-
’ٹھوک دو‘ کی سیاست اور مسلمان
- سیاسی
- گھر
’ٹھوک دو‘ کی سیاست اور مسلمان
606
M.U.H
27/03/2024
0
0
تحریر:عادل فراز
بدایوں میں معصوم بچوں کےبہیمانہ قتل اور ساجد کے انکائونٹر پر بات کرنے سے پہلے ہم چند واقعات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتے ہیں ،تاکہ آپ کی نگاہوں میںمجرم اور پولیس کا حقیقی چہرہ پیش کیاجاسکے ۔تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ اقلیتی طبقے کے مجرموں کے لئے پولیس کے پاس ’ٹھوک دو‘ کی پالیسی کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے ۔جبکہ اقلیتوں کے خلاف جرائم کو انجام دینے والے افراد کو تحفظ فراہم کیاجاتاہے اور عدالتوں سے انہیں برق رفتاری کے ساتھ ضمانت بھی مل جاتی ہے ۔
سال گذشتہ جے پور سے ممبئی جارہی ٹرین ممبئی سینٹرل سپر فاسٹ ایکسپریس میں ریلوے پروٹیکشن فورس(آرپی ایف) کے کانسٹبل چیتن سنگھ نے ’منافرتی جرم‘ انجام دیتے ہوئے تین مسافروں کو گولی ماردی تھی ۔ان کے علاوہ مرنے والوں میں پولیس کا جوان ٹیکارام مینا بھی تھا۔اس حادثے کے بعد چیتن سنگھ کو بچانےکی پوری کوشش کی گئی اور یہ باورکرایاگیاکہ اس نے ڈپریشن کے چلتے قتل کی واردات کو انجام دیاہے جبکہ حقائق اس کے برعکس تھے ۔سوال یہ ہے کہ کیا چیتن سنگھ کا جرم معمولی تھا۔آخر اس کو ذہنی مریض بتلاکر بچانے کی کوشش کیوں کی گئی جبکہ اس سے پہلے بھی وہ کئی جرائم کا ارتکاب کرچکاتھا۔پولیس نے اس کو قانونی طریقے سے گرفتاکرکے عدالت میں پیش کردیاجس کے بعد اب تک اس کے خلاف مقدمہ چل رہاہے ۔آخر پولیس نے اس موقع پر بروقت ’ٹھوک دو‘ کی پالیسی کیوں اختیارنہیں کی جب کہ وہ چارلوگوں کا قتل کرکے اپنے سینئر افسر پر بندوق تانے ہوئے تھا۔چیتن سنگھ ذہنی بیمار نہیں تھابلکہ وہ ہندوستان کے ’منافرانہ ماحول‘ کی پیداوار تھا،جس نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بالکل ختم کردیاہے ۔اس لئے چیتن سنگھ جیسے مجرموں کو کوسنے کے ساتھ ان یرقانی تنظیموں سے اظہار بیزاری بھی ضروری ہے جو اس طرح کے جرائم پر لوگوں کو اکسارہی ہیں ۔
اسی سال یعنی 2023میں سابق رکن پارلیمنٹ عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف کو الہ آباد میںبڑی آسانی سے گولی مارکر قتل کردیاگیا۔قاتلوں کو پولیس نے موقعۂ واردات پر رنگے ہاتھوں گرفتارکرلیا اور پھر انہیں عدالت میں پیش کرکے پولیس نے اپنا فریضہ مکمل کردیا۔عتیق احمد اور اشرف پر جب گولیاں برسائی جارہی تھیں اس وقت پولیس موقع پر موجود تھی ،اور اگر پولیس چاہتی تو انہیں’کراس فائرنگ‘ میں ڈھیرکیاجاسکتاتھالیکن پولیس نے انہیں دبوچ کر گرفتارکرلیا۔جبکہ عتیق احمد اور اس کے بھائی کو عدالت نے مجرم مانتے ہوئے سزاسنادی تھی لیکن ان کے سیاسی اور سماجی حریفوں کے لئے عدالت کی سزاتسلی بخش نہیں تھی ،اس لئے انہوں نے بڑی بے باکی سے دونوں بھائیوں کا گولی مارکر قتل کردیا۔یاد کرئیے جب ہریانہ میں جنید اور ناصر کو نام نہاد ’گئو رکشکوں ‘ نے زندہ جلایا،اس کے بعد پولیس اور سرکار نے کیا مناسب اقدامات کئے ؟