-
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر، یہ وہ سحر تو نہیں
- سیاسی
- گھر
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر، یہ وہ سحر تو نہیں
989
M.U.H
15/08/2020
0
0
تحریر: ظفر آغا
آج ہندوستان جو یوم آزادی منا رہا ہے یہ وہ یوم نہیں جس کا جشن اس ملک نے سنہ 1947 یا پچھلے 73 سالوں میں منایا تھا۔ کیونکہ آج کا ہندوستان وہ ہندوستان نہیں جس کی آرزو اور تمنا ہماری جنگ آزادی کی نسل نے کی تھی۔ نہ ہی یہ وہ ہندوستان ہے جس کے معمار گاندھی، نہرو اور آزاد تھے۔ یہ ہندوستان وہ ہندوستان بھی نہیں جس کے قیام کے لیے ڈاکٹر امبیڈکر کی قیادت نے اس ملک کو ایک جمہوری اور سیکولر نظام کا آئین دیا تھا۔ وہ ہندوستان جمہوری ہندوستان تھا۔ وہ ہندوستان اس ملک کی صدیوں پرانی گنگا-جمنی تہذیب میں رنگا رنگ ہندوستان تھا۔ اس ہندوستان میں ہر چھوٹا بڑا، ہر مذہب والا، ہر خطے اور علاقے والا ہندوستانی برابر تھا۔ اس ہندوستان میں ہر ہندوستانی واقعی آزاد تھا اور کھلی سیاسی فضا میں اپنے جمہوری اختیار کے اندر وزیر اعظم سے لے کر ہر کسی کی نکتہ چینی کا اختیار رکھتا تھا۔
لیکن وہ ہندوستان، میرے سپنوں کا جہاں اب کہاں رہا۔ کیونکہ آج ہم بقول وزیر اعظم نریندر مودی کے 'جدید ہندوستان' میں جی رہے ہیں۔ وہ ہندوستان جو اس آر ایس ایس کے خوابوں کا ہندوستان ہے جس نے جنگ آزادی میں حصہ ہی نہیں لیا۔ جنگ آزادی تو جانے دیجیے اس آر ایس ایس نے ہمارے ترنگے جھنڈے کو ہی تسلیم نہیں کیا۔ سنہ 1929 میں یہ ترنگا جھنڈا تیار ہوا، سنہ 1930 کی 26 جنوری میں کانگریس نے اس جھنڈے کو لہرایا اور انگریزوں سے 'پوری آزادی' کی مانگ رکھی۔ اس وقت آر ایس ایس کے سربراہ سواکر نے کہا کہ "ہندوستان ایک روز بھگوا جھنڈے کے آگے سر خم کرے گا۔" آر ایس ایس اب تک ترنگے کے آگے نہیں بلکہ اسی بھگوا جھنڈے کے آگے سر تسلیم خم کرتی ہے۔ سنہ 1950 کی دہائی میں جب آئین تیار ہوا تو اس وقت کے آر ایس ایس سربراہ گرو گولوالکر نے ہندوستانی آئین کا مذاق اڑایا تھا اور کہا تھا کہ "یہ کوئی آئین ہے، اس میں 'مغربی ملکوں' سے اٹھا کر اس کو آئین کا نام دیا گیا ہے۔" ان کو یہ اعتراض تھا کہ ہمارے آئین میں 'منو اسمرتی' کی کوئی بات ہے ہی نہیں۔ کون منو اسمرتی! وہی منو اسمرتی جو کہتی ہے کہ اگر کسی دلت یا پچھڑے کے کان میں ویدوں کی آواز چلی جائے تو اس کے کانوں میں سیسا پلا دو۔ جی ہاں، آر ایس ایس کو ہندوستان نہیں 'آریا ورت' چاہیے جس میں صرف اعلیٰ ذاتوں کے حقوق کے سوا کسی اور کے حقوق ہوں ہی نہیں۔
نریندر مودی کا 'جدید ہندوستان' وہی ہندوستان ہے۔ اس ہندوستان میں جب دلت اور پچھڑوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی تو پھر بھلا ہندوستانی اقلیتوں اور بالخصوص مسلم اقلیت کے لیے کیا گنجائش ممکن ہے۔ مودی بس ہندوتوا نظریہ میں یقین رکھتے ہیں۔ اس میں مسلمان صرف دوسرے درجے کا شہری بن کر ہی رہ سکتا ہے۔ اور مودی جی سنہ 2002 میں گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے لے کر آج تک اسی ہندوستان کے قیام کے لیے سرگرم ہیں۔ ان کا خواب ہی یہی ہے کہ وہ تاریخ میں آزاد ہندوستان کے سب سے قدآور ہندو لیڈر کے روپ میں یاد کیے جائیں۔ چنانچہ گجرات میں مسلم نسل کشی کے فوراً بعد انھوں نے خود کو 'ہندو ہردے سمراٹ' کے لقب سے پہچنوایا۔ اور گجرات میں مسلمان کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا۔ یہی کام اب وہ بطور وزیر اعظم پورے ہندوستان میں کر رہے ہیں۔ تب ہی تو ایک ایک کر ہندوستانی مسلم اقلیت کے تمام آئینی حقوق ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ پہلے تین طلاق ختم ہوا، پھر کشمیری مسلمان کا دفعہ 370 ختم کر وہاں مسلم اکثریت ختم کرنے کے دروازے کھولے اور پھر تمام حقوق ختم کرنے کے لیے شہری قانون میں ترمیم کر این آر سی کا شوشہ چھوڑ کر اس کے ووٹنگ حقوق ختم کرنے کی راہ اختیار کر لی۔
