-
بی جے پی کے’دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے‘
- سیاسی
- گھر
بی جے پی کے’دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے‘
313
M.U.H
13/06/2024
0
0
تحریر: کمار کیتکر
بی جے پی خیمہ میں مایوسی کا ماحول ہے۔ شاید ہی کہیں کوئی جیت کا جشن منا رہا ہے۔ ایودھیا میں رام مندر میں پران پرتشٹھا کے وقت جو رقص و سرود کا ماحول تھا، جس طرح پٹاخے پھوڑے گئے تھے، انتخابی نتائج کے بعد ویسا کچھ بھی نہیں دیکھنے کو ملا۔ آخر بھکتوں کو پتہ چل چکا تھا کہ ان کی پارٹی ایودھیا میں اچھے فرق سے ہار گئی ہے۔ حالت یہ رہی کہ فیض آباد-ایودھیا پارلیمانی حلقہ کے چھ میں سے چار اسمبلی حلقوں میں پارٹی کو زبردست جھٹکا لگا ہے۔
پران پرتشٹھا کے پاکیزہ موقع پر متوسط طبقہ کے لوگ جوش سے بھرے ہوئے تھے۔ خواتین اس طرح سج دھج کر تیار ہوئیں جیسے گھر یا آس پڑوس میں کوئی پوجا یا مذہبی تقریب ہو رہی ہو۔ بھگوان رام کی رہائش احاطہ کے داخلی دروازے پر بڑے بڑے کٹ آؤٹ لگے اور ان میں نریندر مودی کی بڑی بڑی تصویریں بھی تھیں۔
لیکن جیسے ہی ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی، تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ جوش و جنون کافور ہو گیا۔ ووٹ شماری کے چند شروعاتی دور سے ہی پتہ چل گیا کہ کیا ہونے جا رہا ہے جب مودی وارانسی سے پیچھے چل رہے تھے جبکہ راہل گاندھی رائے بریلی اور وائناڈ دونوں جگہوں پر آگے چل رہے تھے۔ امیٹھی میں اسمرتی ایرانی کی شکست نے زخم پر نمک چھڑک دیا۔ مہاراشٹر میں بی جے پی اور اس کے اتحاد مہایوتی کو ملی شکست آر ایس ایس حامیوں کے لیے بڑا جھٹکا تھی۔ دوسری طرف ووٹ شماری جیسے جیسے بڑھتی گئی، کانگریس اور انڈیا بلاک کا اعتماد بھی بڑھتا گیا۔ بی جے پی کی ایسی حالت ہوئی کہ وہ اکثریت تک نہیں پہنچ سکی اور 240 سیٹوں پر ہی محدود ہو گئی جس سے اس کا حوصلہ چور چور ہو گیا۔
پھر بھی یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس مینڈیٹ کو پورے ملک کے ووٹرس کی متفقہ رائے نہیں مانا جا سکتا۔ بی جے پی اور نریندر مودی کے تھنک ٹینک بے شک ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کے عمل اور ضرورت پر طویل بحث کر لیں لیکن اٹھارہویں لوک سبھا کے لیے ہوئے انتخابات نے ایک بار پھر دکھا دیا ہے کہ ووٹرس متفقہ طور سے ایسا نہیں سوچتے۔
ہندوستان ریاستوں کا یونین ہے اور یہی وفاقیت کی بنیاد ہے۔ پنجاب کے ووٹرس کی خصوصیات تمل ناڈو یا مغربی بنگال سے بالکل مختلف ہیں۔ یا مہاراشٹر کے ووٹرس بہار یا مدھیہ پردیش کے ووٹرس جیسی سیاسی روش یا پسند نہیں ظاہر کرتے۔ یہ فطری ہے اور ناگزیر بھی۔ اس یونین نظام کا تقاضہ ہے رواداری، تکثیریت اور حقیقی لبرلزم کے ساتھ حکومت۔ نریندر مودی کا انداز ایسی تکثیریت والے ماحول سے ابھرنے والے پیچیدہ حالات کو سنبھال نہیں سکتا۔ ممکنہ تناؤ کے اشارے ابھی سے نظر آنے لگے ہیں۔
تیلگو دیشم کے چندربابو نائیڈو نے دس اہم وزارتوں کا مطالبہ کیا ہے جن میں سے چھ کابینہ میں ہیں۔ ان میں مالیات، آئی ٹی اور مواصلات، شہری معاملے، دیہی ترقی، زراعت شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آندھرا پردیش کے لیے خصوصی درجہ جس کو لے کر پوری دہائی مودی حکومت اور وائی ایس آر کانگریس کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول رہا۔ اُدھر نتیش کمار نے تو اب تک اپنا مینو کارڈ پیش بھی نہیں کیا ہے۔
نتیش چالاک بہاری ہیں اور جانتے ہیں کہ حکومت ان کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اس کے علاوہ وہ پہلے بھی بی جے پی کے ساتھ رہ چکے ہیں۔ وہ مودی کے نظریہ، ان کے طریقہ سے بخوبی واقف ہیں۔ انھوں نے این ڈی اے کے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ انڈیا بلاک پارٹیوں کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ ان کے پاس ہر طرح کا لچیلاپن ہے۔ وہ انڈیا بلاک کے بھی کچھ اراکین کو اپنی وفاداری بدلنے اور این ڈی اے خیمہ میں آنے کے لیے راضی کر سکتے ہیں۔
