وقاص چودھری
یہ نام اور اس عظیم ہستی کی تاریخی، مذہبی رواداری اور اس کی طرزِ حکمرانی کی داستان تو پاکستان میں شاید صرف نصابی سرگرمیوں کی کتب تک ہی محدود رہ گئی ہے۔ تاریخ گوئی اور تاریخ سے سبق و رموز کی واقفیت ہمارے نوجوانوں اور خاص کر نئی ‘پود’ (نسل) کیلئے بہت سُود مند اور ضروری ہے، مگر شاید ہم اس کی جستجو اور شگف نہیں رکھتے جس کی ضرورت کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔
ٹیپو سلطان کے یومِ شہادت پر اسے اس سے بہترین خراجِ عقیدت اور کیا دیا جا سکتا ہے کہ اس موقع پر ان کی شخصیت کے شاندار اور خوبصورت پہلوئوں کو اجاگر کیا جائے اور دنیا کو بھی حقیقتِ حال سے روشناس کرایا جائے۔
چار مئی کی تاریخ ٹیپو سلطان کی شہادت کا دن ہے اور شہادت اس لیئے کہ اس نے برصغیر کو انگریزوں کی غلامی سے بچانے کیلئے نہ صرف اپنی حکومت کی قربانی دی بلکہ خود بھی قربان ہوگیا۔ اس عظیم سپوت نے انگریزوں سے لڑائی لڑتے لڑتے آخر 04 مئی 1799ء کو شہادت کے درجے پر فائز ہوگیا۔ حالانکہ اس عظیم سپوت کے پاس اپنی جان اور اپنی حکومت بچانے کے مواقعے موجود تھے۔ آپ کے ذہنوں کو تازہ کرنے کیلئے یہاں برصغیر کے اس عظیم سپوت کے حوالے سے چند ضروری اطلاعات بھی قرطاسِ قلم کرتاچلوں تاکہ جنہوں نے اس کو بھلا دیا ہے اس کے ذہنوں میں یاد تازہ ہو جائے۔
ٹیپو سلطان ہفتے کے روز 20 ذی الحجہ 1163ھ بمطابق 10نومبر 1750ء کو کولار کے شمالی مغربی علاقے بنگلور میں دیون بلی نامی قصبہ میں پیدا ہوا۔
ٹیپو سلطان نے جب اس خوبصورت دنیا میں آنکھ کھولی تو انگریز وں کی حکومت اپنے بامِ عروج کو چُھو ر ہی تھی اور ان کی ناپاک قدم کے ساتھ ساتھ ان کے ناپاک عزائم بھی تیزی سے ریاستوں کو روندتے چلے جا رہے تھے۔ ایک ایک کرکے انگریزوں نے مرہٹوں، آرکاٹ اور نظام حیدرآباد کی حکومتوں کو اپنے فریبی جال میں پھنسا لیا تھا۔ صرف اور صرف ریاست میسور ہی ان کے ناپاک عزائم کی راہ میں رکاوٹ تھی، یوں ٹیپو سلطان کی پوری زندگی جنگ کے میدان میں گذری اور وہ بھی انگریزوں کے ساتھ سر بکف رہتے ہوئے۔
انگریزوں نے اپنی مکاری، عیاری اور دغابازی کے متعدد فارمولوں کو استعمال کرتے ہوئے ان کی شخصیت کو ایسا مسخ کر دیا کہ سفید کی جگہ سیاہ نظر آنے لگا۔ اور یوں ایک نہایت قابل اور عادل بادشاہ ظالم، ایماندار بادشاہ بے ایمان اور پاک صاف بادشاہ عیاش قرار دے دیا گیا۔
فہرستِ سلاطین میں سرِفہرست ٹیپو سلطان کا نام بھی آتا ہے۔ لکھاری حضرات جن میں کچھ نئے اور کچھ پرانے بھی شامل ہیں ، نے غلط طور پر ٹیپو سلطان کو ایک بے رحم، خون آشام، ستم شعار، آمر اور جنونی قرار دیا ہے لیکن راقم کے نزدیک حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
کیونکہ (تاریخ کے کئی کتابوں میں اس کا حوالہ ملتا ہے) کہ وہ کوئی متعصب یا شدت پسند نہیں تھا، وہ ایک متقی مسلمان تھا مگر اس نے کبھی اپنی ہندو رعایا کا مذہب تبدیل کرنے کی کوئی اجتماعی کوشش نہیں کی تھی مگر پھر بھی ہندوئوں نے اس عظیم سپوت کے کارناموں سے اورمذہبِ اسلام سے اس کی دلی لگائو کو دیکھتے ہوئے اتنی زیادہ تعداد میں مسلمان ہوئے کہ انگریز دنگ رہ گئے۔ اور یوں ایک انگریز مؤرخ نے لکھا تھا کہ سلطان نے صرف کورگ شہر میں 70 ہزار لوگوں کو مسلمان بنایا تھا۔ لیکن شاید یہ اعداد و شمار ٹھیک نہیں ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ اس میں کچھ کمی بیشی کا عنصر بھی موجود ہوسکتا ہے۔
