ اس نام نے کس طرح ملک میں سیاسی ماحول گرم کیا اور اسے سیاست دانوں، تجزیہ کاروں، صحافیوں اور عوام کی توجہ حاصل ہوئی۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو اس اتحاد کے قیام، نام کے اعلان اور دیگر اقدامات میں کانگریس کا اہم کردار رہا ہے۔ اس میں بھی سونیا گاندھی کا رول سب سے اہم ہے۔ سونیا گاندھی نے تقریباً بیس سال قبل ایک اتحاد قائم کیا تھا جس کا نام ”یونائٹڈ پروگریسیو الائنس“ یعنی ”یو پی اے“ تھا۔ اس اتحاد نے 2004 سے 2014 تک مرکز میں حکومت کی۔ اس کی چیئرپرسن سونیا گاندھی تھیں۔
سونیا گاندھی ہندوستانی سیاست میں ایک باوقار پوزیشن کی مالک ہیں۔ انھوں نے کبھی بھی غیر معیاری بات نہیں کی اور غیر معیاری بیان نہیں دیا۔ اگر چہ مختلف امور پر کانگریس پارٹی سے کئی اپوزیشن جماعتوں کے اختلافات ہیں لیکن تقریباً تمام اپوزیشن پارٹیوں میں سونیا کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بی جے پی کے رہنما تو ان کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں لیکن اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے ان کے لیے کوئی نازیبا بات کبھی نہیں سنی گئی۔ اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ انہی کو ہی ”انڈیا“ نامی اتحاد کا چیئرپرسن بنایا جائے گا۔ جبکہ نتیش کمار کو کنوینر اور ممتا بنرجی اور ملکارجن کھڑگے کو دوسری ذمہ داریاں دی جائیں گی۔
حالانکہ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی اور کانگریس کی سیاست ایک دوسرے کے متضاد ہے۔ وہاں دونوں ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ لیکن بنگلور اجلاس میں سونیا گاندھی اور ممتا بنرجی کے درمیان جو خوش گوار ہم آہنگی دیکھی گئی وہ آنے والے دنوں میں نئی شکل و صورت اختیار کر سکتی ہے۔ سونیا گاندھی نے 2004 میں جس طرح وزیر اعظم کا عہدہ قبول نہ کرکے ایک غیر متنازع شخص ڈاکٹر من موہن سنگھ کو وزیر اعظم بنایا اس سے ان کا سیاسی قد کافی بڑھ گیا۔ اس کی وجہ سے آج بھی سونیا گاندھی کو ایک ایسے سیاست داں کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے جس کو اقتدار کا لالچ نہیں ہے۔ یہ خصوصیت کانگریس کے حق میں تو سودمند ہے ہی خود اپوزیشن کے حق میں بھی سودمند ہے۔
اس درمیان کانگریس نے دو بڑے اہم فیصلے کیے۔ ایک تو یہ کہ اس نے اعلان کر دیا کہ اس کی دلچسپی وزیر اعظم کے عہدے میں نہیں ہے۔ خیال رہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ کانگریس کی نظر وزیر اعظم کے عہدے پر رہتی ہے۔ راہل گاندھی کے بارے میں بھی یہ باتیں آتی رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے کئی اپوزیشن جماعتیں اتحاد کرنے میں جھجک کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔ لیکن راہل گاندھی نے خود یہ اعلان کر دیا کہ کانگریس وزیر اعظم کے عہدے کے لیے اصرار نہیں کرے گی۔ اس کے بعد کانگریس صدر ملکارکن کھڑگے نے بھی اس کا اعلان کر دیا۔
دوسرا فیصلہ دہلی حکومت کے خلاف مرکزی حکومت کے آرڈیننس سے متعلق ہے۔ جب پٹنہ میں اپوزیشن کا اجلاس ہوا تھا تو دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا تھا کہ وہ اگلی میٹنگ میں اسی صورت میں شامل ہوں گے جب کانگریس مرکزی حکومت کے آرڈیننس کے خلاف موقف اختیار کرے گی۔ اس وقت کانگریس نے کہا تھا کہ ہم پارلیمانی اجلاس کے آغاز سے قبل اس سلسلے میں اپنا موقف واضح کر دیں گے۔ لہٰذا پارلیمانی اجلاس کے آغاز اور بنگلور اجلاس سے پہلے اس نے حکومت کے آرڈیننس کے خلاف اور دہلی حکومت کے حق میں پوزیشن لے لی۔ اس اعلان کے بعد کیجریوال نے بنگلور اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا اور شرکت کی۔
اب عام آدمی پارٹی کو بھی کانگریس مخالف اپنے موقف میں نرمی لانی ہوگی۔ اسے دہلی اور پنجاب میں کانگریس کے لیے جگہ نکالنی ہوگی۔ پارلیمانی انتخابات میں ان ریاستوں میں کانگریس سے بہت زیادہ نشستیں طلب کرنے سے بچنا ہوگا۔ اگر اس نے اس معاملے میں سیاسی پختگی کا ثبوت دیا تو خیال کیا جاتا ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کو بہت کم سیٹیں حاصل ہو پائیں گی۔ لیکن اگر کیجریوال اپنی سیاست کی پرانی ڈگر پر چل پڑے تو پھر اس اتحاد کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح ممتا بنرجی اور کانگریس دونوں کو مغربی بنگال میں ایک دوسرے کے جذبات اور ضرورت کا خیال رکھنا ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو وہاں بھی بی جے پی اپنی پرانی تاریخ دوہرا پانے میں بری طرح ناکام رہے گی۔
یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اپوزیشن میں کانگریس ہی ایک ایسی پارٹی ہے جس کی پورے ملک میں موجودگی ہے۔ وہ ایک صدی سے بھی پرانی پارٹی ہے اور اس نے کئی دہائیوں تک ملک پر حکومت کی ہے۔ قومی و بین الاقوامی سطح پر اس کی ایک ساکھ ہے۔ وہ اگر چہ اب بہت سی ریاستوں میں کمزور ہو گئی ہے لیکن اب بھی مجموعی طور پر دیگر اپوزیشن جماعتوں سے مضبوط ہے۔ لہٰذا اپوزیشن جماعتوں کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے۔ ان کو اس کو وہی مقام دینا چاہیے جو اس کا حق ہے۔ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں ایک متحدہ پلیٹ فارم تیار کرنے کے سلسلے میں کانگریس نے جس وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ توقع ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اس بات کو محسوس کریں گی اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گی جو اتحاد کے لیے تباہی کا باعث بنے۔