-
ملک کا عمومی انتخاب کب اور کتنے دنوں میں مکمل ہو نا چاہیے؟
- سیاسی
- گھر
ملک کا عمومی انتخاب کب اور کتنے دنوں میں مکمل ہو نا چاہیے؟
1199
m.u.h
15/05/2019
1
0
صفدر امام قادری
اس بار کا انتخاب جس سخت موسم اور طویل دورانیے کے سا تھ پایۂ تکمیل تک پہنچ رہا ہے، اب یہ ضروری سوال سامنے آگیا ہے کہ موسم کا خیال رکھتے ہوئے عام لوگوں پراس قدربے رحمی کا ثبوت نہ دیا جائے۔
موجودہ انتخاب تو اب آخری سانسیں گن رہا ہے یا کہیے کہ سانپ تو مر چکا ہے، بس رسّی باقی رہ گئی ہے۔ خدا کی مہربانی سے اب دونوں اتوارایک ایک مرحلے کے انتخاب کے ساتھ ہمیں ۲۳ مئی کے قریب لے چلیں گے جب کسی نہ کسی کی سرکار بن ہی جائے گی۔ طرح طرح کی پیشین گوئیاں عام آدمی سے لے کر سیاسی سورماؤں تک سبھی نے کر رکھی ہے۔ ہمارے دلوں میں بھی نہ جانے کیسے کیسے خواب اپنی تعبیر کے لیے مچل رہے ہیں مگر اب ان موضوعات پر حتمی بحث سے دانش ور اور امورِ سیاست کے نبّاض باہر ہوتے جائیں گے اور مصلحت پسند سیاست داں او ر جوڑ توڑ کے ماہرین کی کھیتی شروع ہو جائے گی۔ اب ہمیں دورکا جلوہ کر نا ہو گا اور دیکھنا یہ ہوگاکہ کو ن آخری فاتح ہو گا۔
۷۵ فی صد انتخاب مکمل ہو جانے کے بعد اب چند سیاسی قائدین کو چھوڑ کر عام لوگوں اور عمومی سیاست میں دلچسی رکھنے والوں میں تھکان اور سستی کا ماحول ہے۔ لڑکی کی شادی میں رخصتی کے پہلے کی جو کیفیت ہو تی ہے، وہی ابھی پورے ہندستان میں نظر آرہی ہے۔ خدا کا شکر رہا کہ کسی بڑے پیمانے پر قتل وخون اور ہنگامہ یا ووٹ بائی کاٹ جیسے مسئلے سامنے نہیں آئے اور ان حالات کو پر امن انتخابات کے نا م سے موسوم کرنا کچھ غلط نہ ہو گا۔ الیکشن کمیشن کا یہ منصبی فریضہ ہو تاہے؛ ہر چند اس پر شدید سوالات قائم ہو ئے مگراس نے اس فرض ادائیگی کو بہ حسن وخوبی انجام تک پہنچا ہی لیا۔ اس لیے اب کچھ نئے موضوعات پر غور و فکر اور اظہارِ خیال کی ضرورت پیدا ہو رہی ہے۔
پانچ سال پر یہ انتخابات ایک سیاسی تہوار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ پچھلے الیکشن کا بھی کم وبیش یہی موسم تھا اور اس بار کا بھی یہی حال ہے۔ اس دوران ملک کے ۷۵ فی صدحصّے میں ۴۰ سے۴۵ ڈگری درجۂ حرارت ریکارڈ کیا گیا اور ۱۲ مئی اور۱۹ مئی کے رائے دہندگان کو اس تیزابی موسم میں جھلسنا لکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندستان کی مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن کوکیا ووٹ دینے والے لوگوں کی پریشانیوں کا یکسر علم نہیں ؟ یہ سب درست کہ ان تاریخوں کے فیصلے ایر کنڈیشنڈ کمروں میں ہو تے ہیں مگرالیکشن کے عملے اور ووٹ دہندگان کو اس آگ کے موسم میں سامنے آنا پڑتا ہے۔ حد تو یہ ہے کے بڑے بڑے تیس مار خاں سیاست دانوں کے چہرے جھلسے ہو ئے نظر آرہے ہیں اور اگر آپ ان کے جلسے میں چلے جایئے تو کم و بیش ان کی صورت بھی قابلِ رحم معلوم ہو تی ہے۔ آخر عمومی انتخابات کی تاریخ طے کر نے میں کیاان حالات پر غور نہیں کیا جانا چاہیے تھا؟ آج یہ سوال پوچھا بھی جائے تو کس سے ؟مگر اگلی بار پھر یہ غلطی نہ ہو، اس لیے یہ موضو ع حلقۂ دانش وراں میں ضرور زیرِ بحث ہو نا چاہیے۔
