عالم نقوی
خمار بارہ بنکوی مرحوم کی ایک غزل کا برسوں پہلے سنا ہوا ایک شعر یاد آرہا ہے :
یہ کیسی ہوائے ترقی چلی ہے
دئیے تو دئیے دل بجھے جا رہے ہیں !
ایک’ زندہ شعر‘ میں جتنی ’خصوصیات ِزندگی ‘ہونی چاہئیے سب اِس میں موجود ہیں۔ اَندھے اور بے رحم ’وکاس ‘پر بھی یہ شعر اُتنا ہی سفَّاک تبصرہ ہے جتنا دنیا کی’ ترقی معکوس ‘پر!ہم جیسے بے بس لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ دل کے بجھنے ہی کا معاملہ ہے کہ جب حالات میں کسی مثبت معنوی تبدیلی کی صورت فوری طور پر نظر نہیں آتی توصاحبان اختیار کی خود غرضی و بے حسی اور مستضعفین فی ا لارض کی بے کسی و بے بسی دلوں کے دئیے بھی بجھائے دیتی ہے۔
انہی حالات سے جوجھتے ہوئے کسی لنگ راج موہنتی اور گیتا نار گنڈ کر نےپی ایم مودی کو ایک خط لکھ ڈالا ہے۔ ظاہر ہے کہ نہ اس کا جواب آنے کی امید ہے نہ کسی ہمدردانہ رد عمل کی۔ اس لئیے دل کی بھڑاس نکالنے کا اس کے سوا اور کیا طریقہ ہو سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر موجود ان دونوں سچے دیش بھکتوں کے اس کھلے خط کوپرنٹ میڈیا میں بھی حتی ا لمقدور عام کر دیا جائے ! وہ لکھتے ہیں:
’’ڈئیر پی ایم شری نریندر مودی جی نمسکار !
سیاست دانوں کو صرف ایک ٹرم کے لیے قانون سازیہ کا رُکن بن جانے پر ساری زندگی کے لئیے بھاری بھرکم پنشن کا مستحق بنا دیناگھور اَنیّائے ہے کیونکہ ایک سرکاری ملازم تو اُس وقت تک پنشن کا مستحق نہیں بنتا جب تک کہ وہ کم از کم بیس سال کی خدمت انجام نہ دے چکا ہو !اور اُس میں بھی اضافے کے بجائے کٹوتی کے منصوبے ہوں۔ وطن عزیز میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر بیس سال تک سرحدوں کی حفاظت کرنے کے بعد سبکدوش ہونے والے فوجی کو اُس کی معمولی تنخواہ کامحض پچاس فی صد بطور پنشن ملتا ہے اور’ شارٹ سروس کمیشنڈ آفیسر ‘کو انتہائی مشکل حالات میں گھر بار اور بیوی بچوں سے دور رہتے ہوئے پانچ سے چودہ سال تک ملک کی خدمت اور حفاظت کرنے کے باوجودوہ نہیں ملتا ! اور وہ سیاست داں جنہیں دلی جیسے شہر کے بہترین علاقے میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بغیر کسی کرائے بھاڑے کے ایسا گھر رہنے کو ملتا ہے جہاں اُن کے لیے پانی، بجلی اورٹیلی فون تک سب،کسی بھی طرح کی تحدید کے بغیر، با لکل مفت ہوتا ہے اور ملک میں کہیں بھی جائیں ہوائی جہاز میں اکزیکٹو کلاس اور ٹرین میں اے سی فرسٹ کلاس میں مفت سفر کی سہولت الگ سے حاصل رہتی ہےانہیں صرف پانچ سال کی پارلیمانی رکنیت کے بعد تا حیات تنخواہ کے برابر پنشن ملے، یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ اور وہ بھی بھارت جیسے غریب اور بد عنوانی گزیدہ ملک میں جہاں عام آدمی کو بنیادی تعلیم اور صحت خدمات تک مفت حاصل نہ ہوں بلکہ اس کی دسترس سے بھی باہر ہوں !
جس طرح آپ عام آدمی پر، اُس کو ملنے والی نام نہاد گیس سبسڈی تک واپس کرنے کے لیےزور ڈالتے رہتے ہیں اُسی طرح اپنے ساتھی ممبران پارلیمنٹ کو بھی مجبور کیجئے کہ وہ تا حیات پنشن سمیت مفت ملنے والی تمام ناجائز سہولتوں کو اَز خود واپس کردیں جو سرکاری خزانے (بیت ا لمال ) پر عام آدمی کا حق مارنے والے ایک شرمناک بوجھ کی صورت میں مسلط ہیں اور اِس کی شروعات خود اپنی ذات سے کریں !‘‘
پارلیمنٹ کی کینٹین اِس لوٹ کا دوسرا بڑا مظہر ہے جہاں اُن لوگوں کو جنہیں دنیا کی بیشتر لازمی ضرورتیں پہلے ہی سے مفت حاصل ہیں، برائے نام قیمتوں پر، تقریباً مفت کھانا اور ناشتہ وغیرہ ملتا ہے ! ضرورت اس کی ہے کہ یا تو حکومت ایسی ہی کینٹینیں ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں کھول دے ورنہ پارلیمنٹ کی اس کینٹین کو بلاتاخیر بند کرے جو عوامی خزانے پر ڈاکے کے سوا اور کچھ نہیں !
حقیقت یہ ہے کہ ممبران پارلیمنٹ کی ناجائز سہولتوں اور تاحیات پنشن کی شرمناک عیاشی بلکہ لوٹ میں حکمراں اور حزب اختلاف سبھی پارٹیاں برابر کے شریک ہیں۔ ایک مثال بھی ایسی ہمارے علم میں نہیں کسی ایم پی نے اس لوٹ کے خلاف کبھی کوئی آواز اٹھائی ہو۔
رہی مودی حکومت تو اُس نے ان چار برسوں میں عوام کو سبز باغ دکھاتے رہنے کے سواکوئی ایک کام بھی ایسا نہیں کیا جسے اچھے لفظوں میں یاد کیا جا سکے۔ اس کے برخلاف، دادری سے کاس گنج تک نفرت، تعصب، اور ظلم کی حدیں آئے دن ٹوٹتی چلی جا رہی ہیں!
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)