رويش کمار
بھارتی ریزرو بینک کو 8 ماہ لگ گئے یہ بتانے میں نوٹ بندي کے بعد اس کے خزانے میں 99 فیصد نوٹ واپس آ گئے ہیں. جبکہ 8 نومبر کو نوٹ بندي کا اعلان ہوا اور 28 نومبر کو ہی ریزرو بینک نے پروویذنل یعنی عارضی طور پر بتا دیا تھا کہ 8 لاکھ 45 لاکھ کروڑ واپس آ گئے ہیں. قریب 55 فیصد نوٹ بغیر نوٹ گننے کی نئی مشینوں کے ہی گن لئے گئے. جب پارلیمانی کمیٹی بار بار پوچھتی رہی کہ آپ مکمل اعداد و شمار کیوں نہیں دے رہے. تب جون میں ریزرو بینک نے کہا تھا کہ اس کے پاس نوٹ گننے کی کافی مشین نہیں ہے، ابھی ٹینڈر نکلنا ہے. اسی 17 جولائی کو یہ خبر چھپی تھی. کسی کو دیہان نہیں رہا کہ بینک جب نوٹ دیتے ہوں گے تو گن کر ہی دیتے ہوں گے تو پھر ریزرو بینک کو بتانے میں تاخیر کیوں ہو رہی تھی. یہی نہیں 14 دسمبر 2016 کو ریزرو بینک نے ہی بیان دیا کہ 80 فیصد نوٹ واپس آ گئے ہیں یعنی 12 لاکھ 44 ہزار کروڑ قیمت کے پانچ سو اور ہزار کے نوٹ واپس آ گئے ہیں۔
باقی نوٹ گننے میں اتنا وقت کیوں لگ گیا؟
اب ایک بار پھر یاد کیجئے کہ جو ریزرو بینک 8 نومبر کی نوٹ بندي کے بعد 35 دن کے اندر اندر 12 لاکھ 44 ہزار کروڑ گن سکتا تھا اسے باقی کے 3 لاکھ کروڑ کے نوٹ گننے میں 13 دسمبر سے 30 اگست کیوں لگا. 261 دن کیوں لگے؟ کیوں ریزرو بینک عوام کے سامنے شرمندہ ہوتا رہا کہ وہ نوٹوں کی گنتی نہیں کر پایا ہے. کس کے لئے ریزرو بینک آپ کی برسوں کی ساکھ داؤ پر لگا رہا تھا. کیا یہ سب اس لئے کیا گیا تاکہ نوٹ بندي کی اصلیت پوشیدہ رہے اور اس دوران انتخابات نکل جائیں، حکومت تبدیل ہو جائے. عوام کو بھی یاد نہیں رہا کہ ریزرو بینک نے 80 فیصد رقم کا حساب تو 13-14 دسمبر کو ہی بتا دیا تھا. 3 لاکھ کروڑ سے بھی کم گننے میں ریزرو بینک کی نئی مشینوں کی کیوں ضرورت پڑی، بھارتی ریزرو بینک نے اپنی سالانہ رپورٹ میں یہ کیوں نہیں بتایا کہ کتنی مشینیں خریدی گئیں اور کتنے ٹینڈر نکالے گئے. ریزرو بینک نے صرف نئے نوٹ چھاپنے کی لاگت قریب آٹھ ہزار کروڑ بتائی ہے. پرانے نوٹوں کے محض 16 ہزار کروڑ نوٹ آنے باقی رہ گئے ہیں۔
نوٹ بندي پر جواب ضروری ہے!
