-
نئے عالمی نظام کے لئے روس ،ترکی اور ایران کی جدوجہد
- سیاسی
- گھر
نئے عالمی نظام کے لئے روس ،ترکی اور ایران کی جدوجہد
419
m.u.h
28/07/2022
0
0
تحریر:عادل فراز
اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جاسکتاکہ امریکی ورلڈ آڈر کا زوال ہوچکاہے ۔گذشتہ کچھ سالوں میں جس طرح روس،چین ،ایران اور دیگر ملکوں نے باہمی اتحاد قائم کیا ہے ،اس سے ورلڈ آڈر میں بہت تیزی کے ساتھ بدلائو آیاہے ۔امریکہ اب اپنی عالمی حیثیت کھوچکاہے اور خطی طاقتیں تیزی کے ساتھ ابھر رہی ہیں ۔خاص طورپرروس، ایران ،ترکی اور چین کی علاقائی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ترکی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اب تک اپنے ماضی سے سبق نہیں لے سکاہے ۔ارتغل اور عثمان غازی جیسے ڈرامے تیار کرکے عالمی سطح پر اپنی طاقت کا لوہا نہیں منوایا جاسکتا،یہ بات ترکی صدر کو باور کرلینی چاہیے ۔انہیں اسلامک ورلڈ آڈر کا حصہ بننا ہوگا ۔جب تک مسلمان ممالک اپنے باہمی اتحاد کا مظاہرہ نہیں کریں گے ،ان کی عالمی حیثیت زیر سوال رہے گی ،اس کا تجربہ ترکی سمیت دیگر ممالک کرچکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ترکی صدر طیب رجب اردوغان ،روسی صدر پوتین کے ساتھ ایران کے دورے پر تھے ۔ترکی کو یہ معلوم ہوچکاہے کہ امریکہ اور اسرائیل دوستی کبھی اس کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دےگی ۔ان کےبرخلاف روس اورچین کا اتحاد اس کی علاقائی حیثیت کو مضبوطی دے سکتاہے جس میں ایران کا اہم کردار رہے گا ۔شام اور دیگر ملکوں میں امریکی اتحاد کے علاوہ روس ، ترکی اور ایران کا اثر و نفوذ ہے ۔جنگ زدہ ممالک میں عالمی طاقتوں کی رسہ کشی جاری ہے ۔اگر ترکی روس ،ایران اور دیگر اسلامی ملکوں کے ساتھ اتحاد قائم نہیں کرے گا تو وہ دن دور نہیں ہے کہ جب استعماری طاقتیں کسی دوسرے مسلمان ملک کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے میں دیر نہیں کریں گی ۔اس لئے ترکی سمیت دیگر اسلامی ملکوں کو ہمہ وقت بیداراور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔
گذشتہ دنوںامریکی صدر جوئے بائیڈن مشرق وسطیٰ کے دورے پر تھے ۔خاص طورپر ان کا سعودی عرب کا سفر کافی موضوع بحث رہا ۔انہوں نے محمد بن سلمان سے ملاقات کے دوران جمال خاشقچی کے قتل کا ذکر چھیڑ کر بن سلمان کے زخموں پر نمک پاشی کی ۔واضح ہے کہ جمال خاشقچی کا قتل بن سلمان کے دامن پر بدنما داغ ہے ۔امریکی صدر نے اس قتل کی یاد دلاکر محمد بن سلمان کے زخموں کو ہرا کردیا ۔مگر محمد بن سلمان ،جو اب امریکی اثر سے کسی حد تک باہر آچکے ہیں ،نے امریکی صدر کو عراق کی ابوغریب جیل اور الگ الگ علاقوں میں جاری امریکی مظالم کی یاد دہانی کرائی،گویا کہ یہ محمد بن سلمان کا امریکی صدر کو کرارا جواب تھا ۔امریکی صدر کے پاس بن سلمان کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا اور نہ وہ ان سے اظہار ناراضگی کرسکتے تھے ۔کیونکہ ایک شکست خوردہ امریکی صدر مشرق وسطیٰ کے دورے پر نکلا ہوا تھا جو اپنی طاقت کی بحالی اور امریکی طاقت کے توازن کے لئے ہاتھ پیر ماررہاہے ۔اس وقت گیس اور تیل کی بڑھی ہوئی قیمتوں نے یوروپ کی نیندیں اُڑا رکھی ہیں ۔اگر روس نے تیل اور گیس کی سپلائی روک دی تو یوروپی معیشت کا جنازہ نکل جائے گا ۔مشرق وسطیٰ کی تباہی کے بعد یوکرین کو جنگ کی بھٹّی میں جھونکنا امریکہ کی فاش غلطی تھی ،جس کے نقصانات سامنے آرہے ہیں ۔ایسے میں امریکی صدر سعودی عرب کو آنکھیں نہیں دکھاسکتے کیونکہ امریکی چودھراہٹ کا خاتمہ ہوچکاہے ۔
