-
’وندے ماترم ‘ حب الوطنی کا امتحان کیسے؟
- سیاسی
- گھر
’وندے ماترم ‘ حب الوطنی کا امتحان کیسے؟
523
M.U.H
18/12/2025
0
0
تحریر: عادل فراز
’وندے ماترم ‘کے ایک سو پچاس سال پورے ہونے پر لوک سبھا میں بحث کا آغاز ہوا۔ملک کو درپیش سیکڑوں مسائل کو پس پشت ڈال کر ایک بے مقصد بحث کو ایوان میں ترجیح دی گئی جس سے سیاسی رہنمائوں کی فکری بے راہ روی اور قتدار کی کرسی پر جمے رہنے کے لئے کچھ بھی کرگزرنے کی ذہنیت کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے ۔جس عہد میں مہنگائی ،بے روزگاری اور مذہبی منافرت عروج پر ہے ۔تعلیم عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہے ۔ہوائی سفر مسلسل مہنگا اور ہوائی کمپنیوں پر بحران کا سایہ ہے ۔ایس آئی آر سے عوام عاجز اور بی ایل اوز مسلسل خودکشی کررہے ہیں ،حکومت اور الیکشن کمیشن ’’ووٹ چوری‘ کے الزامات کی زد پر ہیں ،ناکام سفارتی پالیسیوں سے عالمی سطح پر ملک کی ساکھ مجروح ہورہی ہے ،مذہبی اور شخصی آزادی دن بہ دن خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ایسی ناگفتہ بہ صور تحال میں قومی مسائل پر عدم توجہ اور ’وندے ماترم ‘ پر ایوان میں مباحثےنے ہماری قومی سیاست کی پسماندگی کواور ظاہر کردیا۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما ایوان میں قومی مسائل پر بحث ہی نہیں چاہتے کیونکہ انہیں مسائل کے حل سے زیادہ اپنے اقتدار کی فکر ہے ۔اقتدار جو مذہب کو ڈھال بناکر حاصل کیاگیا۔اسی بناپر ’وندے ماترم ‘ کو بحث کا موضوع بنایاگیا تاکہ مذہبی سیاست میں مزید گرمی پیداکی جاسکے ۔
وزیر اعظم مودی ’وندے ماترم ‘ پر تقریر کرتے ہوئے کئی تاریخی تسامحات کا شکار ہوئے ۔ممکن ہے وہ عمداً ایساکررہے ہوں ۔کیونکہ تاریخ میں تلبیس و تدلیس تو ان کا خاص وصف ہے ۔ورنہ ’وندے ماترم ‘ کی تاریخ،اس پر مسلم لیگ کی مخالفت اور جواہر لال نہروکے موقف کو جس طرح انہوں نے پیش کیا،اس کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ۔انہوں نے ہمیشہ کی طرح نہرو کو ویلن ثابت کرنے کے لئے زمین وآسمان کے قلابے ملائے اور تقریر میںزبردستی ’ایمرجنسی ‘ کے ذکر کوبھی گھسیٹ لائے ۔نہرو اور ایمرجنسی کا تو جیسے بی جے پی اور آرایس ایس کو فوبیا ہوگیا۔انہوں نے جب یہ کہاکہ آزادی کی تحریک کو ’وندے ماترم ‘ نے توانائی بخشی اور یہی گیت آزادی کا ترانہ بن گیاتو تاریخ کا ہر طالب علم بھونچکارہ گیا۔وزیر اعظم تاریخ کی کونسی کتابیں پڑھتے ہیں یہ تووہی بتلاسکتے ہیں کیونکہ اگر یہ گیت آزادی کا ’نغمہ ‘ اور مجاہدین آزادی کو توانائی بخشنے کاذریعہ تھاتو آزادی کےبعد اس کو قومی ترانے کا درجہ کیوں نہیں دیاگیا؟ جبکہ قومی ترانے پر تشکیل دی گئی کمیٹی میں زعفرانی سیاست کے پسندیدہ رہنما سردار پٹیل شامل تھے ۔ مگر انہوں نے بھی ’وندے ماترم ‘ کے بجائے ’جن گن من ‘ کو قومی ترانے کا درجہ دینے کو ترجیح دی۔کمیٹی میںغوروخوض کے لئے اس گیت کے ابتدائی دو بند ہی شامل کئے گئے کیونکہ باقی بندہندوستان کی تہذیبی اور قومی تنوع کے خلاف تھے ،جس پر کمیٹی کے اراکین میں اتفاق رائے تھا۔
