-
اپوزیشن کے لئے ابھی دلّی دور ہے
- سیاسی
- گھر
اپوزیشن کے لئے ابھی دلّی دور ہے
1186
m.u.h
29/10/2019
1
0
عادل فراز
مہاراشٹراور ہریانہ میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج ہمارے لئے حیران کن نہیں تھے ۔
وجہ یہ ہے کہ جب اپوزیشن اپنی جیت کے لئے الیکشن نہ لڑ رہا ہو تو نتائج ایسے ہی ہوتے ہیں ۔دونوں ریاستوں میں کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ کانگریس اور دیگر بی جے پی مخالف جماعتیں اپنی جیت کے لئے پوری توانائی کے ساتھ میدان میں ہیں ۔ان کے پاس بی جے پی کے خلاف نہ تو کوئی مضبوط لائحۂ عمل تھا اور نہ ایسی قیادت تھی جو عوام کو ان کے ساتھ جوڑنے کا کام کرتی ۔اس کے باووجود دونوں ریاستوں میں اپوزیشن کو اچھی خاصی نشستوں کا ملنا اس بات کی دلیل ہے کہ اب عوام بی جے پی حکومت کو پوری طرح آزماچکی ہے اور اقتدار کا تختہ پلٹنے کے لئے اتاولی ہے مگر چونکہ ان کے پاس کوئی مضبوط قیادت نہیں ہے اور نہ اپوزیشن عوام کو اعتماد میں لینے کے لئے جدوجہد کرتا نظر آتاہے ،اس لئے نتائج بی جے پی کے لئے ضرورچونکا دینے والے رہے مگر ان کی پریشانی کا بڑا سبب یہ ہے کہ اس بار اسمبلی میں ان کی راہ آسان نہیں ہوگی ۔یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ دونوں ریاستوں میں اپوزیشن کو بڑی جیت ملی ہے مگر اعلیٰ قیادت کی کمزوری اورریاستی سطح پر رہنمائوں پر مسلط احساس محرومی اپوزیشن کے لئے بھی بڑی مصیبت ہے ۔
ہریانہ میں بی جے پی کو چالیس نشستوں پر کامیابی ملی تھی ۔اکثریت ثابت کرنے کے لئے انہیں چھ نشستوں کی مزید ضرورت تھی ۔اس کمی کو دُشینت چوٹالہ نے پورا کردیا ۔’’جے جے پی‘‘ ایک نئی پارٹی ہے جو پہلی بار انتخابی میدان میں اتری تھی ۔مگر اس نئی پارٹی نے سب کو چونکاتے ہوئے دس نشستیں حاصل کیں اور انتخابات کے فوراََ بعد اپنے مفاد کے حصول کے لئے عوام کے اعتماد کا ذرا بھی لحاظ نہ کرتے ہوئے بی جے پی کے ساتھ دوستی کا ہاٹھ بڑھا دیا ۔اس دوستی کا پہلا فائدہ یہ ہوا کہ دُشینت چوٹالہ کے والداجے چوٹالہ جو بدعنوانی کے الزام میں ایک مدت سے جیل میں تھے،دُشینت چوٹالہ کی امیت شاہ سے ملاقات کےفوراََ بعد انہیں ضمانت مل گئی ۔ظاہرہے دُشینت چوٹالہ نے اپنے والد کی رہائی کے لئے ہریانہ کی عوام کے جذبات اور اعتماد کو بی جے پی کے ہاتھوں نیلام کیاہے ۔ورنہ انتخابات میں کامیابی کے بعد جیسے ہی دُشینت چوٹالہ نے امیت شاہ کے ساتھ مل کر بی جے پی کی حمایت کا اعلان کیا اس کے فوراََ بعد ہی ان کے والد کو ضمانت کا ملنا فقط اتفاق نہیں ہوسکتا ۔
ایسا نہیں ہے کہ ہریانہ میں دُشینت چوٹالہ کو ان کی پارٹی کی کارکردگی یا ان کی قیادت کی بنیاد پر پہلی بار اتنی بڑی کامیابی نصیب ہوئی ۔بلکہ عوام میں بی جے پی کی غلط پالیسیوں کے خلاف جو غصہ تھا اس کی بنیاد پر انہیں ۱۰ نشستوں پر نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ۔دُشینت چوٹالہ نے عہدے کی ہوس میں بنیادی غلطی کی ہے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہریانہ میں انکی پارٹی کی یہ پہلی اور آخری جیت ثابت ہو ۔انہیں ہریانہ میں نائب وزیر اعلیٰ کی کرسی کی لالچ سے پہلے عوام کے درمیان جاکر انکی رائے معلوم کرنی چاہئے تھی ۔مگر ہندوستان میں کوئی بھی سیاسی رہنما الیکشن کے بعد عوام کے درمیان جاکر انکی رائے معلوم کرنے کی زحمت نہیں کرتا تو پھر دُشینت چوٹالہ ایسا کیوں کرتے ؟ ۔