جبکہ مجرموں کے بارے میں پولیس کےپاس تمام ضروری معلومات موجود تھیں مگر مونومانیسر اور اس کے گروہ کے خلاف کوئی ٹھوس کاروائی نہیں کی گئی ۔میوات کے نوح میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد جب مونو مانیسر کو گرفتاکیاگیا ،اس وقت بھی اس کو کلیدی جرائم میں مجرم نہیں بنایاگیا۔اس کے کچھ دنوں بعد مونومانیسر کو عدالت سے ضمانت مل گئی ۔مونو مانیسر جیسے سیکڑوں ایسے مجرم ہیں جو ’گئو رکشا‘کے نام پر بے گناہوں کا قتل عام کرتے آرہے ہیں اور ان کے خلاف پولیس نے اب تک کوئی مناسب کاروائی نہیں کی ،خاص طورپر راجستھان اور ہریانہ کے سرحدی علاقوں میں ان کا خوف چھایاہواہے ۔افسوس یہ ہے کہ بعض موقعوں پر پولیس بھی ان کی حمایت کرتی ہے اور ان پر آنچ نہیں آنے دیتی کیونکہ پولیس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان ’گئورکشکوں‘ کے سرپر کس کا ہاتھ ہے ۔اسی طرح موب لنچنگ کے درجنوں واقعات رونماہوچکے ہیں جس کو اقلیتوں کے خلاف مجرمانہ کاروائی کا ایک بہترین ذریعہ مان لیاگیاہے ۔کیونکہ’ موب لنچنگ‘ انتہائی آسان عمل ہے جس پر قانونی کاروائی میں بھی بہت ساری دشواریاں ہیں ۔گذشتہ کچھ سالوں میں جو فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے ہیں ان میں بھی مسلمانوں کےخلاف پولیس نے یک طرفہ کاروائی کی ،جس کی تازہ مثال نوح میوات میں دیکھی جاسکتی ہے ۔بلڈوزر بھی تنہا مسلمانوں کے گھروں پر چلائے گئے جس سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ فسادی صرف مسلمان ہوتے ہیں ۔اسی طرح ہر جرم کے بعد فوراً مسلمانوں کے گھر مسمار کرنے کے لئے بلڈوزر پہونچ جاتاہے جبکہ دیگرطبقات اور مذاہب کے مجرموں کے گھر سلامت رہتے ہیں ۔المختصر !ایسے موقعوں پر ہم پولیس کو بے بس اور مجبور پاتے ہیں ۔اس وقت نہ تو وہ دبنگ ہوتی ہے اور نہ سنگھم!لیکن جب واردات مسلمان انجام دیتے ہیں تو اچانک ہماری پولیس دبنگ بن جاتی ہے اور اس کا سنگھم والا انداز بھی ظاہر ہونے لگتاہے ۔آخرایساکیوں ہوتاہے؟ کیا انہیں سرکار سے مسلمانوں کے خلاف کاروائی کے واضح اشارے ملتے ہیں؟یاپھر پولیس آزاد اور خودمختار ہے ؟کہ وہ جب اور جہاں چاہے کسی کے خلاف بھی ’ٹھوک دو‘ کی کاروائی کرسکتی ہے؟
مندرجہ بالاواقعات کو دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ پولیس کے پاس جب کراس فائرنگ اور انکائونٹر کے مناسب مواقع دسیتاب ہوتے ہیں اس وقت وہ مجرموں کی گرفتاری کو ترجیح دیتی ہے اور جب مجرم اس کے سامنے سرینڈر کرنا چاہتے ہیں یاجہاں وہ بغیر کسی مشقت کے مجرم کو گرفتارکرسکتی ہے تو اس وقت پولیس گرفتاری کے بجائے انکائونٹر کا راستہ اختیارکرتی ہے ۔یہ نئے ہندستان کی ترقی یافتہ پولیس ہے جس نے ’خودکفیل ہندوستان ‘ میںآزادانہ’ٹھوک دو‘ کی پالیسی اپنارکھی ہے۔ یہ پالیسی عموماً مسلمانوں کے خلاف اپنائی جارہی ہے تاکہ انہیں مزید دبایا اور کچلاجاسکے ۔اس کا پورا فائدہ سرکار کو پہونچتاہے اور ہندوئوں کے درمیان اس کی ’مسلم کش‘ شبیہ اس قدر متاثر کن ثابت ہوتی ہے کہ ان کی اکثریت ’ٹھوک دو‘ کی غیر قانونی پالیسی کو ’دھڑادھڑ انصاف‘ کا قانون بتلاکر کھلی حمایت کا اعلان کرتی ہے ۔مسلمانوں کے خلاف نفرت اور انہیں مزید کچلنے کی نفسیات نے ہندوئوں کے بڑے طبقے کو پولیس اور سرکار کے غیر قانونی اقدامات کا فین بنادیاہے ،جس کے نقصانات دیر پاثابت ہوں گے۔اگر پولیس کو اسی طرح آزادی ملتی رہی اور قانون کی بالادستی کو نظرانداز کیاجاتارہاتو ملک میں فسطائیت اور لاقانونیت کا راج ہوگا،جیساکہ ہم موجودہ تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔
اب بدایوں کے افسوس ناک اور انسانیت کش واقعہ کی طرف آتے ہیں ۔پولیس نے جرم کی جو کہانی بیان کی ہے وہ لائق اعتبار نہیں ،جیساکہ مقتول بچوں کے اہل خانہ نے بھی کہاہے ۔لیکن ہماری پولیس تو کہانیاں بنانے میں ماہر ہے جیساکہ عدالتوں سے بے گناہ مسلمانوں کی رہائی کے موقع پر ان کی فرضی کہانیوں سے پردہ اٹھتاہے۔بہرحال!واردات انجام دینے کے بعد دونوں بھائی فرار ہوگئے تھے ،لیکن ساجد کو پولیس نے انکاوئونٹر میں مارگرایااور دوسرا بھائی گرفتاکرلیاگیاہے۔ساجد کے انکائونٹر کے بعد پولیس کا بیان سامنے آیاہے کہ وہ ذہنی مریض تھا،توپھر اس ذہنی مریض کو چیتن سنگھ کی طرح گرفتارکرکے عدالت میں کیوں پیش نہیں کیاگیا؟کیا اس ملک میں اب عدالتوں کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے ؟اور تمام فیصلے کر نے کا حق پولیس کو دیدیاگیاہے؟جس طرح معصوم بچوں کے قتل کے اسباب جواب طلب ہیں اسی طرح ساجد کا انکائونٹر بھی زیر سوال ہے۔سرکار اور پولیس کا ایک ہی ہدف ہے کہ مسلمان مجرم ہے تو اس کو گرفتاکرنے کے بجائے ’ٹھوک‘ دو۔یہ نعرہ کب اور کس نے دیاتھاکسی پرمخفی نہیں ہے ۔ہندوستان میں گذشتہ دس سالوں سے نفرت کی جو فصل بوئی گئی ہے ،اس کے نتیجے میں ’ٹھوک دو‘ کی سیاست نے رفتارپکڑی ہے ۔ورنہ ساجد کو گرفتاکرکے عدالت میں پیش کیاجاسکتاتھالیکن اترپردیش سرکارنے ہندوتوا کے دبدبے کے اظہار اور ووٹوں کے حصول کے لئے انکاونٹر کا حکم دیدیا۔ورنہ ابھی تک قتل کا مقصد معلوم نہیں ہوسکا، البتہ قتل کاغیر واضح ہدف مجرم کے جرم کو چھوٹانہیں بناتا۔تاہم یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے اور نہ آخری ثابت ہوگا۔کیونکہ سماج میں ہر فکر اور ہر ذہنیت کے لوگ رہتے ہیں ۔جرائم زدہ سماج میں مجرموں کے جرم کرنے کاانداز بدلتارہتاہے لیکن مجرموں کی نفسیات نہیں بدلتی ۔اگر سماج سے جرائم کا خاتمہ کرنا ہے تو پھر’سب کو انصاف‘ کی پالیسی اختیارکرنا ہوگی اور سرکار اور پولیس کو غیر جانب داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔کیونکہ اکثراوقات سرکار اور پولیس کا غیر منصفانہ رویہ جرم کے اظہار کا ذریعہ بن جاتاہے ،جس کا مشاہدہ ہم کرتے رہتے ہیں ۔اس لئے سرکار اور پولیس کو چاہیے کہ وہ ’ٹھوک دو‘ کی پالیسی کو اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کا ذریعہ نہ بنائے۔اگر وہ نظم و نسق کو بہتر نہیں بناسکتے اور سب کو انصاف فراہم کرنے سے معذور ہیں تو انہیں اپنی غلطیوں کا اعتراف اور اصلاح کرنی چاہیے ۔اس مجرمانہ پالیسی کو ترک کرکے انہیں بھی عدلیہ کے انصاف پر اعتماد کرناہوگاتاکہ سماج عدم مساوات کا شکار نہ ہو۔لیکن آیایہ ممکن ہے؟