-
تین طلاقیں قران اور حدیث کی روشنی میں
- سیاسی
- گھر
تین طلاقیں قران اور حدیث کی روشنی میں
1767
M.U.H
18/08/2018
0
0
مولانا سید رضا حیدر ،مدیر حوزہ علمیہ حضرت دلدار علی غفرانمآبؒ
طلاق کا مسئلہ شریعت میں بہت واضح طور سے بیان کیا گیا ہے مگر بیجا تعصب اور مفاد پرست سیاست نے اس مسالہ کو اتنا پیچیدہ بنا دیا کہ آج ملک کی حکومت اور عدلیہ کو اس میں دخل اندازی کا موقع فراہم کر دیا گیا ہے۔اس مسالہ کوقرآن مجید سورۃ بقرہ آیہ نمبر ٢٢٩ اور ٢٣٠ میں صاف طور سے بیان کیا گیا ہے،چنانچہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے ؎
ٱلطَّلَـٰقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمۡسَاكُۢ بِمَعۡرُوفٍ أَوۡ تَسۡرِيحُۢ بِإِحۡسَـٰنٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَڪُمۡ أَن تَأۡخُذُواْ مِمَّآ ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّآ أَن يَخَافَآ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ ۖ فَإِنۡ خِفۡتُمۡ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡہِمَا فِيمَا ٱفۡتَدَتۡ بِهِۦ ۗ تِلۡكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَعۡتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ ٱللَّهِ فَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ
طلاق دو مرتبہ دی جائے گی۔ اس کے بعد یا نیکی کے ساتھ روک لیا جائے گا یا حسنِ سلوک کے ساتھ آزاد کردیا جائے گا اور تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ انہیں دے دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لو مگر یہ کہ یہ اندیشہ ہو کہ دونوں حدود الٰہی کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو جب تمہیں یہ خوف پیدا ہوجائے کہ وہ دونوں حدود الٰہی کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو دونوں کے لئے آزادی ہے اس فدیہ کے بارے میں جو عورت مرد کو دے. لیکن یہ حدود الہٰیہ ہیں ان سے تجاوز نہ کرنا اور جو حدود الٰہی سے تجاوز کرے گا وہ ظالمین میں شمار ہوگا۔
شان نزول :
دور جاہلیت میں کچھ لوگ اپنی بیویوں کو سیکڑوں مرتبہ طلاق دیتے تھے اور پھر جب چاہتے تھے رجوع کر لیتے تھے اس طرح سے عورتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے ۔اس طرح کا مسئلہ لے کر ایک خاتون حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اپنی فریاد لے کر آئی۔تب اس آیہ مجیدہ کا نزول ہوا اور یہ قانون شریعت بنا کہ اگر دو مرتبہ طلاق دی جائے تو رجوع کرنے کا حق ہے ۔یعنی پہلی بار طلاق دینے کے بعد شوہر عدت کے دوران بغیر عقد کے اور عدت کے ایام گذرنے کے بعد دوبارہ نکاح کر کے رجوع کر سکتا ہے۔اسی طرح سے اگر دوسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد شوہر عدت کے دوران بغیر کسی نکاح کے اور عدت کے ایام گذرنے کے بعد نکاح کر کے رجوع مکرر کر سکتا ہے۔مگر اب اگر شوہر نے اپنی بیوی کو تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو وہ ہمیشہ کے لیے اس پر حرام ہو جائے گی۔ہاں حلالے کے بعد یعنی یہ مطلقہ خاتون کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور دخول(ہمبستری ) کے بعد اگر اسکا دوسرا شوہر اپنی مرضی سے طلاق دے دے تو پہلا شوہر اس سے پھر نکاح کر سکتا ہے ۔یہاں تک اس مسئلہ میں تمام شیعہ و سنی علماء کا اتفاق و اجماع ہے ۔اختلاف رائے اس بات میں ہے کہ آیا ٣ طلاق ایک نشست میں ہو سکتی ہیں یا نہیں ؟ شیعہ علماء کا اجماع ہے کہ ٣ طلاقیں ایک نشست میں نہی ہو سکتی ہیں۔اگرچہ شوہر’’ طلقتک ثلاثا ‘‘ کہہ دے ۔یعنی وہ اپنی بیوی سے کہے کہ ہم نے تم کو ٣ طلاقیں دیں ،یہ صرف ایک طلاق مانی جائے گی۔لیکن علماء اھل سنت میں اختلاف پایا جاتا ہےاکثریت اس بات کی قائل ہے کہ ٣ طلاقیں ایک نشست میں ہو جاتی ہیں۔مگر کچھ علماء اہل سنت اس مسئلہ میں شیعہ علماء کے موافق ہیں۔جامعہ الازہر مصر کے مفتی اعظم شیخ محمود شلتوت نے اس مسئلہ میں شیعہ علماء کے نظریہ کو قبول کیا ہے۔اس کے علاوہ صاحب تفسیر المنار نے مسند احمد بن حنبل اور صحیح مسلم کے حوالے سے نقل فرمایا ہےکہ زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر حضرت عمر کی خلافت کے دو سال تک ایک نشست کی ٣ طلاقیں ایک ہی طلاق مانی جاتی تھی،پھر خلیفہ دوم کے حکم سے ایک نشست میں ہی تین طلاقیں مانی جانے لگی ۔(بحوالہ تفسیر نمونہ مکارم شیرازی ج ٢ ص ١٧٠ا)
آج اھل سنت حضرات کی اکثریت اسی حکم پر عمل کر رہی ہےاور اس کو حکم شریعت سمجھتی ہے مگر اختلاف ہونے کے باوجود بھی ہم سب کی ذمے داری ہے کہ اس مسئلہ میں اور باقی تمام مسائل میں ایک پلیٹ فارم پر ہوں ۔کیونکہ اگر آج وہ نشانہ پر ہیں تو کل ہماری باری بھی آ سکتی ہے۔
قابل غور باتیں :
١ : جس جلد بازی میں اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے اس سے ہر مسلمان کو حکومت کی نیت پر شک ہو رہا ہے !۔
٢: اگر حکومت کا یہ خیال ہے کہ مسلمان خواتین پر ٣ طلاق کے ذریعہ ظلم ہو رہا ہے اور ایک قانون بنا کر اس ظلم کو روکا جا سکتا ہے ، تو کیا یہ خیال حقیقت میں بدل سکتا ہے ؟ اس سلسلے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ طلاق کے مسئلہ میں کتنی مسلم خواتین عدلیہ کی طرف رجوع کرتی ہیں ؟
٣: کیاحکومت وقت کو مسلمان خواتین سے ہمدردی ہے ؟ حکومت مسلم خواتین کو انصاف دلانا چاہتی ہے ؟ یا پردہ کے پیچھے کی کہانی کچھ اور ہے ؟
اگر ہماری حکومت کو حقوق نسواں کا اتنا ہی خیال ہے تو سب سے بڑا حق یعنی حق ازادی کے تحت مسلم خواتین کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ شریعت کے قانون کو مانے یا حکومت کے بنائے ہوئے قانون کو؟کیا ایسا ممکن ہے کہ ریفرنڈم کے ذریعےنکی رائے معلوم کر لی جائے!!
پردہ کے پیچھے کی کہانی:
حقیقت میں اس بل کو پارلیمنٹ میں عجلت کے ساتھ پیش کرکے حکومت آیندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے۔اس بل کے ذریعہ یہ تو ممکن ہے کہ حکومت کو کچھ ووٹ مل جائیں مگر خواتین کو حقوق ملیں شایدیہ خیال حقیقت میں نہ بدل پائے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)