جی ہاں، یہی ہے نریندر مودی کا جدید ہندوستان جو آر ایس ایس کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ لیکن یاد رکھیے کہ اس ہندوستان میں صرف مسلمان کے ہی حقوق صلب نہیں ہو رہے ہیں، یہاں تو ہر وہ ہندو جو سنگھ کے نظریہ کے خلاف چوں کر دے اس کو سزا یا مقدمے کا سامنا ہے۔ پرشانت بھوشن جیسے ایماندار اور باضمیر وکیل کو آواز اٹھانے پر سزا ہے۔ درجنوں کھل کر حکومت کے خلاف بولنے پر ویسے ہی جیل اور ایف آئی آر کے ذریعہ نشانہ بنائے جا رہے ہیں جیسے کبھی انگریز دور حکومت میں آواز اٹھانے کے لیے جیل جاتے تھے۔ یہ ہندوستان تو کچھ ویسا ہی ہندوستان بنتا جا رہا ہے جیسا پڑوس میں ضیاء الحق کا پاکستان تھا جہاں کوئی زبان نہیں کھول سکتا تھا، جہاں اسلام کے نام پر کوڑے لگائے جاتے تھے، جہاں مذہب کے نام پر فوج کی حکمرانی ہوتی تھی۔
سنہ 1947 میں جب صبح آزادی آئی تو گاندھی، نہرو، آزاد جیسے قائدین نے اعلان کیا کہ محمد علی جناح کو مذہب اور تشخص کی بنیاد پر قائم پاکستان مبارک ہو۔ ہم تو ایک رنگا رنگ، جمہوری اور سیکولر ہندوستان قائم کریں گے جہاں اکثریت، اقلیت سب برابر ہوں گے۔ اور اسی میں ہندوستان کا لڑکپن تھا۔ سات دہائیوں تک اسی راستے پر چل کر اسی ہندوستان نے نام کمایا اور عزت حاصل کی۔ ہندوستان ساری دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کے اعزاز سے نوازا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ منموہن سنگھ کے دور میں یہی ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کے روپ میں ابھرا، جب کہ مذہب و سیاست کو ملانے والا پاکستان سنہ 1971 میں دو ٹکڑوں میں بٹ گیا اور آج دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں اس کا شمار ہے۔ جس ملک نے اس دور میں سیاست و مذہب کو ملایا وہ ملک ترقی سے محروم رہا۔ یہی بصیرت تھی ہمارے قائدین کی جنھوں نے جناح کا راستہ ٹھکرا کر ایک جدید ہندوستان کی بنیاد رکھی تھی۔ خود دیکھیے کہ محض چھ برسوں میں مودی کی مذہب و سیاست کو ملانے کی حکمت عملی نے ہندوستان کی کیا گت بنا دی۔ آج ہماری معیشت کھوکھلی ہو چکی ہے۔ اگر ریزرو بینک حکومت کو پیسے نہ دے تو حکومت کو تنخواہیں بانٹنے کے لالے پڑ جائیں۔ یہ حالت ہے کہ حکومت آئے دن کوئی نہ کوئی سرکاری کمپنی بیچ کر کام چلا رہی ہے۔ ادھر کروڑوں افراد کی فوج ہے جو ملک میں بے روزگاری کے عالم میں گھوم رہی ہے۔ پھر کورونا وائرس کی وبا کا یہ عالم ہے کہ اب ہم دنیا میں جلد ہی نمبر وَن ہونے والے ہیں۔ ادھر حکومت کو نہ تو اس سے نپٹنے کی فکر ہے اور نہ اس کے پاس اس کا کوئی سدباب ہے۔
لب و لباب یہ کہ اس یوم آزادی پر مذہب کی سیاست میں ڈوبا مودی کا 'جدید ہندوستان' ایک ہندو پاکستان نظر آ رہا ہے جو ہماری جنگ آزادی کے اصولوں اور خوابوں کا ہندوستان قطعاً نہیں ہے۔ یہ ہندوستان اور ہندوستانیوں دونوں کے لیے ایک ایسا خطرناک موڑ ہے کہ جس کی اصلاح جلد سے جلد نہیں ہوئی تو دونوں کا مستقبل سنگین خطرے سے دو چار ہوگا۔