-
گجرات میں عآپ کی آمد،بی جے پی کے لئے سودمند
- سیاسی
- گھر
گجرات میں عآپ کی آمد،بی جے پی کے لئے سودمند
387
m.u.h
18/11/2022
0
0
تحریر: درشن دیسائی
گجرات میں دسمبر کے پہلے ہفتہ میں اسمبلی انتخابات کا انعقاد عمل میں آئے گا۔ اگر دیکھا جائے تو اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی کے داخلے سے قبل بی جے پی اور کانگریس کے درمیان اصل مقابلہ تھا لیکن اب عام آدمی پارٹی نے اس مقابلے میں داخل ہوکر انتخابات کو دلچسپ بنادیا ہے۔ ریاست میں 27 برسوں سے بی جے پی اقتدار میں ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ گجرات کے عوام بی جے پی حکومت سے عاجز آچکے ہیں، باالفاظ دیگر بیزار ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود بی جے پی مودی اور ان کی مقبولیت پر تکیہ کئے ہوئے ہیں جبکہ کانگریس ذات پات کا حساب لگائے اُمید کررہی ہے کہ کم از کم اس مرتبہ وہ اقتدار پر واپس آئے گی۔ دوسری طرف اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی کو تبدیلی کے نام پر اقتدار حاصل کرنے کی امید ہے۔ عام آدمی پارٹی، بی جے پی کو زیادہ سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے کانگریس پر تابڑتوڑ تنقیدی حملے کرتی جارہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے لاکھ منصوبوں کے باوجود عوام کیا گل کھلاتے ہیں؟ اس مرتبہ ریاست میں ایک اور اہم تبدیلی دیکھی جارہی ہے، وہ یہ کہ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی ایسا لگتا ہے کہ انتخابی مہم میں شدت پیدا کرچکے ہیں، لیکن کانگریس کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔ نتیجہ میں مقابلہ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے درمیان سمجھا جارہا ہے کیونکہ 2017ء میں راہول گاندھی نے گجرات میں جارحانہ مہم چلائی تھی۔ اس وقت ان کے ساتھ ہاردک پٹیل، اپلیش ٹھاکر اور جگنیش میوانی جیسے قائدین راہول گاندھی کے ساتھ تھے۔ اس مرتبہ راہول نے خود کو ریاست کی سیاست اور سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھا ہوا ہے۔ گجرات کانگریس قائدین ان پر ریاست میں پارٹی کی انتخابی مہم میں حصہ لینے پر زور دے رہے ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران کجریوال نے نرم ہندوتوا کی پالیسی اپنائی اور اب تو گجرات میں انہوں نے رائے دہندوں سے یہ وعدہ بھی کیا کہ اقتدار ملنے پر وہ انہیں کو ایودھیا کی رام مندر مفت روانہ کریں گے۔ جہاں تک راہول گاندھی کا سوال ہے ، وہ ’’بھارت جوڑو یاترا ‘‘سے کچھ وقت نکال کر گجرات میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم چلائیں گے۔ تاحال انہوں نے 3,500 کیلومیٹر میں سے 1600 کیلومیٹر کا فاصلہ طئے کرلیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی قائدین اچھی طرح جانتے ہیں کہ کانگریس خاموشی سے کام کررہی ہے جبکہ عام آدمی پارٹی چیخ و پکار، تنقیدوں، طنز و طعنوں میں مصروف ہوگئی ہے۔ اصل میں بی جے پی کی نشستوں میں متواتر کمی کانگریس کی خاموش مہم کا نتیجہ ہے۔ کانگریس بڑی خاموشی کے ساتھ KHAM (کشتریہ، او بی سیز ، ہریجن، آدی واسی اور مسلم) کی تھیوری پر کام کرتی رہی جس کے باعث ہی اسے 1985ء میں 149، 1980ء میں 139 حلقوں میں کامیابی ملی تھی۔ کانگریس نے جگدیش ٹھاکر اور امیت چاؤڈا جیسے او بی سی لیڈران کو پارٹی کے ریاستی صدر بنایا۔ فی الوقت گجرات کانگریس میں کئی ایک حرکیاتی قائدین موجود ہیں جو پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جن میں آدی واسی لیڈر سکھ رام رتھوا (یہ قائد اپوزیشن ہیں)، ایک اور آدی واسی لیڈر اننت پٹیل، سینئر ایس سی لیڈر شپلیش یادو (یہ ڈپٹی اپوزیشن لیڈر ہیں) ، دلت لیڈر جگنیش میوانی (جو پارٹی کی ریاستی یونٹ کے کارگذار صدر ہیں اور نوشاد سولنکی شامل ہیں۔ پارٹی نے کولی پٹیل کمیونٹی کو بھی اچھی طرح نمائندگی دی ہے۔ وتوک مکوانا، کو کارگذار صدر، پنجا بھائی ونیش کو صدرنشین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بنایا جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے، گجرات میں مسلمانوں کی آبادی جملہ آبادی کا 9% ہے اور ریاستی اسمبلی میں کانگریس کے تین مسلم ارکان اسمبلی ہیں۔ عمران کھیڑے والا، غیاث الدین شیخ اور محمد جاوید پیرزادہ (پیرزادہ ایک سابق اسکول ٹیچر ہیں)جو تین مرتبہ سے ایم ایل اے منتخب ہوتے آرہے ہیں۔ 2002ء میں انہیں اپنے پہلے الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ہاں کانگریس، سوشیل میڈیا پر پروپگنڈہ اور پبلیسٹی کے معاملے میں بی جے پی اور عام آدمی پارٹی سے بہت پیچھے ہے۔ عام آدمی پارٹی کو کانگریس کیلئے ایک بڑا چیلنج کہہ سکتے ہیں جبکہ بی جے پی کیلئے عاپ ایک پریشانی کا باعث بننے والی پارٹی ہے۔ جہاں تک گجرات کی سیاست کا سوال ہے، 1960ء میں اس کی تشکیل عمل میں آئی اور مادھو راؤ سولنکی اور نریندر مودی کے سوائے کسی بھی چیف منسٹر نے اپنی میعاد مکمل نہیں کی۔ اب عام آدمی پارٹی نے گزشتہ جمعہ کو مشہور و معروف گجراتی ٹی وی صحافی اسودن گادھوی کو اپنے چیف منسٹر امیدوار کے طور پر پیش کیا ہے اور عاپ نے تاحال 102 اسمبلی حلقوں کیلئے اپنے انتخابی امیدواروں کے ناموں کا اعلان بھی کردیا۔ کجریوال نے اپنی انتخابی مہم پہلے دیہی گجرات سے شروع کی تاکہ کانگریس کے ووٹ ہضم کرسکے جبکہ 8 بڑے شہروں میں 66 اسمبلی حلقے ہیں، وہاں پر کامیابی کیلئے کجریوال کی پارٹی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ کجریوال کی عام آدمی پارٹی معیاری تعلیم، صحت عامہ کی بہترین سہولتوں، مفت بجلی، درجہ سوم اور درجہ چہارم کے سرکاری ملازمین کو مختلف مراعات و فوائد دینے کا تیقن دے چکی ہے۔ پولیس ملازمین کو بھی مختلف پیشکش کرچکی ہے جس سے عاپ کے حق میں لہر پیدا ہوئی جس کے ساتھ ہی بی جے پی کیمپ میں الارم بچ گیا جب عام آدمی پارٹی نے احتجاجی پولیس ارکان عملہ کیلئے گریڈ پر نظرثانی کا وعدہ کیا، ہزاروں پولیس ملازمین کے DP پر کجریوال کی تصویر آگئی۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ کجریوال نے تاحال مسلم مسائل یا بلقیس بانو کیس کے حوالہ دینے سے گریز کیا، لیکن مفت بجلی، محلہ کلینکس اور تعلیم سے متعلق وعدوں کے نتیجہ میں مسلم رائے دہندے ان کے قریب آسکتے ہیں۔ دوسری طرف کل ہند مجلس اتحادالمسلمین بھی مسلم اکثریتی حلقوں میں اپنی قسمت آزما رہی ہے اور وہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ایک بات کانگریس اور بی جے پی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کجریوال نے مرکزی حکومت پر کرنسی نوٹوں پر گنیش اور لکشمی کی تصاویر پرنٹ کرنے کیلئے زور دیا اور ساتھ ہی یکساں سیول کوڈ کی تائید کی۔ کانگریس نے تو اکثر عام آدمی پارٹی کو بی جے پی کی B ٹیم ہی کہا ہے۔