اکثر یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اسمبلی کے انتخاب کی تاریخیں دو تین مہینے پہلے بہ وجوہ متعین کر دیں گئی ہیں۔ کبھی ایک ریاست کی تاریخ طے کر دی گئی ہے، اسی کے ساتھ کسی تحلیل شدہ اسمبلی کا انتخاب یا خالی جگہوں کے لیے الیکشن کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ جس طرح اس بار اپریل اور مئی میں انتخابات کی تاریخیں متعین کی گئیں، یہ کوئی مشکل بات نہیں تھی کہ انھیں دو مہینے پہلے انجام تک پہنچا دیا جاتا اور اپریل میں نئی سرکا ر بن جا تی۔ مارچ میں اور ابتدائی اپریل میں ملک کے اکثر و بیشتر حصّوں میں معقول موسم ہو تا ہے۔ کم از کم شدید گرمی کے بارے میں کوئی اندیشہ لاحق نہیں۔ ووٹر کو کھلے آسمان کے نیچے کئی کئی گھنٹے قطار میں لگنا اور گاؤں سے الیکشن بوتھ پہنچنے میں کبھی کبھی کئی میل کا فاصلہ درپیش ہوتاہے۔ فرض کی ادائیگی تو ہے مگر جان کا ہلکان ہو جائے تو کتنوں کے لیے یہ بات امتحان میں بدل جائے۔ سوال یہ ہے کہ آگے جیئں گے تبھی تو ہمارے لیے الیکشن کا کوئی مطلب ہوگا۔ ملک بھر میں اس گرمی کی چپیٹ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آئے۔ ووٹ دینے والوں میں بوڑھے مرد، عورتیں اور بیمار افراد شامل ہیں۔ انھیں ایسے موسم میں پولنگ بوتھ پر بلا کر وقت سے پہلے ملک الموت کے حوالے کرنے کے سوا اور کون سی دوسری اسکیم الیکشن کمیشن لگائے گی۔ ہمیں توقع ہے کہ اگلی بار پارلیامنٹ کے انتخابات کی تاریخوں کے تعین کے سلسلے سے نئی حکومت کو موسم کا خیال رکھتے ہوئے فیصلہ لینے میں ان کی نام نہاد نابستگی کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچے گی اور عام آدمی کی پریشانیاں ذرا کم ہوسکیں گی۔
ڈیڑھ مہینے کی طویل مدت مقرر کر نا پارلیامانی انتخابات کے لیے کیو ں ضروری ہے؟چالیس برس پہلے ملک میں ایک دن میں انتخاب کا عمل پو را ہو جاتاتھا۔ بعد میں اسے دو دن کا بنایا گیا۔ اس بار سات مرحلے اوراس کے لیے ڈ یڑھ مہینے کی مدت متعین کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے جو وجوہات بیان کیں، وہ بتانے کی زیادہ تھیں۔ حقیقت سے اس کا کوئی خاص تعلق نہیں تھا۔ اگر حفاظتی دستوں کا پہنچایا جا نا سب سے بڑا سبب تھا تو ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے کے بیچ تین دن کا وقفہ ہی بہت ہو تا ہے۔ ایسے میں تین ہفتے میں سات مرحلے مکمل کیے جا سکتے تھے۔ صوبہ ٔ بہار میں محض چالیس پارلیمانی حلقے ہیں مگر یہاں سات مراحل کی ضرورت کیوں کر تھی؟ہر مرحلے میں پانچ یا چھ سیٹوں پر انتخاب کا ہو ناانتظامی سہولت کے نام پر حقیقت میں انتظامی نا اہلی ہے۔ مہاراشٹر، گجرات اور راجستھان جیسے صوبوں میں اتنے مراحل کیوں نہیں رکھے گئے؟ہیں کواکب کچھ نظرآتے ہیں کچھ؟؟
