-
وقف قانون: خوداحتسابی کی ضرورت
- سیاسی
- گھر
وقف قانون: خوداحتسابی کی ضرورت
213
M.U.H
14/04/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
صدر جہوریہ کی مہر کے بعد وقف ترمیمی بل نے قانونی شکل اختیارکرلی ہے ۔ہندوستان کا بچہ بچہ یہ بات بخوبی جانتاتھاکہ اس بل کو پاس ہونے سے روکا نہیں جاسکتا۔کیونکہ مسلمانوں کے پاس مخالفت کے لئے کوئی منظم لایحۂ عمل نہیں تھا۔سب کی اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ تھا۔مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ جب انہیں مزاحمت کرنی چاہیے وہ منصوبہ سازی میں مصروف ہوتے ہیں اور جب حکمت عملی پر غوروخوض کرناچاہیے وہ مزاحمت کررہے ہوتے ہیں۔نہ تو ان کے پاس مزاحمت کا لایحۂ عمل ہوتاہے اور نہ حکمت عملی ترتیب دینے والے مخلص افراد۔ان کی اکثر تنظیموں میں مسلم راشٹریہ منچ کے لوگ بھرے پڑے ہیں جو اُنہیں کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں ۔مسلمان بلاوجہ یہ توقع کررہے تھے کہ وقف بل کے خلاف شاہین باغ جیسی تحریک معرض وجود میں آئے گی ۔شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کا مسئلہ پورے ہندوستان سے جڑاہواتھا،اس کے باوجود ملک کی بڑی آبادی اس کے حق میں تھی ۔وقف کا مسئلہ تو بالآخر صرف مسلمانوں سے مربوط ہے ۔دوسرے یہ کہ وقف کا مسئلہ عام مسلمانوں سے جڑاہوانہیں ہے اور نہ اُسے عوامی بنانے کی کوشش کی گئی ۔اس کی ایک وجہ اوقاف کا عوامی مفاد میں عدم استعمال بھی ہے ۔اگر اوقاف سے براہ راست عوام کو فائدہ پہونچ رہاہوتاتو لوگ بلادریغ سڑکوں پر احتجاج کے لئے نکلتے ۔البتہ مسلم رہنمائوں نے مذہبی عمارتوں کے بہانے اس بل کو عوامی جذبات سے جوڑنے کی کوشش کی مگر اس میں بہت کامیابی نہیں ملی ۔
وقف بل کے خلاف جن لوگوں نے شدومد کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کی ،اُن کی اکثریت اوقاف پر قابض ہے ۔یہ لوگ اوقاف کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہوئے من مانے ڈھنگ سے جیسے چاہتے ہیں اس کا استعمال کرتے ہیں ۔اس کے خلاف جب کوئی آواز اٹھاتاہے تو یہ طبقہ اس مخالفت کو قومی رنگ دینے کی کوشش کرتاہے تاکہ ملت کو اپنی حمایت میں سڑکوں پر اتاراجاسکے ۔اس طرح یہ طبقہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے قوم کا جذباتی استحصال کرتاہے جیساکہ مختلف ریاستوں میں دیکھاگیاہے۔مسلم رہنمابڑے بڑے اوقاف پر قبضے کئے ہوئے ہیں ۔اگر یہ لوگ مخلص ہوتے تو اوقاف کو وقف ناموں کے لحاظ سے استعمال کرتے،مگر وقف ناموں کا پاس کبھی نہیں رکھاگیا ۔اوقاف کی تباہی میں جتنا کردار وقف بورڈ ،سرکار اور متعلقہ وزارت کا ہے اس سے زیادہ متولیوں کی بددیانتی اور بدعنوانی کا بھی ہے ۔