ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز
برما کے روہنگیائی مسلمانوں پر جبر و ستم جاری ہے۔ ساری دنیا کی انسانیت نواز آواز بلند کررہے ہیں۔ جلاوطن بدھسٹ روحانی پیشوا دلائی لاما نے بھی مظلوم مسلمانوں کے ساتھ یگانگت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آج گوتم بدھ ہوتے تو روہنگیا کے مسلمانوں کا ساتھ دیتے۔ ہندوستان کے بعض اچھے خیالات کے حامل سادھو سنتوں نے بھی برما کے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور پناہ گزینوں کو واپس ان کے ملک بھیج دینے کی اطلاعات پر افسوس ظاہر کیا۔ برما میں جو کچھ ہورہا ہے وہ یقیناًافسوسناک، اندوہناک، المناک ہیں‘ تاہم اس کا مثبت پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ ہندوستانی مسلمان ایک طویل عرصہ بعد مسلکی‘ نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے لگا ہے۔ ایک عرصہ بعد ایک پلیٹ فارم پر دیوبندی، بریلوی، سلفی، شیعہ، مہدوی غرض کہ ہر فرقہ اور ہر طبقہ کے مسلمان نظر آنے لگے ہیں اور اُن سب نے ایک آواز ہوکر باہمی اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اللہ کرے کہ یہ جذبہ ہمیشہ قائم رہے۔ ہندوستانی مسلمان ہر دور میں اپنے دینی اور ملی بھائیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف متحد ہوتے رہے۔ ایران‘ عراق کی جنگ کے دوران یقیناً مسلکی جھگڑوں میں اور اس سے کہیں زیادہ اپنے مفادات حاصلہ کے لئے آپس میں تقسیم ہوئے۔ عراق اور کویت کے تنازعہ کے موقع پر بھی ہم تقسیم ہوئے۔ حالیہ عرصہ تک ایران کی مخالفت کرتے رہے۔ اس کی کئی وجوہات تھیں‘ مگر جب ترکی کی طرح ایران نے بھی میانمار حکومت کو وارننگ دی تو مسلکی اور نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلمانوں کی اکثریت نے ترکی اور ایران دونوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ یقیناًاس کے اثرات اُن مسلم ممالک کے سربراہوں پر بھی اثر انداز ہوں گے جنہیں عیش پسندی، بادشاہت نے نکما اور ناکارہ بنادیا۔ بقول صلاح الدین ایوبی کے: ’’جب دنیا کی محبت غالب ہوجاتی ہے تو تلواریں سرحدوں کو فتح کرنے کی بجائے رقص کے لئے استعمال کی جاتی ہیں‘‘۔
ہندوستانی مسلمان ہر دور میں اپنے کلمہ گو بھائیوں کے لئے تڑپتا رہا ہے۔ چاہے وہ فلسطین میں ہو یا لبنان میں۔ عراق، لیبیا، یمن میں ہو یا بوسنیا، چیچنیا میں۔ افغانستان کے پہاڑی علاقوں میں بمباری اور ڈرون حملوں کا شکار ہورہا ہو یا پڑوسی ملک میں مسلکی اختلافات اور تخریب پسندوں کی دہشت گردی کا شکار رہا ہو۔ ہر دور میں ہندوستانی مسلمانوں نے ظالم طاقتوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا۔ عراق پر حملے کے بعد مغربی طاقتوں کی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کیا۔ سربراہوں کے پتلے اور ان کے مالک کے قومی پرچموں کو اپنے قدموں تلے روندا، نذر آتش کیا۔ تاہم آج برما کے مسلمانوں کے لئے جس اتحاد کا مظاہرہ ہندوستانی مسلمان کررہا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ تخریب میں تعمیر کا پہلو ہے۔ برما کے حالات کے آئینہ میں شاید ہندوستانی مسلمانوں کے اپنا بھی عکس نظر آرہا ہے۔ شہری علاقوں میں تو پھر بھی مسلمان محفوظ ہیں‘ مگر دیہی اور سرحدی علاقوں میں ان کی حالت بہت خراب ہے۔ آسام، بہار، یوپی میں بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے نام پر آئے دن مسلمانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان کی شہریت کو چیالنج کیا جاتا ہے۔ اور کسی نہ کسی بہانے انہیں آزمائشی دور سے گزارا جاتا ہے۔ برما کے مسلمانوں کے ساتھ جو ہوتا آیا ہے‘ ہندوستانی مسلمان بھی بار بار ایسے دور سے گزرتے رہے ہیں۔ وطن عزیز کی تقسیم کے بعد کے حالات ہوں یا وقتاً فوقتاً اُن شہروں یا قصبوں میں ہونے والے مسلم کش فسادات جہاں مسلمانوں کو جانی نقصان بھی ہوا اور اس سے کہیں زیادہ انہیں معاشی طور پر کمزور کردیا گیا۔ جہاں جہاں مسلمانوں کی صنعتیں تھیں‘ اُن صنعتی اداروں کو تباہ و تاراج کیا گیا۔ مالکین کو یومیہ اجرت کے ملازمین بنادیا گیا۔ مرادآباد، میرٹھ، جمشیدپور، جلگاؤں، بھیونڈی، حیدرآباد کے فسادات کی اپنی خونچکاں تاریخ ہے۔ گجرات میں 1969ء اور پھر تب سے لے کر 2002ء تک کم از کم فسادات ہوئے۔ جس طرح سے جانی و مالی نقصان پہنچایا گیا اُس نے گجرات کے مسلمانوں کو کم از کم ایک صدی پیچھے کردیا۔ ممبئی میں کبھی میاں بھائیوں کا راج تھا۔ 1993ء کے فسادات کے بعد سے آج تک وہاں کے مسلمان سنبھلنے نہیں پایا۔ وہ فرقہ جو جو بظاہر مسلمان ہیں مگر اندرونی طور پر جن کے مسلم دشمن طاقتوں سے روابط بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ساز باز رہی ہے‘ اِن فرقوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا گیا۔ جس کا ثبوت ممبئی کے مسلم اکثریتی آبادی والے علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کی کوئی طاقت و اہمیت اور وقعت نہیں ہے۔
بہار، یوپی یا آسام کے حالیہ واقعات روہنگیا کے واقعات سے کیا کم تھے؟ کس طرح سے مظفرنگر میں مسلم لڑکیوں‘ شادی شدہ عورتوں کے ساتھ اجتماعی زنابالجبر کیا گیا۔ دادری کا واقعہ ہو یا ٹرین میں جنید کی شہادت کا‘ یا نام نہاد گاؤ رکھشک کے ہاتھوں غریب مسلم بیوپاریوں پر حملوں کے واقعات‘ کیا یہ روہنگیا کے واقعات سے کم ہیں؟ جس پر گزرتی ہے، جس کی گود سونی ہوتی ہے، جس کا سہاگ اجڑتا ہے، جو یتیم ہوجاتے ہیں کوئی اُن سے یہ سوال کرے۔ جس طرح سے ہندوستان میں بھی یہ حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘ اللہ رب العزت نے خواب غفلت میں سوئے ہوئے مسلمانوں کو جگادیا۔ انہیں برما کے مظلوم مسلمانوں میں اپنے مستقبل کے حالات نظر آنے لگے اور یہ اللہ کا شکر ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنے کلمہ گو بھائیوں کے لئے ہی سہی ایک پلیٹ فارم پر متحد تو ہوئے اب اس اتحاد کو برقرار رکھنا سب سے زیادہ اہم ہے۔ یقیناً ہر ایک کو اپنا عقیدہ‘ اپنا مسلک عزیز ہے۔ بلاشبہ ہم اپنے مسلک اپنے عقیدے پر قائم رہیں مگر مسلمانوں کی اجتماعیت کی بات آجائے تو ہم اُسی طرح ایک ہوجائیں جیسے برما کے مسلمانوں کے لئے ہونے لگے ہیں۔ ہمارا دشمن اس لئے بے خوف ہے کہ وہ جانتا ہے کہ ہم ایک خدا کے ماننے والے، ایک رسول کی امتی اور قرآن پاک کو اپنا دستور زندگی مانتے ہیں اور ایک ہی قبلہ رو ہوکر سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اُس کے باوجود ہم سینکڑوں خانوں میں تقسیم ہیں اس لئے وہ ہمیں آسانی سے ہر محاذ پر مات دے سکتے ہیں۔ ہم اپنے سے زیادہ اپنے آنی والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لئے صرف اپنی اَنا کو قربان کردیں، ایک ہوجائیں تو انشاء اللہ ہم ناقابل تسخیر ہوجائیں گے کیوں کہ ہمارا ہر دشمن بہت بزدل ہے۔ یہ ان کی بزدلی ہی تو ہے کہ وہ اسلام کے غالب آجانے کے خوف سے جبر و تشدد کا سہارا لیتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں اور اکابرین کا قول ہے کہ ’’ہر ظالم بزدل ہوتا ہے اور ہر رحم دل انسان بہادر ہوتا ہے‘‘۔ دنیا میں جتنے بھی ڈکٹیٹرس آئے اُن سب نے ظلم کے سہارے اپنے آپ کو اقتدار پر برقرار رکھا اور جب اقتدار چھن گیا تو بیشتر نے خودکشی کرلی۔ ہمارے جتنے بھی دشمن ہیں‘ چاہے کتنے ہی برسوں سے ہمیں مٹانے کے لئے منظم اور منصوبہ بند ہیں۔ جس دن ہم ایک ہوجائیں گے اُس دن وہ ہمارے سامنے سے تنکوں کی طرح اُڑجائیں گے۔ کیوں کہ یہ موت سے ڈرتے ہیں۔ مسلمان تو شعور میں آنے سے پہلے ہی سے ہی یہ جاننے لگتا ہے کہ موت برحق ہے‘ جو بھی ہونا ہے وہ ہوکر رہتا ہے۔ تقدیر پر اس کا ایمان ہوتا ہے۔ تاہم وہ تدبیر کا دامن بھی نہیں چھوڑتا۔
برما کے مسلمانوں کیلئے جماعت اسلامی، جمعےۃ علمائے ہند کے بشمول جو جو جماعتیں، ادارے اور تحریکات کام کررہی ہیں‘ مسلم رائے عامہ کو ہموار کررہی ہے‘ قابل مبارکباد ہیں۔ اُن کے جلسوں اور ریالیوں میں بریلوی، سلفی، دیوبندی اور دوسرے مکاتب فکر کے علمائے کرام نظر آتے ہیں تو عام مسلمان خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ عام مسلمان اتحاد چاہتا ہے۔ اور آج جو اتحاد کی فضا، ماحول بن رہا ہے اسے برقرار نہ رکھا گیا تو خدا اور اس کے بندے ہمارے سیاسی قائدین، مذہبی رہنماؤں کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ یقیناًہر ایک کی اپنی اپنی دکان ہے مگر یہ اُسی وقت چلتی رہے گی جب مسلمانوں کی معاشی حالت بھی بہتر ہو۔ اگر آنے والے دنوں میں مسلمانوں کو خدا نہ کرے برما جیسے حالات سے گذرنا پڑے۔ تو اِن دکانوں کا کیا ہوگا۔ لہٰذا مسلم قیادت بھی اپنی طاقت میں اضافہ کیلئے مسلمانوں کے باہمی اتحاد کے لئے ممکنہ کوششیں اور مذہبی پیشوا بھی کلمہ توحید کی بنیاد پر ملی اتحاد کو یقینی بنانے کیلئے اپنے طور پر کوشش کرے ورنہ قیامت کے دن یہی جبے اور دستار والے جہنم میں گھسیٹے جائیں گے۔ اتحاد ملی کیلئے ان کی کوششیں اُن کیلئے اُن کی آخرت میں کامیابی کا ضامن ثابت ہوں گی۔
سوشیل میڈیاپر دیوبندی، سلفی اور بریلوی مسلک کے ماننے والوں میں بعض یہودی ایجنٹس نفرت پیدا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اِن حرامیوںکے خلاف جو ملت کے اصل دشمن ہیں‘ سائبر کرائم کے تحت مقدمات درج کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات دعویٰ سے کہی جاسکتی ہے کہ کوئی بھی سچا مسلمان دو مسلم گروہوں کے درمیان نفرت اور دشمنی پیدا نہیں کرسکتا۔ ان کا تعلق یا تو خارجی فرقوں سے ہوگا یا پھر یہود و نصاریٰ سے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)