-
سوالوں میں گھرے مستقبل سے فکر مند ہندوستانی مسلمان
- سیاسی
- گھر
سوالوں میں گھرے مستقبل سے فکر مند ہندوستانی مسلمان
4
M.U.H
03/12/2024
0
0
تحریر:عبیداللہ ناصر
ہندوستانی سیاست میں 2014 یعنی مودی دور کے آغاز سے پہلے ایک سوال جو عام ہندوستانی مسلمان کے لیے سوچنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا، آج سب سے زیادہ اس کے ذہن کو پریشان کر رہا ہے۔ یہ سوال ہے کہ مودی، یوگی اور امت شاہ کے ہندوستان میں اس کا اور اس کی آئندہ نسلوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ جب وہ ان سوالات کے جواب تلاش کرتا ہے اور تاریخ کے دریچوں میں جھانکتا ہے تو اسے کبھی کربلا یاد آتی ہے، کبھی بغداد پر ہلاکو خان کا قبضہ، دہلی پر نادر شاہ کا حملہ، نازی جرمنی میں یہودیوں کا قتلِ عام، غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی، سری لنکا میں بودھوں کے ہاتھوں ہندو تملوں کا قتل عام اور بوسنیا ہرزیگووینا جیسے خونریز واقعات۔ یہ تمام مناظر اس کی روح کو ہلا دیتے ہیں۔
ہندوستانی مسلمانوں نے 2014 سے پہلے بھی فسادات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جھیلا، لاکھوں جانیں گنوائیں اور کھربوں کی املاک نذرِ آتش ہوئیں۔ ان کے زخموں پر زخم لگتے رہے لیکن ان کا ہندوستانی قومیت پر اعتماد کبھی متزلزل نہیں ہوا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اُس وقت زخم دینے والے کم تھے اور مرہم رکھنے والے زیادہ۔ حکومتیں انہیں اپنا دشمن نہیں سمجھتی تھیں اور عدالتیں بھی، چاہے مکمل طور پر نہ سہی لیکن کسی حد تک ضرور انصاف کے تقاضے پورے کرتی تھیں۔ آج ہندوستانی مسلمان اپنے بزرگوں کے پاکستان نہ منتقل ہونے کے فیصلے پر فخر کرنے کے بجائے کبھی کبھار یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ کہیں وہ فیصلہ غلط تو نہیں تھا؟ ساورکر اور جناح کے دو قومی نظریے کے جس عفریت کو ہمارے روشن ضمیر لیڈروں نے 65-70 برسوں میں دفن کر دیا تھا، وہ مودی دور کے آغاز کے ساتھ ہی دوبارہ خون آلود منہ لے کر سر اٹھا رہا ہے۔ یہ مسئلہ اب صرف ہندوستانی مسلمانوں تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ ہندوستان کے وجود اور مستقبل سے بھی جڑ گیا ہے۔
ہمیں زیادہ دور ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں، پچھلی صدی کے چند واقعات ہی کافی ہیں۔ جہاں کہیں بھی اکثریتی بالادستی، اقتدار کے نشے اور نفرت نے سر اٹھایا، وہاں تباہی کا سامنا ہوا۔ نازی جرمنی میں ہٹلر نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قتل عام کیا لیکن نازی جرمنی اور خود ہٹلر کا انجام کیا ہوا؟ یوگوسلاویہ، جو عالمی برادری کا ایک اہم رکن تھا، نسلی فساد کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ سری لنکا میں سنہالا بودھوں نے اقلیتی تمل ہندوؤں کی نسل کشی کی کوشش کی لیکن تمل ہندو وہاں سے ختم نہیں ہوئے۔
پاکستان آج اپنی لگائی ہوئی آگ میں جھلس رہا ہے اور اسرائیل پچھلے 75 برسوں سے فلسطینیوں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن کامیاب نہیں ہو سکا۔ ہندوستان کے 25 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ بات ان کے وجود کے دشمنوں کو سمجھ لینی چاہیے کہ نہ انہیں بحرِ ہند میں ڈبویا جا سکتا ہے، نہ کسی اور ملک دھکیلا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان سب کی نام نہاد ’گھر واپسی‘ کرائی جا سکتی ہے۔ ہندوستانی مسلمان اس ملک کا ناقابل تنسیخ حصہ ہیں۔ انہیں مٹانے کی کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کی جائیں، وہ اسی مٹی میں جئیں گے اور اسی مٹی میں دفن ہوں گے۔ دو راستے واضح ہیں، ایک امن، سکون اور بقائے باہم کے ساتھ ترقی اور خوشحالی کا؛ اور دوسرا نفرت، تشدد اور تباہی کا۔ فیصلے کی ذمہ داری سب پر ہے۔
15 اگست 1947 کو آزادی تقسیم کے زخم کے ساتھ آئی تھی لیکن اس کے باوجود اُس وقت کے رہنماؤں نے دلوں میں کوئی تلخی نہیں رکھی۔ انہوں نے ہندوستان کو ایک سیکولر اور جمہوری ملک بنا کر دنیا کے سامنے محبت اور بھائی چارے کی ایک مثال پیش کی۔ ملک کے تمام شہریوں کو بلا تفریق مذہب، ذات، علاقہ اور زبان مساوی حقوق دیے گئے اور ان حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری ایک خود مختار عدلیہ کو سونپی گئی۔ قانون ساز اداروں میں اکثریت حاصل کر کے کوئی حکومت آمر نہ بن جائے اور اقتدار ایک پارٹی یا فرد تک محدود نہ رہے، اس مقصد کے لیے خود مختار آئینی ادارے قائم کیے گئے لیکن مودی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی ان اداروں میں سنگھی شاکھاؤں سے وابستہ افراد کو اہم عہدوں پر بٹھا کر انہیں اپنا حلقہ بگوش بنا لیا۔
