شاہدؔکمال
دنیا کے ایک عظیم مفکر امام علی علیہ السلام نے اپنی کتاب نہج البلاغہ میں مختلف جگہ یہ بات کہی ہے کہ ’’ تم بولو، تاکہ تم پہچانے جاؤ‘‘۔ ’’ ہر انسان اپنی زبان کے پیچھے چھپا ہوتا ہے، جب وہ بولتا ہے تو وہ پہچانا جاتا ہے۔‘‘اسی ضمن میں آپ ایک جگہ اور فرماتے ہیں کہ ’’یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے۔‘‘یہ اقوال انسان کے سوچ و فکر اُس کے اظہار کی آزادی کے ساتھ ایک دوسرے کے خیالات کی افہام و تفہیم کی ایک جمہوری شکل کے جغرافیہ حدود کا تعین کررہے ہیں۔یہی راستہ ایک دوسرے کو قریب سے سمجھنے اور محسوس کرنے کی ہمیں دعوت دیتے ہیں۔اور یہی عمل ایک بہترین سماج کی تشکیل کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک انسان کی پہچان اس کے زبان و بیان سے ہی ہوتی ہے۔یہ بات طے ہے کہ بولنا ہر انسان کا جمہوری حق ہے ،اور کسی کو اس کے حق سے محروم کرنا یہ اس کے فطری حقوق کے آئین کے خلاف ہے ، اور یہ نا ایک سماجی جرم ہے بلکہ جمہوریت کی تذلیل بھی ہے۔اس لئے دنیا کے ہر جمہوری نظام میں کسی کے اظہار خیال پر پابندی لگانا یہ قانونی جرم ہے۔اگر جمہوریت کے جملہ حقوق کی بات کی جائے تو اس کے بنیادی حقوق میں سے ایک حق Fredom Of Spech بھی ہے ۔اس آئین کے مطابق کسی کے اظہار خیال پر پابندی لگانا قانونی جرم ہے۔یہ بات اقتدار میں آنے والی ہر سیاسی پارٹی کے رہنماوں کو اچھی طرح سے یاد ہونا چاہئے کہ جوعوام آپ کو اپنی مرضی سے تخت اقتدار پر بٹھا سکتا ہے ،تو وہی عوام کرسی اقتدار پر بٹھانے والے شخص کو اس کی بے راہ روی اور عوام کے حقوق کے استحصال کے جرم میں اس کا گریبان پکڑ کراسے بے دست و پَا کرنے کی بھی طاقت رکھتا ہے۔ایسی صورت میں عوام کے ذریعہ منتخب کئے گئے سیاسی لیڈروںکو یہ سبق ہمیشہ ذہن نشین ہونا چاہئے کہ یہ اقتدار اُس کی ذاتی ملکیت نہیںبلکہ اس کے کشکول گدائی میں عوام کی دی ہوئی خیرات ہے ۔ناکہ اس کے اجداد کی ذاتی ملکیت ،کہ وہ جس طرح سے اور جیسے چاہئے اپنی طاقت کا استعمال کرے۔تخت اقتدار پر بیٹھے ہوئے شخص کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے عوام کی آواز کو سنے،اور مذہب ،ذات پات اور رنگ و نسل اور بھید بھاؤ کی سطح سے بلند ہوکر اپنے عوام کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھے ۔اس لئے کہ جس جمہوری ملک میں عوام کی آواز کو اپنے ذاتی مفاد یا اپنے خاص نظرئے کی ترویج کے لئے دبادیاجائے ،یا کسی شخص کو سچ بولنے کے جرم یا حق بات لکھنے کی پاداش کے طور پر اسے گولیوں سے چھلنی کردیاجائے،یہ جمہوریت کے لئے سب سے خطرناک صورت حال ہے۔جب ملک میں ایسے حالات پیدا ہونے لگے تو عوام کو بھی یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہئے کہ وہ جس جمہوریت کی بات کررہے ہیں، اصل میں وہ جمہوریت نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر ایک ایسی ڈکٹیٹر شپ کے فروغ میں اپنا تعاون کررہے ہیں جو ملک کی سالمیت کے لئے ایک بہت بڑے خطرے کا کھلا ہوا، اعلامیہ ہے۔
دنیا کے بڑے جمہوری ممالک میں ہمارا ملک ہندوستان بھی ایک بڑا جمہوری ملک ہے۔لیکن یہاں کے عوام کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ اس ملک کی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے جن سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کو اپنا رہنما منتخب کرتے ہیں ۔جیسے ہی ملک کی زمام حکومت اس کے دست اختیار میں آتی ہے، تو وہ اس ملک کے عوام پر اپنے ذاتی نظریات کو زبردستی تھوپنے کی کوشش میں منہمک ہوجاتا ہے۔