-
اجودھیا تنازعہ۔فیصلہ قبول ۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔
- سیاسی
- گھر
اجودھیا تنازعہ۔فیصلہ قبول ۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔
1150
m.u.h
16/11/2019
0
0
سراج نقوی
گذشتہ کئی دہائیوں سے ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو مسموم کرنے والے اجودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ بالآ خر آگیا۔کیونکہ وزیر اعظم اور ان کی جماعت بی جے پی و آر ایس ایس بلکہ چند نام نہاد مسلم لیڈروں کا بھی اسرار ہے کہ اس فیصلے کو کسی فریق کی شکست یا کسی کی فتح کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے اس لیے ایسے کسی تبصرے سے گریز میں ہی عافیت ہے۔اس کے باوجود اس فیصلے پر ملک کے غیر جانبدار اور سیکولر طبقے نے اور خود چند مسلم لیڈروں نے جس مایوسی کا ا ظہار کیا اس کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ حکومت کے ہدایت ناموں اور سرکاری اہلکاروں کے خوف میں حقائق سے چشم پوشی صحافتی بددیانتی کے مترادف ہے۔خصوصاً ٓزاد ہندوستان کی تاریخ کے سب سے بڑے تنازعہ پر صرف حکومت ،انتظامیہ اور عدلیہ کی قصیدہ خوانی کرکے گزر جانے والوں اور فیصلے کے منصفانہ جوازپر لب کشائی نہ کرنے والوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کریگی۔
فیصلے کے تعلق سے سب زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مسلمان طویل عرصے سے یہ موقف ظاہر کرتے رہے ہیں کہ وہ اجودھیا تنازعہ پر دیے گئے ہر فیصلے کو قبول کرینگے اور انھوں نے ایسا کرکے اپنے قول و فعل میں ثابت قدم رہنے کا ْثبوت پیش کیا ہے۔لیکن فیصلے کق قبول کرنا ایک بات ہے اور اس پر مطمئن نہ ہونا دوسری بات ۔فیصلہ قبول کرنا اس بات کو بھی ثابت کرتا ہے کہ مسلمان ملک کے آئین اور عدلیہ کے تعلق سے جس احترام کا ظہار کرتے رہے ہیںوہ محض زبانی دعووں تک محدود نہیں۔لیکن جہاں تک عدالتی فیصلے پر سوال کھڑے کرنے کی بات ہے تو یہ سوال صرف مسلمانوں کی طرف سے ہی نہیں بلکہ غیر جانبدار اور غیر مسلم قانونی ماہرین کی طرف سے بھی کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ان میں خود سپریم کورٹ کے کئی ریٹائرڈ جسٹس بھی شامل ہیں۔اپنے بیانات کے سبب ہمیشہ میدیا کی توجہ کا مرکز بنے رہنے والے جسٹس کاٹجو نے اجودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے تعلق سے کہا ہے کہ ’’یہ سوچنا ہی حماقت ہوگی کہ عدالتی فیصلہ فرقہ وارانہ امن کی برقراری میںمددگار ہوگا۔‘‘کاٹجو نے فیصلے کے تعلق سے کئی ایسے قانونی اور آئینی سوالات اٹھائے ہیں کہ جن کا فی الحال کسی کے پاس کوئی جواب نہیں
ہے۔سپریم کورٹ کے ہی ایک اور سابق جسٹس اے کے گانگولی نے فیصلے پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ
’’سپریم کورٹ کی یہ آئینی ذمہ داری ہیکہ وہ سب کے حقوق کی حفاظت کرے،اس میں اقلیتی طبقے بھی شامل ہیں۔اس ملک کے لوگ کیا دیکھینگے۔۔۔یہاں ایک مسجد تھی جسے ۱۹۹۲ میں توڑ دیا گیا۔اس زمین پر سپریم کورٹ ایک مندر بنانے کی اجازت دے رہا ہے۔۔۔۔کن ثبوتوں کی بنیاد پر‘‘۔سپریم کورٹ کے ایک اور سابق جسٹس جے ایس ورما نے فیصلے پر اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ ’’سپریم کورٹ سپریم ہے لیکن خطا کے امکان سے مبّرا نہیں‘‘۔سپریم کورٹ کے ان سابق ججوں کے تبصرے کے بعد اب ان نکات پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ جو عدالتی فیصلے پر سوال کھڑے کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے کے روز یعنی ۹ نومبر کو سنائے گئے مذکورہ تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ۱۹۴۹ میں مسجد میں مورتیوں کا رکھا جانا غیر قانونی تھا۔سوال یہ ہے کہ اگر مورتیوں کا رکھا جانا غیر قانونی تھا تو عدالت کو انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وہاں سے مورتیاں ہٹانے کا حکم دیکر ایک غیر قانونی عمل کو روکنا چاہیے تھا،لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔اسی طرح عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی تسلیم کیا کہ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو مسجد کاا نہدام بھی غیر قانونی تھا،لیکن اس رائے کے باوجود عدالت نے مسجد کی تعمیر نو کا حکم دینے سے گریز کیا اور ایسا کرنے کے مظبوط ا سباب بھی بیان نہیں کیے گئے۔