آزاد ہندوستان میں ’وندے ماترم ‘ نے قومی ترانہ کے بجائے ایک سیاسی نعرے کی حیثیت اختیار کرلی ۔اس نعرے کا آغاز بنگال کی سرزمین سے ہوا۔یہ نعرہ پہلی بار بنگالی زبان کے مصنف بنکم چندرا چٹوپادھیائےنے اپنے ناول آنند مٹھ میں پیش کیا۔یہ ناول 1882ء میں شائع ہوا۔اس نعرے کا مقصد مادر وطن کی تعظیم کے بجائے پرستش سے جڑاہواتھا۔آنند مٹھ میں اس گیت کو مسلم فرمانرواکے خلاف عوامی بغاوت کو ابھارنے کے لئے پیش کیاگیا،جب کہ یہ دور ہندوستان پر برٹش سامراج کی حکومت کا تھا،اس لئے یہ بھی تحقیق طلب ہے کہ برٹش دور حکومت میں ایک مسلم فرمانرواکے خلاف اس گیت کے لکھنے کے پس پردہ کون سے مقاصدکارفرماتھے ؟جب پورا ہندوستان برٹش سامراج کے خلاف متحد ہورہاتھاتو آخر بنکم چندر ایسے گیت کن مقاصد کے تحت لکھ رہے تھے ؟ بنکم چندر اس کوشش میں کامیاب ہوئے ۔’وندے ماترم‘ کو ہندوئوں کے درمیان بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی لیکن اس کو مذہبی تقدس کے ساتھ سیاسی حیثیت دینے کی کوشش بھی شروع ہوگئی ۔جب یہ گیت سیاسی نعرے میں تبدیل ہواتو مسلمانوں نے اس کو قبول کرنے سے انکارکردیا۔ان کے مطابق یہ گیت ان کے عقیدۂ توحید کے منافی تھا۔اس نعرے کو رویندر ناتھ ٹیگور نے پہلی بار 1896ء میں انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس میں گایا۔اس طرح اس نغمے کو قومی سطح پر مقبولیت ملی اور کانگریس کی سیاست میں اس نعرے کو مذہبی حیثیت کے ساتھ سیاسی حیثیت بھی دیدی گئی ۔مگر ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی اور سیاست میں ان کے اثرونفوذ کے چلتے کانگریس کی یہ ہمت نہیں ہوئی کہ اس نغمے کو ہر کسی کے لئے لازم قراردیدیاجائے ۔اگر ایساہوتاتو آزادی کے بعد کانگریس ’جن گن من‘ کے بجائے ’وندے ماترم‘ کو قومی ترانے کی حیثیت دیدیتی مگر کانگریس نے اس کو ملک کی سالمیت کے مناسب نہیں جانا۔کانگریس نے اس نغمے کو ’قومی گیت ‘ کی حیثیت ضرور دی،جس نے اس کی سیاسی اہمیت میں اضافہ کیا۔لیکن نغمے کا اصل متن سناتنی مذہبی علامات جیسے دیوی درگاکی پرستش کا آئینہ دار ہے، جس کے باعث اس کے ’’قومی‘‘ ہونے پر ابتدا ہی سے اختلافات موجود رہے۔ متعدد مسلم رہنماؤں، بشمول مولانا محمد علی جوہر اور مولانا آزادنے اس کے مذہبی فریم کو قومی وحدت کے لیے ناموزوں قرار دیا۔کانگریس کی اعلیٰ قیادت نے بھی اس حقیقت کو باور کرلیاتھااس لئے کبھی مسلمانوں سے اس کے گانے پر اصرار نہیں ہوا۔مسلم علما اور تنظیموںنےاپنے اپنے وقت میں وضاحت کی کہ کسی بھی ایسی عبارت کی ادائیگی جو الوہیت کے تصور کو چھوتی ہو، اسلامی عقائد کے خلاف ہے۔یہ بات بھی اہم ہے کہ مسلم اعتراض محض ایک مذہبی اصول کی پابندی ہے، نا کہ قوم کی توہین یا ملک سے بے وفائی کا اظہار۔جس وقت اس گیت کو قومی ترانے کا درجہ دینے کے لئے تین گیتوں کی فہرست میں شامل کیاگیاتھااس وقت بھی اس کے ابتدائی دوبندوں کو لے کر ہی اتفاق ہواتھاکیونکہ باقی بند ہندوستان کے تہذیبی اور مذہبی تنوع کے خلاف تھے ۔جب کہ آج وزیر اعظم ایوان میں کہہ رہے ہیں کہ ’وندے ماترم ‘کی بناپر ہندوستان تقسیم ہوا۔