اس بدعنوانی کو روکنا سرکار کی ذمہ دارتھی کیونکہ وقف بورڈ اسی کے تحت آتاہے۔مگر نہ تو اس ذمہ داری کو وقف بورڈ نے سمجھااور نہ سرکار نے ۔سرکار نے تو تمام بدعنوانیوں کا ٹھیکرامسلمانوں کے سر ہی پھوڑ دیاہے ،اس لئے اب وقف بورڈ بھی اس سے بری ہے اور سرکار بھی ۔وقف بورڈ کی بدعنوانیوں پر تو مسلمانوں سے سوال ہی نہیں کیاجاناچاہیے ۔کیونکہ وقف بورڈ سرکار کی نگرانی میں بنتااور بگڑتاہے ۔وقف بورڈ میں مسلمان اپنی مرضی کا ایک ممبر نہیں بنواسکتے چہ جائیکہ وہ ملت کے مفاد میں کوئی منصوبہ تشکیل دے سکیں ۔وقف بورڈ کا چیئرمین سرکار کانمائندہ ہوتاہے اس لئے وہ اپنی مدت کار میں سرکاری منصوبوں کو عملی جامہ پنہانے کی کوشش کرتاہے ۔اسے ملت کے مفاد اور وقف ناموں کے شرائط سےکوئی سروکار نہیں ہوتا۔اوقاف کی جو زمینیں ناجائز طریقوں سے فروخت کی گئی ہیں ان کے لئے تنہا متولیوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایاجاسکتا۔متولیوں کےساتھ وقف بورڈ کے اراکین اور اکثر جگہوں پر چیئرمین بھی ان کے ساتھ ملوث ہوتاہے ۔یہ عمل پورے ہندوستان میں جاری ہے تنہا کسی ایک ریاست کو نشانہ نہیں بنایاجاسکتا۔اکثر ریاستوں میں مسلمان وقف میں جاری بدعنوانیوں پر اس لئے خاموش رہتے ہیں کیونکہ انہیں وقف سے کوئی فائدہ نہیں پہونچتا ۔عوامی استعمال میں وہی اوقاف ہیںجن پر مذہبی عمارتیں بنی ہوئی ہیں ،البتہ وہاں بھی وقف بورڈ کا عمل حد سے زیادہ بڑھاہواہے ۔ متولی کی حیثیت کسی ڈکٹیٹر سے کم نہیں ہوتی کیونکہ اسے وقف بورڈ کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے ۔ان اوقاف میں مساجد ،خانقاہیں ،درگاہیں ،مزارات اورامام باڑے شامل ہیں ۔بعض کمیٹیاں تو برائے نام بنادی گئی ہیں جب کہ ان کا ساراکام کاج وقف بورڈہی دیکھتاہے ۔حتیٰ کہ جب کوئی پروگرام منعقد ہوتاہے تو کمیٹی اپنی مرضی سے مہمانوں کے انتخاب کی مجاز بھی نہیں ہوتی اس میں بھی وقف بورڈ مداخلت کرتاہے یا اپنے پسندیدہ کسی غیر متعلقہ شخص کو کمیٹی پر تھوپ دیتاہے ۔چونکہ کمیٹی کے افراد بھی وقف کے تئیں مخلص نہیں ہوتے یا ان میں بیداری کی کمی ہوتی ہے اس لئے یہ غیر قانونی عمل پھل پھول رہاہے ۔
مسلمانوں نے سرکار کو خود یہ موقع فراہم کیاہے کہ وہ اوقاف کی زمینوں پر متصرف ہوجائے ۔اس کے لئے مسلم سیاسی رہنمائوں سے زیادہ علما ذمہ دار ہیں ۔لہذا نتیش کمار اور چندر بابونائیڈوکو کوسنے کے بجائے خود احتسابی کی ضرورت ہے ۔بی جے پی کی حمایت میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے والے علما بتلائیں کہ انہوں نے وقف بل کو قانون بننےسے روکنے کے لئے کیا موثر اقدامات کئے ۔اکثر تو اوقاف کے مسائل سے بھی ناواقف ہیں اس لئے انہیں مشترکہ پارلمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے بچناچاہیے تھا۔