ویسے، اب تک تو چندربابو اور نتیش کمار دونوں نے این ڈی اے کے ساتھ مکمل اتحاد دکھایا ہے۔ ایسا امکان نظر نہیں آتا کہ وہ جلد ان سے الگ ہونے جا رہے ہیں۔ وہ حملہ کرنے کا موقع تلاش کریں گے (اگر ایسا ہوا تو) اور پھر پالیسی بنائیں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ مودی کو پہلی بار پتہ چلے گا کہ اس کلب میں ان کی جگہ کیا ہے۔ اب تک این ڈی اے کے دیگر ساتھی ہی نہیں بلکہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور یونین کے دیگر لیڈران کو بھی نہیں پتہ ہوتا تھا کہ ان کی جگہ کیا ہے یا ان کا کردار کیا ہے۔
اڈیشہ میں اب مکمل اکثریت والی بی جے پی حکومت ہوگی۔ لیکن آندھرا پردیش کی حالت الگ ہوگی۔ ریاست میں چندربابو باس ہوں گے اور دہلی میں اہم سودے باز۔ بہت سے لوگوں کو شاید یاد ہو کہ 90 کی دہائی کے آخر میں ہندوستان کے کارپوریٹ انھیں ’مستقبل کا وزیر اعظم‘ کی شکل میں دیکھ رہے تھے۔ میں ممبئی میں منعقد بڑے لیڈروں کی ایک میٹنگ میں موجود تھا جس میں چندربابو کو ممکنہ وزیر اعظم بتایا گیا تھا۔
90-1989 کی وی پی سنگھ حکومت سے لے کر 1998-2004 کے درمیان کی واجپئی حکومت ہو یا پھر 2014-2004 کے دوران ڈاکٹر منموہن سنگھ حکومت ہو، تب اتحادی حکومت سب سے عام قسم کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ چندربابو بھی ان دنوں کو بھولے نہیں ہوں گے۔ کس نکتہ پر ان کی خواہشات پھر سے بیدار ہو جائیں، آندھرا پردیش کے لوگوں کی طرف سے ان پر کیا دباؤ آ جائے اور این ڈی اے… اور یہاں تک کہ انڈیا بلاک کی دیگر ریاستوں اور پارٹیوں کا اس طرح کے مطالبات پر کیا رخ رہتا ہے، اسی پر مودی 3.0 میں نئی سیاسی اور معاشی وفاقیت کا مستقبل منحصر کرے گا۔ چندربابو جنوب سے ہیں اور نتیش کمار ہندی بیلٹ سے۔ ترقی سے متعلق ان کی حقیقی ھالت اور مرکزی حکومت سے ان کی امیدیں الگ الگ ہیں۔ جنوب کے کچھ لیڈران تھے جنھوں نے بہت پہلے دلیل دی تھی کہ جنوبی ہند شمال کو ’سبسیڈی‘ دے رہا ہے۔ یہاں سوال آبادی کے عدم توازن کے بارے میں تھا جس کا مطلب ہے کہ جنوب میں آبادی کے اضافہ کی شرح کم تھی، جبکہ ہندی بیلٹ میں جنوب کے مقابلے میں تقریباً دوگنی۔ پھر بھی امید رہتی ہے کہ ٹیکس اور ترقی سے متعلق خرچ کا بوجھ سبھی برداشت کریں۔
2026 میں مقررہ انتخابی حلقوں کی حد بندی کے وقت یہ سوال پرتشدد انداز میں اٹھ سکتا ہے۔ ایوان کا سائز 543 سے بڑھ کر 820 سے زیادہ ہو جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 60 فیصد اراکین شمال سے ہوں گے جس سے پارلیمنٹ میں نمائندگی میں عدم توازن پیدا ہوگا۔ ایسے سیاسی-انتظامی اور معاشی ایشوز ہیں جو کسی بھی شکل میں سامنے آ سکتے ہیں اور تنازعہ پیدا کر سکتے ہیں۔
نئے صدر کا انتخاب 2027 میں ہوگا۔ یہ ایک بہت رسہ کشی والا وقت ہوگا۔ بی جے پی، یہاں تک کہ این ڈی اے کے پاس بھی اپنا متفقہ امیدوار منتخب کرنے کے یے مناسب تعداد نہیں ہوگی۔ این ڈی اے کے اندر امیدوار کے انتخاب کو لے کر بڑی جدوجہد ہوگی۔ کچھ خفیہ منصوبوں کے بارے میں کاناپھوسی ہو رہی ہے کہ اگر مودی کو اپنا 400 پار کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنا ہے تو انھیں پارلیمانی سسٹم کو صدارتی نظام (امریکہ یا فرانس کی طرح) میں بدلنے کی تجویز رکھنی ہوگی۔ اگر پورے ملک کو صدارتی نظام کے ساتھ ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ سنڈروم میں ڈبا دیا جائے تو یہ ہندوستانی یونین کی تحلیل کا نسخہ ہو سکتا ہے۔
جو بھی ہو، ھال ہی میں ہوئے لوک سبھا انتخابات نے سیاست کے بند ہو چکے دروازوں کو کھول دیا ہے اور سرکاری اداروں پر استحصالی کنٹرول کو سب کے سامنے رکھ دیا ہے۔ یہ جمہوری عمل کو پھر سے شروع کرنے کا موقع ہے۔ لیکن انتخابی نتائج نے کئی سوال بھی کھڑے کیے ہیں جن میں دھماکہ خیز عناصر ہیں۔ اس کا مستقبل امیدوں بھرا ہوگا یا پھر یہ سب کچھ تباہ کرنے والا ثابت ہوگا، اس کی منادی کرنا ابھی جلدبازی ہوگی۔