جس کی وجہ سے تخریبی ذہینت رکھنی والی باطل طاقتیں کھل کرحب الوطنی کے کھوکھلے نعروں کے ساتھ عوام پر اپنے مذہب و عقائد کو مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کام کے لئے بڑے منصوبہ بند طریقے سے کام کیا جاتا ہے۔اپنے ناجائز مقاصد کے حصول کے لئے لوگوں کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ جو پڑھا لکھا شخص ان تخریبی قوتوں کے خلاف مزاحم ہوتا ہے ، تو پہلے اسے خریدنے کی کوشش کی جاتی ہے،لیکن اگر وہ باضمیر شخص اپنے قلم کا سودا کرنے سے انکار کرتا ہے تو،اس کے بعد اس پر نفسیاتی حملہ کیا جاتا ہے ۔یعنی اس کی کردار کشی کی جاتی ہے،اس کے خلاف نئے نئے نعرے اور سلوگن گڑھے جاتے ہیں ،یہ کام اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ اسے کسی طرح سے جمہوریت کے نقاب میں پوشیدہ ان کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنے سے اسے روک دیا جائے، بعض صحافی اس طرح کے نفسیاتی حملہ سے ٹوٹ جاتے ہیں اور خاموشی اختیار کرنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرتے ہیں ۔لیکن ہمارے سماج کے بعض نڈر اور مضبوظ ارادوں سے لبریز صحافی اُن کے ان نفسیاتی حملوں سے نہیںگھبراتے بلکہ وہ اپنے مضبوط ارداوں کے ساتھ اپنے قلم کی سفاک تحریروں سے ایسے لوگوںکے چہروں کو عوام کے سامنے بے نقاب کرتے رہتے ہیں ۔جب تخریبی طاقتیں اس کے عزم و استقلال کے سامنے خود کو بے بس اور شکست خوردہ محسوس کرنے لگتی ہیں تو اس کی آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کرنے کے لئے اسے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔اس طرح کا ردعمل ہماری جمہوریت کی ایک بدترین شکل کو دینا کے سامنے پیش کرتا ہے۔
ان دنوں ہمارے ملک میں اس طرح کی واردات عام ہوچکی ہے،اس کی زندہ مثال ہندوستان کی ایک مشہور صحافی ’’ گوری لنکیش ‘‘ بھی تھیں جنھیں ان کی بییاک صحافت کی بنیاد پر 5؍ستمبر منگل کی رات کو دو بدمعاشوں نے ان کے گھر میں گھس کر انھیں گولیوں سے چھلنی کردیا۔یہ کسی بیباک صحافی کے قتل کا پہلا واقعہ نہیں ہے،بلکہ اس سے پہلے کرناٹک کے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ پروفیسر ایم ایم کالبرگی کو کچھ مذہبی تربیت یافتہ شدت پسندوں نے ان کے گھر کے سامنے گولی مار کر اُن کا قتل کردیا تھا،اسی طرح سے کولہا پور میں ایک اور معروف صحافی گوند پانسرے کو بھی گولی مار کر ان کی آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا،2013 میں اسی طرح اندر پونہ میں’’نریندردابھولکر‘‘کو بھی گولی مار دی گئی،ان کی غلطی صرف اتنی تھی کہ وہ سماج میں مذہبی شدت پسندی کے فروغ دینے والے لوگوں کے خلاف کھل کر اپنے خیال کا اظہار کرتے تھے اور اپنے ملک کے سیاسی و سماجی مسائل پر حکومتوں کی عدم توجہی پر ان کا قلم کھل کر تنقید کرتا تھا۔شاید ہماری حکومتوں کو سب چیز تو پسند ہے لیکن اگر کوئی ان کی خامیوں کو نشاندہی کرے تو انھیں یہ قطعی پسند نہیں۔’’گوری لنکیش ‘‘ بھی اسے قبیلے کی ایک فرد تھیں،انھوں نے 2008 میں بی جے پی کے پارلیمانی رکن ’’پرہلاد جوشی‘‘ اور’’ امیش پاٹھک‘‘کے خلاف اپنے اخبار میں ایک مضمون لکھا تھا،جس کے بعد ان کے اوپر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا گیاتھا،جس کا فیصلہ نومبر 2016 میں آیا جس میں گوری لنکیش کو جرمانے کے ساتھ 6 ؍مہینے کی سزا بھی ہوئی تھی،لیکن انھیں فوری طور پر ضمانت پر رہا کردیا گیا،اس کے بعد گوری لنکیش سے ایک پورٹل سائٹ ’’نیوز لانڈری ‘‘نے ان سے ایک انٹرویو لیا تھا ،اُس انٹرویو لینے والے کے سوال کے جواب میں ’’گوری لنکیش‘‘ نے ایک بات کہی تھی ’’میںجب اپنے خلاف ہونے والےتبصروں اور ٹویٹس دیکھتی ہوتو میں بہت چوکنی ہوجاتی ہو کہ وہ مجھے اپنی نجی نہیں بلکہ ملک کے چوتھے اسٹیٹ (ستون)میں اظہار خیال کی آزادی سے خوف زدہ کرتے ہیں۔