جمہوریت کی بقا کے لیے تمام اداروں کی خود مختاری اہم ہے لیکن عدلیہ، الیکشن کمیشن اور میڈیا کو جمہوریت کی شہ رگ کی حیثیت حاصل ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں ان تینوں اداروں میں جو انحطاط آیا ہے، اس نے جمہوریت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ عدلیہ کے فیصلوں نے عوام کا اعتماد متزلزل کر دیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ایودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ اس کے علاوہ عدلیہ کا وہ فیصلہ جس نے مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ کھڑا کیا، وہ 1991 کے عبادت گاہ تحفظ قانون کو کمزور کرنے کا اقدام ہے۔
ملک میں مسلم دور میں تعمیر شدہ عمارتوں، خصوصاً مساجد کے حوالے سے سنگھ پریوار کے تاریخ دان آئے دن نئے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ انہیں ہر قدیم مسجد یا مزار کے نیچے کسی ہندو عبادت گاہ کا وجود نظر آتا ہے۔ نرسمہا راؤ کی قیادت میں کانگریسی حکومت نے اس تنازع کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی نیت سے 1991 میں عبادت گاہ تحفظ قانون بنایا، جس کے تحت 15 اگست 1947 کو جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی، اسے اسی حالت میں برقرار رکھنے کا حکم دیا گیا۔
تاہم، سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے اپنے فیصلے سے اس قانون کی بنیاد کمزور کر دی۔ انہوں نے عبادت گاہوں کے سروے کی اجازت دی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ عمارتیں پہلے کیا تھیں۔ اس سروے کا نتیجہ سنگھ پریوار کے دعوؤں کے حق میں جانے کا امکان ہے، جس کے بعد رام مندر کی طرز پر مہم چلائی جائے گی اور ملک میں مسلسل فرقہ وارانہ کشیدگی برقرار رہے گی۔
وارانسی کی گیان واپی مسجد کے بعد سنبھل کی جامع مسجد اور اجمیر میں خواجہ غریب نواز کی مزار کے سروے کے احکامات مقامی عدالتوں سے جاری کیے گئے۔ اس کے نتیجے میں سنبھل میں بدامنی پھیلی، اور پانچ بے گناہ مسلم نوجوان شہید کر دیے گئے۔ اگر اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو انسانی خون کا یہ سلسلہ نہ جانے کتنے اور سنبھل پیدا کرے گا۔
بی جے پی اس فرقہ وارانہ ماحول کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ وہ اس آگ کو مزید ہوا دے رہی ہے اور ہندوستان کی سرزمین کو مسلمانوں کے خون سے سرخ کر رہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو یہ ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور جمہوریت دونوں کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔
تمام تر ناامیدیوں کے باوجود آج بھی آخری سہارا عدالتیں ہی ہیں۔ بلڈوزر سیاست، ظلم، اور مدرسوں کے خلاف کارروائیوں کے باوجود علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی برقراری اور آئین کے پیش لفظ میں ’سیکولر‘ اور ’سوشلسٹ‘ الفاظ کو برقرار رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے نے عدلیہ کی ساکھ کو کسی حد تک بحال کیا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند اور ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کی کاوشوں سے کئی اہم مقدمات میں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ عبادت گاہوں کے سروے کے فیصلے کے خلاف بھی یہی دونوں تنظیمیں سپریم کورٹ گئیں ہیں۔ امید ہے کہ معزز جج صاحبان اس معاملے کی سنگینی اور اس سے ملک کو لاحق خطرات کو سمجھتے ہوئے جسٹس چندرچوڑ کے فیصلے کو مسترد کریں گے اور 1991 کے عبادت گاہ تحفظ قانون کی سختی سے پابندی کا حکم دیں گے۔
یہ حکم ضلعی عدالتوں کو دیا جانا چاہیے تاکہ مزید فرقہ وارانہ کشیدگی اور سانحات سے بچا جا سکے اور ملک کو دوبارہ کسی ’سنبھل‘ جیسے المناک واقعے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ عدالتوں سے یہ امید برقرار ہے کہ وہ آئین کے تحفظ اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ملک کو امن اور سکون کی راہ پر گامزن کریں گی۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)