-
چین عرب کانفرنس اور ایران
- سیاسی
- گھر
چین عرب کانفرنس اور ایران
361
m.u.h
13/12/2022
0
0
تحریر: سید ثاقب اکبر
گذشتہ روز ایک مشترکہ اعلامیے کے اجرا کے بعد ریاض میں چین عرب کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ اس کانفرنس کو تبدیل ہوتی ہوئی دنیا کی ایک علامت اور شاہد کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بعض تجزیہ کار کچھ اس پہلو سے بھی اس کانفرنس میں ہونے والی تقریروں اور جاری ہونے والے اعلامیے کا جائزہ لے رہے ہیں کہ اس میں ایران کے حوالے سے کیا موقف اختیار کیا گیا ہے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ موجودہ حالات میں ریاض میں کسی بین الاقوامی کانفرنس یا نشست میں ایران کی بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تنقید شامل نہ ہو، لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ اور جوبائیڈن کے دورۂ ریاض کے موقع پر ایران کے حوالے سے جو کچھ کہا جاتا رہا اور اعلامیے جاری کیے گئے، ان کی نسبت چینی صدر شی جن پنگ کے حالیہ دورے میں بہت کچھ تبدیل ہوتا ہوا دکھائی دیا۔
عالمی امن و سلامتی کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایٹمی اسلحہ کے عدم پھیلائو کے معاہدے اور خلیج کے علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے کے پھیلائو کو روکنے اور ایران کے ایٹمی پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنے تک محدود کرنے پر زوردیتے ہوئے کہا کہ اس سے علاقائی و بین الاقوامی امن و استحکام کو تحفظ ملے گا۔ اس حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران روز اول سے یہ کہتا چلا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے حصول تک محدود ہے اور اس کا ہرگز یہ ارادہ نہیں کہ وہ ایٹمی اسلحہ بنائے۔ پانچ بڑی طاقتوں اور جرمنی کے ساتھ ایران کے ایٹمی معاہدے کی بنیاد ایران کا یہی موقف تھا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بالواسطہ اس حوالے سے ایران کے موقف ہی کی تائید کی گئی ہے۔
کانفرنس کے شرکاء نے ایران پر زور دیا کہ وہ ایٹمی پھیلائو کی ایجنسی کے ساتھ مکمل تعاون کرے۔ یاد رہے کہ ایجنسی کی طرف سے بارہا یہ بات کہی جا چکی ہے کہ ایران اس کے ساتھ تعاون کر رہا ہے، لیکن یہ ایجنسی چونکہ امریکہ اور بڑی طاقتوں کے زیر اثر ہے، اس لیے گاہے ان کے دبائو پر کوئی ایسی بات کرتی رہتی ہے، جس سے منفی تاثر پیدا ہو۔ اس کے غلط بیانات اور خاص طور پر امریکہ کے ایماء پر غلط نقطہ نظر کی اصلاح کے لیے یا احتجاج کے لیے ایران کبھی کوئی ایسا اقدام کرتا ہے، جس سے اسے وقتی طور پر ایٹمی تنصیبات کے معائنے سے روکا جاتا ہے، تاکہ وہ حقائق کے مطابق رائے اختیار کریں۔ وگرنہ آج بھی ایران کی ایٹمی تنصیبات سو فیصد عالمی توانائی ایجنسی کے زیر نظر ہیں بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اتنی باریک بینی سے اس ایجنسی نے آج تک دنیا کی کسی ایٹمی طاقت کی تنصیبات کی نگرانی نہیں کی، جتنی ایرانی تنصیبات کی نگرانی کی جاتی ہے۔
کانفرنس کے شرکاء نے اس امر پر بھی زور دیا کہ ایران کے ساتھ خلیجی ممالک کے تعلقات ہمسائیگی، اندرونی امور میں عدم مداخلت اور باہمی تنازعات پرامن طریقے سے حل کرنے کے طریقوں کے اصول پر مبنی ہونا ضروری ہیں۔ رہنمائوں نے ایران کے ایٹمی مسئلے کو خطے کے ممالک کی شراکت سے بھرپور مکالمے کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔ اس حصے میں بعض ایسے نکات ہیں، جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ’’دیگران را نصیحت اور خود میاں فصیحت۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کی فوجیں یمن کے اندر موجود ہیں، ترکی کی فوجیں عراق کے بعض حصوں اور شام میں موجود ہیں، متحدہ عرب امارات کی افواج بھی یمن میں موجود ہیں، پاکستان کے سابق چیف آف آرمی سٹاف ان افواج کے چیف ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کے فوجی اڈے ترکی سمیت خلیج کے تقریباً تمام ممالک میں موجود ہیں۔ اپنی آنکھ کا یہ شہتیر کسی کو نظر نہیں آتا اور دوسرے کے آنکھوں کی لالی بھی ان کو تکلیف پہنچاتی ہے۔دوسرے ممالک میں عدم مداخلت کا اصول بہت اہم اور ضروری ہے، لیکن یہ سب کے لیے ضروری ہے۔
