ارشد نذیر
عام فہم اندازمیں تو تمام انسانوں ہی کا مجموعہ سماج کہلاتا ہے لیکن اگر کوئی یہ سوال اُٹھانا شروع کردے کہ انسان کیا ہے تو پھرانسان اور سماج دونوں کے وجود پر سوال اُٹھنا شروع ہو جاتے ہیں اور دونوں ہی پیچیدہ تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ انسان صرف گوشت پوست کا لوتھڑا تو نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا صاحبِ شعور اور صآحبِ نطق جانور ہے جو صرف ایک وجود کا نام نہیں ہے بلکہ اس وجود کی بقا کے لئے درکار تمام مادی، جغرافیائی اور ماحولیاتی نظام کا نام بھی ہے۔
اس تعریف کے مطابق کوئی انسان اُس وقت تک مکمل انسان کہلا ہی نہیں سکتا جب تک اُسے اپنی بقا کے لئے تمام تر“معیاری” اور “مناسب ماحول” حاصل نہیں ہو جاتا۔ “معیاری” اور “مناسب ماحول” کیا ہوتا ہے۔ کیونکہ فطرت نے ہمیں اپنے جینے کے لئے کوئی معیاری اور مناسب ماحول فراہم نہیں کیا، اس کے لئے انسان نے خود تگ ودو کی ہے۔ اس لئے یہ اضافی صفات بن گئی ہیں۔
گروہ اور اجتماع اپنی سادہ شکل سے پیچیدہ شکل کی طرف سفر کرتے رہے ہیں اس لئے یہ “مناسب” اور“معیاری” تقابلی صفات بھی ہوتی گئیں۔ لوگوں کے تمام گروہ اور اجتماع کے ارتقائی مراحل سے گزرنے کے عمل کے دوران اور سماج کی موجودہ شکل تک سفر کے مراحل طے کرتے ہوئے یہ دونوں اصطلاحات اچھی خاصی “سیاسی” اصطلاحات بن گئیں۔
سماج کی تعریف صرف یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔ جدید سماج نے انسان کی مادی اور شعوری ترقی کے درمیان ایک روزبروز پیچیدہ ہوتی صورتحال کو جنم دیا ہے جو قدیم سماجوں میں اتنی پیچیدہ نہیں تھیں۔ اس معیاری اور مناسب ماحول کے فرد کی انفرادی زندگی میں بھی کچھ معنی ہوتے ہیں اور پورے سماج کی اجتماعی زندگی میں بھی یہ “معیاری” اور “مناسب” اپنے معنی رکھتے ہیں۔
پہلے بات جدید فرد کی تعریف سے شروع کرلیتے ہیں۔ دورِ جدید کا انسان ایک ایسا انسان ہے جو موجودہ دور کے تمام ترمناسب ماحول اورانسانی علم و آگہی اور سائنس نے اس میں جو بھی بہتری پیدا کی ہے، کو اپنا ماحول خیال کرتے ہوئے، اس کے لئے جدوجہد کرنے والا عامل ہے لیکن جب اُسے“مناسب” اور “معیاری” ماحول حاصل نہیں ہوتا، تو وہ اپنے حالات، گردونواح اور ماحول کا جائزہ لیتا ہے اور اپنے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ آخروہ کونسے عوامل ہیں جو اُس کے اس ماحول کے حصول کی راہ کی رکاوٹ بنتے ہیں۔
اپنے اس سوال کے جواب میں وہ سماج کے مختلف گروہوں، انفرادی سطح پر اس سمت میں کوشش کرنے والے افراد کی کوششوں اور حتیٰ کہ ریاستی ادارے کے کردار کا جائزہ لیتا ہے تو وہ پریشان ہوجاتا ہے اور اُسے ہر کوئی اپنی راہ کی رکاوٹ لگتا ہے۔ اُسے یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ سارا ماحول انسان کا پیدا کردہ ہے لیکن اس میں اسے اپنے لئے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی بلکہ اُسے محسوس ہوتا ہے کہ انسانوں میں سے چند ایک ہی اس پر قابض ہیں اور صرف وہی ان آسائشوں کے حصول کو اپنا زیادہ حق سمجھتے ہیں اور وہ اس ماحول پر اُس کے حق کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