حتیٰ کہ مسجد انہدام کے مجرموں کو سزا دلانے کے تعلق سے بھی فیصلہ خاموش ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میںیہ بھی مانا کہ کوئی مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی جیسا کہ مندر کے طرفداروں کا دعویٰ تھا۔جب مندر توڑ کر مسجد بنائے ہی نہیں گئی تو پھر مسجد انہدام کے گناہ گاروں کو مندر تعمیر کی اجازت دینے کی کیا وجہ ہے؟اس میں کوئی شک نہیں کہ بابری مسجد کے تعلق سے کیے گئے سپریم کورٹ کے مذکورہ تبصرے مسجد کے دعویداروں کی اخلاقی جیت کا ثبوت ہیں،لیکن صرف اخلاقی جیت کا تحفہ دے کر کسی فریق کو اس کے آئینی اور قانونی حق سے محروم کرنا انصاف کے تقاضوں کے مطابق قرار نہیں دیا جا سکتا۔اسی لیے اسے کئی مسلم دانشوروں نے بھی سچائی اور ثبوتوں کو نظر انداز کرنے والا فیصلہ قرار دیا ہے۔حیدر آباد کی نلسار یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ممتاز ماہر آئین و قانون پروفیسر فیضان مصطفی نے سپریم کورٹ کے فیسلے پر جو تبصرہ کیا ہے وہ خصوصاً قابل غور ہے۔موصوف کا کہنا ہے کہ عدالت نے ’’عملی سچائی‘‘ کو سامنے رکھا‘‘ ۔اس بات کو پلٹ کر کہا جائے تو اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ عدالت نے ’’قانونی سچائی‘‘ کو سامنے نہیں رکھا۔باالفاظ دگر عدالت نے ملکیت کے مقدمے میں حق ملکیت کی جگہ ’’آستھا‘‘کو جگہ دی بھلے ہی ایسا فیصلے میں نہ کہا گیا ہو۔فیضان مصطفی کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیصلہ قانون کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔سب سے اہم بات فیضان مصطفی نے فیصلے کے تعلق سے یہ کہی ہے کہ ’’اس فیصلے میں تضاد ہے اور مستقبل میں اس سے پریشانی کا اندیشہ ہے۔‘‘یہ پریشانی کیا ہوسکتی ہے اس پر فی الحال قیاس آرائی کرنا مناسب نہ ہوگا،لیکن اہم بات یہ ہے کہ فیصلہ آنے کے بعد مسلمانوں نے نہایت صبر و تحمل کا مظاہرہ کیااور اس معاملے میں پہلے سے پائے جانے والے خدشات اور اندیشوں کو غلط ثابت کرکے اپنے امن پسند ہونے کا ثبوت دیا،لیکن ظاہر ہے اس کا یہ مطلب نکالنا قطعاً غلط ہوگا کہ فیصلہ ان کے لیے سامان مسرت فراہم کرنے والا ہے۔سچ یہی ہے کہ تمام غیر جانبدار اور سیکولر عناصر نے فیصلے کے تعلق سے اظہار عدم اطمینان کیا ہے۔مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے فیصلے کو ’’حقائق پر آستھا کی جیت‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور یہ مختصر سا جملہ ہندوستانی مسلمانوں کے احساسات کی عکاسی کرتا ہے۔لیکن فیصلے کے تعلق سے سب سے افسوسناک موقف اس کانگریس کا ہے کہ جس نے مسلم ووٹوں کے سہارے ۶ دہائی سے زیادہ عرصے تک ملک پر حکومت کی۔اس عرصے میں بابری مسجد میں مورتیاں رکھے جانے کا غیر قانونی کام ہوا۔کانگریس کے دور اقتدار میں مسجد کا تالا کھول کر وہاں پر پوجا کی اجازت دی گئی اور مرکز میں کانگریس کی حکومت میںہی مسجد انہدام کا وہ جرم انجام دیا گیا کہ جس نے بر صغیر کے مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔اب سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد کانگریس نے اپنی سیکولرزم کی نقاب کو کنارے رکھ کر کہا ہے کہ وہ مندر تعمیر کے حق میں ہے۔کانگریس کا یہ موقف بھی قابل قبول ہو سکتا تھااگر وہ اس کے ساتھ کم از کم یہ مطالبہ بھی کرتی کہ مسجد انہدام کے مجرموں کو سزا دی جائے اور اب مندر تعمیر کا کام انھیں سونپ کر عدالت مسجد انہدام کے مجرموں کو بالواسطہ کلین چٹ نہ دے،
لیکن بزدل کانگریس لیڈروں میں یہ حوصلہ بھی نہیں ہے۔جہاں تک عام مسلم قیادت کا تعلق ہے تو اسد الدین اویسی،یا جمیعت علماء کے علاوہ صرف چند نام ہی ایسے ہیں کہ جنھوں نے فیصلے کی قصیدہ خوانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا اور اس پر کھل کر اپنا موقف رکھا۔کئی مذہبی رہنمائوں نے اجیت ڈوبھال کی طرف سے بلائی گئی ہندو اور مسلمانوں کی مذہبی قیادت کی میٹنگ میں شریک نہ ہو کر اپنا موقف ظاہر کر دیا ورنہ تو یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ بیشتر مسلم لیڈر تو عدالت کے فیصلے پر اظہار عدم اطمینان سے بھی بچتے رہے۔