قابل غور یہ ہے کہ امریکی میڈیا نے جوئے بائیڈن کے دورے کو غیر ضروری اہمیت دی ۔یوں بھی میڈیا اب عالمی طاقتوں کا طوطا ہے ،اس لئے جوئے بائیڈن کے دورے کی اہمیت پر میڈیا کے بیجاشورمچانے کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ کوئی فوجی معاہدہ نہیں کیا اور نہ تیل کی پیداور بڑھانے پر کوئی اطمینان بخش جواب دیا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے امریکی ایجنڈہ کو بھی قبول نہیں کیا گیا یہ امریکہ کے لئے چونکانے والا فیصلہ تھا۔بائیڈن نے فلسطین کا دورہ بھی کیا مگر مسئلٔہ فلسطین کو حل کرنے کے لئے کوئی اہم بات نہیں کی ۔ اس سے پہلے ڈونالڈ ٹرمپ کے دور اقتدار میں سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرچکاتھا مگر اب حالات بدل چکے ہیں ۔ایران کے ساتھ سعودی عرب کے مذاکرات جاری ہیں جو یقیناً استعماری طاقتوں کے مفادات کے برخلاف ہے ۔اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو ایران اور سعودی عرب کی دوستی خطے میں نئی تبدیلیوں کا شاخسانہ بن سکتی ہے ۔غرض کہ مشرق وسطیٰ کے دورے سے امریکہ کو جو توقعات وابستہ تھیں ،وہ پوری نہیں ہوسکیں ۔مسلمان ممالک کے کسی بھی سربراہ نے امریکی صدر کا والہانہ استقبال نہیں کیا ۔گویاکہ ان کا یہ دورہ روایتی انداز کا دورہ ثابت ہوا جس میں صرف وعد و وعید کئے گئے ۔اس سے پہلے جب بھی کوئی امریکی صدر مشرق وسطیٰ کے دورےپر نکلتا تھا عالمی میڈیا اس دورے کی کوریج کے لئے ٹوٹ پڑتا تھا ،اس بار امریکی میڈیا کے علاوہ یہ صورتحال کہیں نظر نہیںآئی ۔ہندوستانی میڈیا میں بھی اس دورے کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ۔بعض ملاقاتوں کی خبریں ضرور نشر ہوئی ہیں مگر جس طرح استکباری نظام امریکی صدر کے دورے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتاتھا ،اس بار وہ بات نظر نہیں آئی ۔
جوئے بائیڈن کے دورے کے فوراًبعد روسی صدر ولادیمیر پوتین اور ترکی صدر طیب رجب اردوغان ایران پہونچ گئے ۔ایرانی صدر کے ساتھ ان کی تصویریں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ نیا ورلڈ آڈر تیار ہوچکاہے ۔یہ تصویریں ان طاقتوں کی نیندیں اُڑادینے والی تھیں جو عالمی سطح پر ایران کو تنہا کرنا چاہتی ہیں ۔ایران کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کااندازہ ان تصویروں سے بخوبی ہوجاتاہے ۔اس وقت ایران ترکی ،سعودی عرب،قطر ،اور دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ اتحاد و اتفاق قائم کرنے کے منثور پر کام کررہاہے ۔اگر یہ اتحاد قائم ہوجاتاہے تو نئے ورلڈ آڈر میں اسلامی ممالک کی بڑی اہمیت ہوگی ،جو استعماری نظام کی جڑیں ہلادے گی ۔