یہ تو بالکل سچ ہے کہ شہید ٹیپو سلطان نے سیاسی، فوجی، معاشی اور انتظامی اصلاحات کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور مذہبی اصلاحات بھی اپنے تئیں (خود) کیں ، اس نے تو اپنے دورِ حکمرانی میں مسلم عوام الناس میں پھیلی ہوئی بہت سی بدعات اور خرافات پر پابندی عائد کی جسے جان بوجھ کر برصغیر کی کئی شہروں نے اسے فروغ دیئے تھے، ذات پات کے فرق کو بھی اپنے دور میں گھٹانے کی جستجو کی اور اس میں بھی اسے خاطر خواہ کامیابی ہوئی۔
جمعہ کے خطبے کی اہمیت پر زور دیا گیا تاکہ عوام میں اس کی مفید اثر انگیز ی رہے۔ اپنی پوری سلطنت میں شرعی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا، تاریخی کتب کی کتب بینی سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس نے ہر شہر اور ہر قریہ میں پنچائیت مقرر کر رکھی تھی۔
قدیم دستور کے مطابق ہر گائوں میں معمولی تنازعات کا فیصلہ یہی پنچائیت والے کر دیا کرتے تھے۔ اگر سامنے والے کو ان کے فیصلے سے تشفی نہ ہوتی تو مقدمہ عدالت اور اس کے بعد سلطان تک پہنچایا جاتا تھا۔
اس دور کی عدالت میں دو حاکم ہوا کرتے تھے ایک مسلمان اور ایک ہندو۔ تاریخ کے جھروکوں کی ورک گردانی سے پتہ چلاکہ ٹیپو کے دور میں ایک ایسا فرانسیسی شخص بھی گذرا ہے جو شہید سلطان ٹیپو (جرنیل) کے کارناموں ، مواخات، فتح گری، کارکردگی اور علم و عمل سے اس حد تک متاثر تھا کہ اس نے اپنے وطن واپسی پر اپنے ریمارکس اس انداز میں دیئے کہ۔۔ ۔
” خدا کرے کہ فرانس کو بھی سلطان ٹیپو جیسا رہنما مل جائے اور میں جب دوسری بار میسور آئوں تو آپ سب کو یہ خوشخبری فخریہ سنا سکوں کہ میرے پیچھے ایک عظیم سپہ سالار بھی آرہا ہے۔
اونگزیب عالمگیر کا دور اس کی وفات کے بعد ختم ہوا تو اس کے ساتھ ہی ہندوستان میں مسلمانوں کا جیسے زوال ہونا شروع ہو گیا تھا، کیونکہ مغلیہ سلطنت ختم ہوگئی تھی اور مسلم شان و شوکت کا خاتمہ تقریباً یقینی ہو گیا تھا، اتحاد کی دولت سے محروم اور تفرقے کے شکار مسلمان لاچار ہو گئے تھے۔
ایسے میں انگریزوں کی چالوں کو بھانپ کر سلطنتِ میسور کے فرمانرواں حیدر علی اور اس کے بیٹے ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے خلاف جہاد کیا اور مسلمانوں کی شان و شوکت کو بحال کرنے کی شروعات کی، حیدر علی نے برطانوی افواج پر کئی کامیاب حملے کئے اور اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا مگر جب حیدر علی کا انتقال ہوگیا تو اس کے بعد شیرِ میسور نے افواجِ میسور کی قیادت سنبھال لی۔ سلطان کی تلوار اسلامی سلطنت کے احیاء اور وہاں سے انگریز وں کے انخلاء میں معاون رہا۔
سلطان ٹیپو (شیرِ میسور) کی پے در پے چالوں نے انگریزی سپہ سالاروں کو چکرا کر رکھ دیا، ان کی رسد کو کاٹنے میں اپنی ہر تدبیر آزمائی اور کامیاب بھی ہوئے اور یوں میسور کو فتح کرنے کا خواب دیکھنے والے فوج کی حالت غیر ہونا شروع ہو گئی اور میسور کی دہلیز برطانوی فوج کے لئے قبرستان بن گئی۔
ٹیپو سلطان نے مسلمان ہمسایہ حیدر آباد (ریاست) کے نظام کو بھی اپنے جہاد میں شرکت کی دعوت دی مگر بدحال قسمت کہ ! اس نے سلطان کی حمایت نہیں کی لیکن کیا ہوا جو کوئی ہمسفر نہ ہو تو …شیرِ میسور نے اپنی جد و جہد کو جاری و ساری رکھا۔
شیرِ میسور کیلئے شاعر ِ مشرق علامہ اقبال نے یہ اقتباس لکھا تھا کہ ...
” جب پورا مشرق سو رہا تھا تو ٹیپو سلطان جاگ رہے تھے۔
چونکہ یہ اللہ رب العزت کا فیصلہ ہے کہ ہر باب کو بند ہونا ہے اور ہر ذی شعور کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ یوں ایک معرکے کے دوران ٹیپو کے قریب کھڑے ایک سپاہی نے اپنی بندوق کی زد پر لیکر فائر کر دیا اس طرح زخمی سلطان کو گولی لگ گئی اور یوں شیرِ میسور نے شہادت کی موت کو گلے لگا لیا اور ان کی زندہ گرفتاری کا خواب دیکھنے والوں کو منہ کی کھانی پڑی۔
ان للّٰہ وانا الیہ راجعون !
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)