جہاں تک باہمی تنازعات کے پرامن حل اور اچھی ہمسائیگی پر مبنی تعلقات کی بات ہے تو ایران ہمیشہ اس حوالے سے پیش قدم رہا ہے۔ ایران کے ایٹمی مسئلے میں سعودی عرب ہمیشہ سے ایک مذاکراتی عنصر کے طور پر شامل ہونے کے لیے کہتا رہا ہے، ایران اسے قبول نہیں کرتا اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ اگر یہ بات قبول کر لی جائے تو سعودی عرب کے بھی بہت سے معاملات میں ایران کو شامل ہونے کی دلچسپی ہوسکتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ عراق کے توسط سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کی بحالی کے لیے جو مذاکرات ہو رہے ہیں، انھیں سنجیدگی سے آگے بڑھایا جائے۔ العربیہ کے مطابق کانفرنس کے شرکاء نے ایران کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے جزائر کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کرنے پر زور دیا، اس سلسلے میں امارات کی کوششوں کی حمایت کی گئی۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ تاریخی طور پر یہ جزائر ایران کے ہیں۔ خطے کی پرانی دستاویزات کے مطابق یہی امر درست ہے۔ یہ موضوع ایران کے ساتھ نت نئے معاملات چھیڑنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ اول مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر مسئلے کے حل کی بات کی گئی ہے اور ساتھ ہی متحدہ عرب امارات کے نقطۂ نظر کی حمایت بھی کی گئی ہے۔ اسی کو دو روئی کہتے ہیں۔ ان معاملات کے علاوہ خطے کے حوالے سے کئی ایک مثبت باتیں اعلامیے میں موجود ہیں، جنھیں خود ایران کی تائید بھی حاصل ہے۔ مثلاً عراق کے حوالے سے عراق کی خود مختاری، امن و استحکام، ترقی اور خوشحالی کی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ امر خوش آئند ہے اور اگر اس نقطۂ نظر پر کاربند رہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عراقی سرزمین پر موجود غیر ملکی فوجی اڈوں کا خاتمہ اور غیر ملکی افواج کا انخلا ضروری ہے۔ اسی صورت میں عراق کی خود مختاری کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
بظاہر یوکرائن کے حوالے سے اس کانفرنس میں جو موقف اختیار کیا گیا ہے، وہ امریکی موقف سے مختلف ہے، کیونکہ اس کے مطابق چینی اور خلیجی قائدین نے یوکرائن بحران ختم کروانے کے لیے سیاسی حل اور مثبت کوششوں کی بھرپور حمایت کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روس کی مذمت کی گئی، نہ امریکی نقطۂ نظر کی حمایت۔ سیاسی حل اور مثبت کوششوں کا یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ یورپ اور امریکہ یوکرائن کو جنگ مزید بھڑکانے کے لیے اسلحہ کی فراہمی روک دے، کیونکہ اسلحہ کی بے ہنگم فراہمی سے سیاسی حل تو نہیں نکل سکتا۔ یہ امر کسی سے مخفی نہیں ہے کہ جوں جوں خلیجی ممالک کے ساتھ چین کے روابط مستحکم ہوں گے اور آگے بڑھیں گے، امریکہ کی عملداری کم ہوتی چلی جائے گی۔
اگرچہ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل نے اس موقع پر کہا کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے، تاہم اس کا یہ معنی نہیں کہ دنیا کی پہلی سب سے بڑی معیشت امریکہ کے ساتھ تعاون نہیں ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے شہزادہ فیصل بن فرحان نے یہ بھی کہا کہ سعودیہ سب کے لیے کھلا ہے اور ہم کثیر الجہت تعاون پر یقین رکھتے ہیں۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات کسی بھی ہتھیاروں کے مسئلے سے زیادہ گہرے ہیں۔ اگر اس جملے پر نظر عمیق ڈالی جائے تو یہ دراصل امریکی ہتھیاروں کی طرف اشارہ ہے، جو سعودی خارجہ پالیسی میں ایک گریز کی نشاندہی کرتا ہے۔ مزید آگے بڑھا جائے تو یہی پالیسی بالآخر ایران اور سعودی عرب کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ دیکھتے ہیں، اب آگے کیا ہوتا ہے۔