جونہی یہ شعور اُس کے اندر پیدا ہوتا ہے، تو اُس وقت فرد ایک انسان نہیں رہتا بلکہ دو ہوجاتا ہے۔ یعنی ایک وہ فرد جو عام طورپر عملی زندگی میں اپنی مادی ضروریات اور “مناسب اور معیاری ماحول” کی تگ و دو میں پھر رہا ہوتا ہے اوردوسرا اُس کے اندر کا خیالاتی انسان ہوتا ہے جو اُس کے اندر رہنے کے باوجود باہر آنے کی آزادیوں سے محروم ہوتا ہے۔ وہ آزاد ہونے کے باوجود ایک کرب اور بے بسی کا شکار رہتا ہے۔
اس مرحلے پر انسان کی ایک سطح پر اپنے آپ سے بھی ایک کشمکش شروع ہوجاتی ہے تو دوسری سطح پر اپنے سماج، اپنی ریاست اور ریاستی مشینری کے ساتھ بھی ایک جنگ جاری رہتی ہے۔ یعنی باہر کا مادی انسان جو جتنا مادی ماحول اُسے نصیب ہوتا ہے، اُس میں زندگی بسر کرنے کے لئے بضد ہوتا ہے جبکہ اُس کے اندر کا انسان وہی مناسب یا معیاری جو اس کے لئے “مثالی” ماحول ہوتا ہے کو تلاش کرنے یا پھر اس طرح کا کوئی اور نیا ماحول تراشنے کی تگ ودو میں رہتا ہے۔
اس طرح حقیقی مادی انسان اور اُس کے اندر موجود رہنے والے تصوراتی اور خیالاتی انسان کے درمیان مسلسل جنگ رہتی ہے۔ تصوراتی اشخاص کی مختلف اقسام ہوسکتی ہیں۔ ایک قسم تو سادہ لوگوں کی ہوسکتی ہے جو اپنے تصورات میں فرد، سماج، ریاست اور ریاستی مشینری کو جیسے ہے اور جہاں ہے کی بنیاد پر قبول کرلیتے ہیں اور صرف اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اس میں ایڈجسٹ ہونے کے لئے صرف کرتے ہیں۔ عمومی طورپرافراد کا یہ گروہ مذل کلاس کے افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔
دوسری قسم علمی اور فکری سطح پر کاوش کرنے والے لوگوں کی ہے۔ اگرچہ ان افراد کو بھی مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں ہم ایک محدود دائرے میں اپنی توجہ افراد کے جمع غفیر میں صرف خود شناسی اور خود آگہی کے متلاشی افراد پر مرکز کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اس مرحلے پر خود شناسی کے عمل سے گزرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اُنہیں یہ آگاہی حاصل ہونا شروع ہوجاتی ہے کہ انسان حقیقت میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ جہاں تک “کیا ہے” کا سوال ہے تو وہ اپنی سرشت میں “کیا نہیں ہے” سے بہت زیادہ محدود ہے۔
“انسان کیا ہے” جیسے سوال کے جواب کے لئے وہ صرف اور صرف موجود اور موجودات سے متعلق رہتا ہے۔ اس کے برعکس “کیا نہیں ہے” کے حوالے سے اُس کے پاس وسیع تر امکانات کی دنیائیں ہوتی ہیں کیونکہ اسی “کیا نہیں ہے” میں اُس کے خیالی اور تصوراتی انسان کی دنیائیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ اُس کی ان دنیاؤں کی وسعت کا انحصار بھی اُس کے علم، تجربے اور مشاہدات کے تابع ہوتا ہے۔ جتنا اُس کا تجربہ اور مشاہدہ وسیع ہوگا اتنا ہی اُس کی خیالی اور تصوراتی دنیا وسیع ہوگی۔
اسی “کیا نہیں ہے؟” والے سوال سے نبردآزما ہونے والا انسان دراصل تصوراتی اور خیالاتی انسان ہوتا ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ایسے افراد کی اس قسم کی شخصیت سازی کے اصل محرکات یہی سماج اور خود اُس کا ماحول ہوتا ہے جو انہیں ردِعمل کے طور پر اس فکری عمل کی طرح مائل کرتا ہے۔ اس حوالے سے تمام تر فکری عمل مادے کے عمل اور اس کے ردِعمل کے امکانات کی دنیا ہوتا ہے۔ ایسے افراد سماج میں رہتے ہوئے بھی اپنی شناخت اور خود آگہی کے متلاشی ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے مختلف سماج ترقی کے مختلف مدارج پر ہوتے ہیں۔ تمام سماجوں کی ترقی یکساں نہیں ہے۔