‘‘لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنے قلم کی روش میں کوئی تبدیلی نہیں کی ،وہ ’’ہندوتیہ وادی ‘‘سوچ کی سخت مخالف تھیں ،اور اس پر زبردست تنقید بھی کرتی تھیں،جس کے وجہ سے ان کے مخالفین انھیں ہندوستان چھوڑ کر پاکستان جانے کی بھی بات کرتے تھے۔لیکن ’’گوری لنکیشن‘‘ کے اس بیہمانہ قتل پر ہر پڑھا لکھا شخص اپنے دکھ کا اظہار کررہا ہے ۔لیکن دوسرے طرف فسطائیت اور سامراجیت کے غلامیت زدہ ذہنیت رکھنے والے کچھ افراد ’’گوری لنکیش‘‘ کے قتل پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں،جن کے ٹویٹس سوشل میں میڈیا پر بہت تیزی سے وائرل ہورہے ہیں۔کسی کے قتل پر اس طرح کے اظہار خیال سےآپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارا ملک کتنی تیزی کی ساتھ،انسانی اقدار کی انحطاطی منزلوں کی طرف بڑھ رہا ہے،اگر ہمارے ملک میں فروغ پانے والی اس طرح کی سوچ کا سد باب نہ کیا گیا تو عنقریب ہمارا ملک ایک ایسی بحرانی کیفیت کا شکار ہوجائے گا جس کا تدارک کرنا قطعی ممکن نہیں ہوسکتا۔ہمارے ملک کے وزیر آعظم کو اس نکتہ پر غور کرنا چاہئے کہ ہمارے ملک کی سیکڑوں سال کی گنگا جمنی تہذیب کو بچانے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہئے،لیکن افسوس اس بات ہے کہ ’’گوری لنکیش‘‘ جیسی مشہور سماجی کارکن اور صحافی کے قتل پر ابھی تک اپنے افسوس کا اظہار بھی نہیں کیا۔جس کی وجہ سے ہندوستان کی حزب مخالف سیاسی پارٹیاں اسے مکمل سیاسی رنگ دینا چاہتی ہیں۔تاکہ اس قتل کو ایک سیاسی شکل دے کر اس معاملہ کو یہی پر ختم کردیا جائے،اور گوری لنکیش کے قاتلوں کو کھل کر سانس لینے کا موقع مل سکے،اگر اس قتل پر حکومتیں سخت اقدام نہیں کرتیں تو،وہ دن دور نہیں جب کسی اور سماجی کارکن یا صحافی کو ایک بار پھر سچ بولنے اور لکھنے کے جرم میں نشان عبرت بنا کر ہمارے سماج میں ایک خوف کا ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ ’’گوری لنکیش‘‘ کے قتل سے صحافت کے پیشے سے جڑے ہوے لوگوںمیں ایک خوف و ہراس اور بے چینی کی ایک شدید کیفیت پائی جاتی ہے ۔پورے ہندوستان میں ’’گوری لنکیش ‘‘ کے قتل کے خلاف لوگوں نے احتجاج کیا،لیکن ان کے اس احتجاج کا اثر برسراقتدار حکومت پر کچھ نہیں ہوا،موجودہ حکومت کی اس پُراسرار خاموشی کسی اور سنگین نتیجے کی طرف اشارہ کررہی ہیں۔جس سے ہماری جمہوریت کا چہرہ دھیرے دھیر اور بھیانک ہوتا جارہا ہے۔اس لئے کہ ’’گوری لنکیش ‘‘کاقتل اصل میں گوری لنکیش‘‘ کا قتل نہیں بلکہ ہماری جمہوریت کا قتل ہے۔’’گوری لنکیش ‘‘کے سینے کو شگاف کرنے والی گولیاں ابھی تک ہماری جمہوریت کے سینے میں پیوست ہیں۔جس سے رسنے والا خون کسی اور کا نہیں بلکہ ہمارا خون ہے۔میں اپنی بات کے اختتام پر یہ بات کہنا ضرور سمجتا ہوں کہ سامراجیت اور فسطایت نواز طاقتیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی کے قتل کردینے سے اس کی آواز خاموش نہیں ہوجاتی بلکہ وہ آواز عوام کی آواز کی صورت اختیار کر لیتی ہے،جو بعد میں ایک انقلاب کی شکل میں اس طرح سے بلند ہوتی ہیں کہ بڑے سے بڑے صاحبان اقتدار اور ان کے تخت و تاج کو ہواؤں میں اچھال دیتی ہیں۔یہ ایک ایسی سچائی ہے جس سے کبھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس لئے کہ نہ تو کسی کی سوچ پر پہرا بٹھایا جاسکتا ہے ، اور نہ کسی کی فکر پر پابندی لگائی جاسکتی ہے،اور نہ تو کسی کے قلم کو اسیر کیا جاسکتا ہے۔میں اپنی بات فیض احمد فیض کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں کہ
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگیاں میں نے