اگر ایساتھاتو آزادی کے بعد اس گیت کو قومی ترانے کا درجہ کیوں نہیں دیاگیا؟ آزادی کے بعد ساورکر نے اس گیت کو سیاسی اقتدار کے حصول کا ذریعہ بنایاجو آج تک بناہواہے ۔ 1990 ءکے بعد جب ہندوتوا سیاست نےمزید زور پکڑا، تو ’’وندے ماترم‘‘ کو حب الوطنی کا معیار اور مسلمانوں کے خلاف سیاسی ہتھیار کے طورپر استعمال کیاجانے لگا۔ یرقانی تنظیموں نے تو اسے ’’حب الوطنی کا لازمی امتحان‘‘ ہی بنا دیا۔آج تمام یرقانی تنظیمیں حکومت کی آواز سے آواز ملارہی ہیں کہ ملک کے تمام باشندوں پر اس گیت کا گانا فرض ہے ۔اسکولوں میں اس کو لازمی قراردینے کی کوشش ہورہی ہے ۔حتیٰ کہ بعض تو مدارس میں بھی گانے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔مسلمان اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ۔ان کے احتجاج کو ’’غداری‘‘ سے تعبیر کرنا،انتخابی مہمات میں اسے ایک ثقافتی جنگ کا مسئلہ بنانا،اسمبلیوں میں اس کی اجتماعی ادائیگی کو سیاسی نمائش بنانا،جیسے غیر جمہوری اور آئین مخالف اقدامات ملک کے متنوع مذہبی ڈھانچے کے لیے غیر ضروری تناؤ پیدا کررہے ہیں۔
’’وندے ماترم‘‘ کا مسئلہ دراصل ثقافتی قوم پرستی (Cultural Nationalism) بمقابلہ آئینی قومیت (Constitutional Nationalism) کی کشمکش کی علامت بن چکا ہے۔ثقافتی قوم پرستی ہندوتوا نظریہ اسے ’’ایک ہی تہذیب، ایک ہی مذہب اور ایک ہی ثقافت‘‘ کے طور پر دیکھتا ہے۔ ان کے نزدیک ’’وندے ماترم‘‘ ہندو تہذیب کی برتری کا اظہار ہے۔آئینی قومیت ہندوستان کا دستور مذہب اور قومی وفاداری کو الگ تصور کرتا ہے۔آئینی قومیت کے مطابق حب الوطنی کا تعلق وفاداری، قانون کی پاسداری، اور مساوات سے ہے،کوئی مخصوص مذہبی علامت لازم نہیں ہوسکتی ۔آئین کے مطابق ریاست کسی مذہبی تصور کو قومی شناخت کا ذریعہ نہیں بناسکتی ۔یہی اصول ’’وندے ماترم‘‘ کی لازمی ادائیگی کو غیر ضروری اور غیر آئینی بحث بناتے ہیں۔سیاسی کشمکش نے سماجی سطح پر نہ صرف غلط فہمیاں پھیلائیں بلکہ مذہبی اقلیتوں کو ذہنی دباؤ کا شکار بھی بنایا۔ اکثر اسکولوں اور سرکاری تقریبات میں طلبایا ملازمین پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، جس سےفرد کی آزادی کی خلاف ورزی ،مذہبی شناخت کا خوف ،اجتماعی دباؤ ، عدم اعتماد اوراکثریت پسندی کے بیانیے کی تقویت جیسے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔قومی اتحاد اس وقت مضبوط ہوتا ہے جب شہریوں کو مساوی حقوق،یکساں احترام، اظہار رائے اور مذہبی آزادی میسر ہو، نہ کہ جب حب الوطنی کو کسی مخصوص نعرے، نغمے، یا مذہبی تشخص سے جوڑ دیا جائے۔اصل سوال نغمے کا نہیں، جمہوری قدروں کا ہے،دستور اور آئین کی برتری کاہے۔حب الوطنی اظہار کا مسئلہ نہیں، کردار اور اصولوں کا مسئلہ ہے۔لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایوان میں ’وندے ماترم ‘ پر مباحثہ بے سود اور قومی سرمائے کا اسراف تھا۔بہتر ہوتااگر ملک اور عوام کو درپیش مسائل کو مباحثے کے لئے ترجیح دی جاتی ،مگر افسوس سیاسی رہنمائوں نے مذہب کو اقتدار پر جمے رہنے کا ذریعہ بنالیا ہے۔