مہاراشٹر میں انتخابی صورتحال ہریانہ سے بالکل مختلف تھی ۔یہاں بی جے پی کا اتحاد شیوسینا کے ساتھ تھا اور کانگریس این سی پی یعنی شرد پوار کے ساتھ میدان میں اتری تھی ۔ہریانہ اور مہاراشٹر کے انتخابات میں ایک بات یکساں تھی کہ دونوں ریاستوں میں کانگریس کا کوئی بڑا لیڈر انتخابی تشہیر کا حصہ نہیں تھا ۔سونیا گاندھی ،راہل اور پرینکا گاندھی نے دونوں ریاستوں میں کوئی قابل ذکر تشہیر نہیں کی ۔اس کے باوجود دونوں ریاستوں میں انہیں اچھی کامیابی نصیب ہوئی ۔اس کامیابی کے پیچھے دو اہم وجہیں ہیں ۔اول تو یہ کہ کانگریس نے مقامی لیڈرشپ پر اعتماد جتایا جس کا بھر پور فائدہ انہیں حاصل ہوا ۔دوسری وجہ یہ رہی کہ عوام میں اب بی جے پی کا اثر کم ہواہے ۔نریندر مودی کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے ۔کیونکہ بی جے پی دونوں ریاستوں میں دویندر فنڈاویس اور منوہر لال کھٹّر کے کارناموں کی بنیاد پر الکشن نہیں لڑرہی تھی بلکہ نریندر مودی کی قیادت کے سہارے انتخابی میدان میں اتری تھی ۔یہ حقیقت ہے کہ دونوں ریاستوں میں انہیں اکثریت حاصل ہوئی ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ دونوں ریاستوں کے انتخابات نے بی جے پی کو دن میں تارے دکھادیے ہیں ۔مشکل یہ ہے کہ کانگریس ابھی تک خواب خرگوش سے نہیں جاگی ہے ۔دونوں ریاستوں میں بی جے پی مخالف عوام کے واضح موقف کے بعد بھی کانگریس میں کوئی جوش و خروش نظر نہیں آیا ۔کانگریس چاہتی ہے کہ عوام گھر بیٹھے ان کی جھولی میں اقتدار کی کرسی ڈال دے ۔یہ ممکن نہیں ہے ۔انہیں زمینی سطح پر کام کرنا ہوگا ۔عوام کے درمیان جاکر ایک بار پھر ان کے اعتماد کو جیتنے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ہر ریاست میں مقامی رہنمائوں پر بھروسہ جتلانا ہوگا اور انکی بھرپور پشت پناہی کرنی ہوگی تاکہ مقامی رضاکار مضبوط لائحۂ عمل کے ساتھ گھر گھر تک پہونچ سکیں ۔مگر افسوس ابھی تک کانگریس میں ریاستی سطح پر کوئی تحریک نظر نہیں آتی ہے ۔اس کا خمیازہ اسے ایک بار پھر پارلیمانی الکشن میں بھگتنا ہوگا ۔
مہاراشٹر اور ہریانہ کے ساتھ کئی ریاستوں میں ضمنی انتخابات بھی ہوئے ۔اترپردیش میں کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی کو ایک بھی نشست حاصل نہیں ہوئی یہ حیران کن ہے ۔کانگریس کو گنگوہ سیٹ سے بہت امیدیں تھیں مگر وہاں انتظامیہ نے جانبداری کا ثبوت دیتے ہوئے نعمان مسعود کی جیت کا اعلان ہونے کے بعد دوبارہ گنتی میں انہیں ہرادیا ۔عمران مسعود نے سہارنپور کے ڈی ایم اور انتظامیہ پر اترپردیش حکومت کے دبائومیں آکر جانبداری برتنے کا الزام عائد کیاہے ۔پرینکا گاندھی نے بھی گنگوہ سیٹ کے انتخابی نتائج میں دھاندلی کے الزامات عائد کئے ہیں مگر کیا فقط الزام تراشی سے سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔دھاندلی کے ایسے ہی الزامات کی خبریں ہریانہ سے بھی آتی رہی ہیں ۔کرنال کی اندری سیٹ سے کانگریس کے امیدوار کی فتح کے اعلان کے بعد دوبارہ گنتی میں انہیں ہرادیا گیا ۔ان کا الزام ہے کہ یہ سارا کھیل انتظامیہ نےبی جے پی کی اعلیٰ قیادت کے دبائو میں کیاہے ۔عمران مسعود نے تو گنگوہ سیٹ پر انتظامیہ پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کا الزام بھی عائد کیاہے ۔موقع پر موجود افراد کے مطابق نعمان مسعود اور رضاکاروں کو انتظامیہ نے بندوق کی نوک پر اس کمرے سے باہر نکال دیا جہاں ووٹوں کی گنتی ہورہی تھی ۔جبکہ اندر اور باہر کا ماحول پرامن تھا ۔ایسے ہی خبریں متعدد مقامات سے موصول ہوتی رہیں مگر اعلیٰ قیادت فقط بیان بازی تک محدود رہی ۔انہوں نے اپنے مقامی رہنمائوں کے ساتھ مل کر نہ الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا اور نہ عوامی تحریک کا اعلان کیا ۔
مہاراشٹر اور ہریانہ کے انتخابی نتائج نے بہت کچھ واضح کردیاہے ۔اپوزیشن اگر اپنی زندگی چاہتاہے تو ریاستی سطح پر اعلیٰ قیادت کو اپنے مقامی رہنمائوں کے ساتھ مل کرمضبوط لائحۂ عمل ترتیب دینا ہوگا ۔انہیں انتخابی موسم کے علاوہ بھی الگ الگ موقعوں پر عوام کے درمیان جاکر ان کا اعتماد جیتنے کی کوشش کرنی ہوگی ۔اگر اپوزیشن اب بھی نیندسے بیدار نہیں ہوا تو اسے اپنی جیت کی امید چھوڑ دینی چاہئے ۔