روس ،امریکہ اور ایران کی طرح ترکی بھی شام کے مسئلے میں دخیل ہے ۔شام کے مسئلے پر ایران اور ترکی کے درمیان بہت اختلاف رہاہے جو اب حل ہونے کی کگارپر ہے ۔ترکی کو شام میں فوجی کاروائی کے ذریعہ بہت زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ،اس لئےترکی روس اور ایران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے مجبورہوا۔واقعیت یہ ہے کہ عراق،شام ،یمن اور افغانستان کے مسائل کا حل فوجی کاروائیوں میں نہیں ہے ۔اگر ایسا ہوتا تو یمن ،عراق اور شام میں اب تک امن قائم ہوچکا ہوتا ۔امریکہ شامی عوام کے مفادات کا بڑا دشمن ہے ۔وہ بڑی مقدار میں شامی تیل کو چوری کررہاہے اور عوامی وسائل بہت تیزی سے گھٹ رہے ہیں ۔شام میں بدامنی عروج پر ہے اور فوجی کاروائی اس کا حل نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ روسی صدر سے ملاقات کے وقت ایرانی سپریمو آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھاکہ امریکہ کو مشرقی فرات سے نکال دینا چاہیے ۔اس جملے کا واضح مطلب یہ تھا کہ ہم علاقہ میں امریکی موجودگی کو برداشت نہیں کرسکتے ۔مشرقی فرات سے امریکی فوجوں کے انخلا میں ترکی کا کردار بہت اہم ہوگا ،اسی لئے ایران روس کے ساتھ مل کرترکی سے مذاکرات کررہاہے ۔ممکن ہے روس اور ایران کے اتحاد میں شامل ہونے کے بعد ترکی نیٹو سے باہر ہوجائے ۔اگر ایسا ہوتاہے تو نیٹو کا شیرازہ بکھرنے میں بھی بہت وقت نہیں لگے گا۔کئی نیوز ایجنسیوں نے یہ بھی تحریر کیاہے کہ روسی صدر کے دورے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ایران سے یوکرین جنگ کے لئے ہتھیار در آمد کئے جائیں ۔اگر ایساہے تو یہ ایران کی عالمی سطح پر بڑی کامیابی ہوگی ۔اب تک یوروپی ممالک اور روس دنیا کو ہتھیار فروخت کرتے تھے ۔اگر روس ایران سے ہتھیاروں کی خریداری کرتاہے تو عالمی بازار میں ایران کی طاقت کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکے گا۔ہزار ہا اقتصادی پابندیوں کے بعدایران کی بڑھتی ہوئی طاقت نے دشمن کو حیران کردیاہے ۔خاص طورپر اسلامی ممالک کا ایران کی طرف راغب ہونا اسی نمایاں کامیابی کی بنیاد پر ہے ۔
واضح رہے کہ ایران ،روس اور ترکی کے درمیان مذاکرات کی ۱۸ نشستیں منعقد ہوچکی ہیں جن میںانسانی ہمدردی کے وسائل ،باہمی تعاون کے فروغ ،خطے میں امن و امان کے قیام اور شام میں جاری سیاسی و معیشتی بحران کے پُرامن حل پر غوروخوض کیا گیاہے ۔روسی صدر کا یہ دورہ فقط شامی مسائل کے حل تک محدود نہیں رہا بلکہ تینوں ملکوں نے عالمی مسائل پر بھی تبادلۂ خیال کیا ،جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ نیا ورلڈ آڈر ان تین ملکوں کی رہنمائی میں تیار ہورہاہے ۔جوئے بائیڈن کے دورے کو یروشلم پوسٹ سمیت دیگر اخباروں نے ناکام قرار دیاہے کیونکہ امریکی صدر فلسطین سمیت دیگر ملکوں کے ساتھ کوئی کامیاب مذاکرات نہیں کرسکے ۔خاص طورپر المیۂ فلسطین ،گیس اور تیل کی در آمد اور پیداوار بڑھانے کے معاملات ،بین الاقوامی حکمت عملی کالایحۂ عمل اور اس طرح کے دیگر مسائل پر کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوسکی ۔اس کے برخلاف روسی صدر نے شام کے بحران سمیت دیگر علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر کامیاب مذاکرات کئے ہیں ۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ امریکی بوڑھا صدر عالمی سیاست کو سمجھنے میں ناکام رہاہے ۔