اس بار جیسے ہی الیکشن کمیشن نے عمومی انتخابات کے پروگرام جاری کیے، اسی وقت سیاسی حلقوں میں اس طرح کی چہ می گوئیاں شروع ہو گئی تھیں کہ یہ پورا پروگرام حقیقت میں پی۔ ایم۔ او۔ میں تیار ہواہے۔ شتروگھن سنہا جب بھارتیہ جنتا پارٹی میں تھے اوران کی ناراضگی کی ابتدا تھی؛ اس وقت وہ اسے اسکوٹر پارٹی کہتے تھے۔ یعنی ایک نریندر مودی اور دوسرے امت شاہ۔ باقی کوئی نہیں اور کچھ بھی نہیں۔ ۵۴۳ حلقہ ہاے انتخابات ہیں۔ ایک آدمی کے حصے میں ۲۷۲ آتے ہیں۔ الیکشن کے دورانیے کے ۴۵دن اور ۲۵ دن پہلے کو جوڑ لیں تو ۷۰دنوں میں امت شاہ یا وزیرِ آعظم کو دو سو بہتر حلقوں میں جا نا ہے۔ ایک دن میں چار جگہیں اس برق رفتاری کے دور میں نا ممکن نہیں۔ کانگریس پارٹی کو یہ معلوم ہے کہ اس کے پاس ایک ہی لیڈر ہے تو اس کے لیے تمام حلقوں تک پہنچنے میں چھ مہینے لگ جائیں گے جو ناممکنات میں ہے۔ اس لیے اسے کچھ جگہوں پر دوسرے لیڈروں پر انحصار کرنا پڑے گا اور حلیف جماعتوں کے سرخیلوں کا تعاون بھی لینا ہوگا۔ باقی سب کی سب علاقائی پارٹیاں ہیں۔ الیکشن کمیشن نے یہ بھی انتظام کیا کہ جن ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مخالف زیادہ ہیں، وہاں کی پارٹیوں کے سربراہوں کو مختلف مراحل میں کچھ اس طرح ے الجھا دیا جائے تاکہ وہ ریاست سے باہر نکل ہی نہ سکیں۔
لیکن کمیشن کے پاس نریندر مودی کے خلاف جتنی شکائتیں آئیں، سب مسترد کر دی گئیں۔ اس کے بر خلاف راہل گاندھی، مایاوتی اور دوسرے لوگوں پر جب چاہا گیا، ضابطۂ اخلاق توڑنے کاجرم عاید کر دیا گیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن بھی سابق افسروں کی نئی تقرری سے تشکیل پا تا ہے۔ ایسے افسر جو پوری سروس کے دوران سیاست دانوں کے اشاروں پر ناچتے ہوئے پائے جاتے ہیں، ان سے یہ کیسے توقع کی جائے کہ نئی جگہ ملنے سے وہ دیرینہ عادتوں سے خود کو الگ کر لیں گے اور کوئی آزاد تصور کے ساتھ ایمان اور انصاف کے راستے پر چلیں گے۔ منٹو کے ’نیاقانون‘ کا منگو کوچوان جب یہ سنتا ہے کہ’’ قانون وہی ہے پرانا‘‘ تو اس کی ہی نہیں، ہماری آنکھ بھی کھل جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن بھی پرانے نوکر شاہوں سے تیار ہو تا ہے، اس لیے اس کی آزادہ روی ننانوے فی صدی مشکوک رہے گی اور اسی طرح ننانوے فی صدی اس کی محکومیت متعین رہے گی۔ اب یہ وقت آگیا ہے کہ جمہوریت کی بقا کے لیے سابق نوکر شاہوں کے اس ہاتھی کے دکھانے والے دانت کو نئی صورت بخشی جائے اور یہ کوشش کی جائے کہ چند مہینو ں کے لیے ہی سہی مگر کیاوہ اپنی آزادہ روی سے جمہوریت کو بچانے میں کامیاب ہو پائے گا؟ اگلی سرکار کے لیے یہ سب سے بڑا سوال ہو نا چاہیے۔