مگر دیکھا یہ گیاکہ ہر کوئی اس ہوڑ میں تھاکہ اس کو جے پی سی کی طرف سے دعوت دیدی جائے تاکہ وہ علما اور ملت کے درمیان اپنی نمائندگی کا بکھان کرسکیں ۔بعض نومولودمولوی بھی جے پی سی کے سامنے پیش ہوئے جب کہ انہیں وقف کے سطحی مسائل کے علاوہ زیادہ کچھ معلوم نہیں تھا۔انہیں اس معاملے کی نزاکت کا علم ہوناچاہیے تھاکہ جے پی سی وقف بل پر جائزے کے لئے بنائی گئی ہے لہذا ان کے پاس نافذالعمل قانون اور ترمیمی بل کی مکمل معلومات ہونی چاہیے تھی ۔اس کے علاوہ انہیں ہر ریاست میں یا کم از کم اپنی ریاست میں وقف کے موجودہ مسائل سے آگاہ ہوناچاہیے تھا،مگر جسے بھی ہم نے بات کرتے سناوہ سرسری انداز میں وقف بل پر تبصرہ کررہاتھا۔چونکہ مسلمانوں کے پاس کوئی نمائندہ قیادت نہیں تھی اس لئے ہر کوئی اپنی قیادت کا دعویٰ پیش کررہاتھا ۔احتجاجوں میںبھی منظم لایحۂ عمل کی ضرورت تھی جس کا فقدان نظر آیا۔کم ازکم مسلمان علما بلاتفریق مسالک ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوتے اور سرکار سے وقف بل کی واپسی کا مطالبہ کیاجاتا۔مگر عمومی دعوت کے علاوہ مختلف مسالک کے علما کو بلاتفریق دعوت نہیں دی گئی ۔آخر یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ علما بغیر خصوصی دعوت کے کسی جلسے یا احتجا ج میں شریک ہوجائیں گے ؟کیا علما اپنی برداری کی انانیت سے واقف نہیں ہیں؟اس لئے عمومی اعلان کے ساتھ بلاتفریق مسالک خصوصی دعوت نامے بھی بھیجے جاسکتے تھے ،مگر ایسانہیں ہوا۔یہی وجہ ہے کہ وقف بل کے خلاف کوئی نمائندہ احتجاج نہیں ہوا۔
مسلمانوں کو یہ بھی €ذہن میں رکھناہوگاکہ وقف ترمیمی قانون کی واپسی آسان نہیں بلکہ ناممکن عمل ہے ۔سرکار نے اس بل کو ’ملکی مفاد‘ سے جوڑ دیاہے ۔ہندوستان کا عام شہری یہ سمجھتاہے کہ اوقاف پر سرکاری تصرف سے ملک کے اقتصادی اور معاشی مسائل حل ہوجائیں گے ۔یقیناً یہ ایک ڈھکوسلہ ہے مگر اُس دیش میں جہاں مودی جی اور امیت شاہ کےہر بیان کو حجت سمجھاجاتاہو،وہاں ان کے طلسم کوتوڑناآسان نہیں ۔اس وقت وزیر اعظم اور وزیر داخلہ تاریخ ،اقتصاد ،ٹیکنالوجی ،غرض کہ ہر شعبے کے ماہرین سے بھی زیادہ عالم اور تجربہ کار ہیں ۔ان کے خلاف بولنا اپنی شامت کو آواز دیناہے ۔ایسی تشویش ناک صورتحال میں احتجاج کے لئے سڑکوں پراترنا وقت کے تقاضے کے برخلاف ہے ۔بہترہوگاکہ مسلمان پہلے اپنی صفوں میں اتحاد پیداکریں ۔اپنے مسائل کے حل کے لئے مضبوط قیادت کو وجود میں لایاجائے ۔بغیر قیادت کے نہ تو احتجاج موثر ہوتاہے اور نہ آپ کی آواز سرکار کے کانوں تک پہونچتی ہے ۔احتجاج برائے احتجاج سےصرف ’بلڈوزر کلچر ‘ کو مزید فروغ ملے گااور نوجوانوں پرفرضی مقدمات تھوپے جائیں گے ۔یقیناً یہ مزاحمت کا وقت ہے مگر بغیرقیادت اور منظم لایحۂ عمل کے لئے کامیابی کی امید نہ رکھی جائے !