میڈیا وجل نے چھاپہ ہے کہ کس طرح پرنٹ یعنی اخبارات میں بھی اس خبر کو عام خبر کی طرح چھاپا گیا ہے.نوٹ بندی کے وقت کا بھی اخبار اٹھا کر دیکھ سکتے ہیں. لوگوں کی پریشانیوں کی خبریں اندر اندر کے صفحات پر سنگل کالم میں چھپتی تھی اور تعریف کی خبریں سامنے کے صفحے پر. نوٹ بندي کیوں کی گئی، اس سوال کا جواب ضروری ہے کیونکہ اس کے بعد سے معیشت میں گراوٹ کی مسلسل خبریں آ رہی ہیں. آج ہی خبر آئی ہے کہ اپریل سے جون کے درمیان بھارت کی جی ڈی پی گر گئی ہے. 6.6 فیصد کا اندازہ تھا، لیکن 5.7 فیصد ہی جی ڈی پی درج ہوئی ہے. جنوری سے مارچ کی سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح 6.1 فیصد تھی. 31 اگست 2016 کو جی ڈی پی کی شرح 7.1 فیصد تھی. معیشت کے 8 کور سیکٹر کی ترقی کی شرح کم ہوکر 2.4 فیصد ہو گئی. ایک سال پہلے جولائی 2016 میں ترقی کی شرح 3.1 تھی.۔
ملازمتوں اور کاروبار پر پڑتا ہے اثر
ایک فیصد جی ڈی پی کم ہونے کا مطلب ہے معیشت کے سائز سے ایک لاکھ تیس ہزار کروڑ روپے کا کم ہو جانا. اس کا اثر ملازمتوں اور کاروبار پر پڑتا ہے. ایک سال سے مختلف سیکٹر میں بھارتی معیشت کے سست پڑنے کی خبریں آرہی ہیں. انہی سوالوں کے ردعمل سے بچنے کے لئے دوسرے تیسرے فوائد گنائے جا رہے ہیں. پی ٹی آئی کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ پہلی سہ ماہی کے جی ڈی پی کی شرح میں کمی تشویشناک ہے. بدھ کی شام جب ریزرو بینک کی رپوٹ آئی تو وزیر خزانہ نوٹ بندي کا دفاع کر رہے تھے. کہہ رہے تھے کہ کچھ لوگ نوٹ بندي کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں.۔
بینکنگ سسٹم میں لوٹا پیسہ درست نہیں
وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کہا کہ ریزرو بینک نے جو اعداد و شمار دیئے ہیں اپنی سالانہ رپورٹ میں جو پیسہ واپس بینکاری نظام میں ڈیپازٹ ہوا ڈیمونی ٹایٔزیشن کے بعد اس کے سلسلے میں کچھ لوگوں نے تبصرہ کیا تھا ڈیمونی ٹایٔزیشن کا واحد مقصد یہی تھا کہ لوگ پیسہ جمع نہ کروائیں۔ اور پیسہ ضبط ہو جائے جن لوگوں نے زندگی میں کبھی کالے دھن کے خلاف جنگ نہیں لڑی وہ شاید اس عمل کا مقصد کیا تھا یہ سمجھ نہیں پائے. یہ مقصد کسی کا پیسہ ضبط کرنے کا نہیں تھا. بینکاری نظام میں پیسہ آ جائے اس کا یہ معنی نہیں وہ سارا جائز پیسہ تھا. اس پیسے کے خلاف بھی ٹیکس محکمہ پوری جانچ کرتا ہے. کاروائی کرتا ہے. یہی وجہ ہے کہ لاکھوں لوگوں کو نوٹس پر ڈالی گئی ہے.۔
یہ درست ہے کہ حکومت نے کبھی ایک سٌر سے دعوی نہیں کیا کہ کتنے لاکھ کروڑ نوٹ بینک میں جمع نہیں ہوں گے اور جتنا پیسہ نہیں آئے گا اتنا اس کی کمائی ہوگی. آمدنی سیکرٹری ہنس مکھ ادھيا نے 8 دسمبر کو کہا تھا کہ حکومت امید کرتی ہے کہ پیسہ بینکنگ سسٹم میں واپس آئے گا، مگر سپریم کورٹ میں حکومت ہند کی رائے رکھتے ہوئے اٹارني جنرل مٌکٌل روہتگی نے کہا تھا. ہمارے اندازے کے مطابق لوگ 10-11 لاکھ کروڑ بینکوں میں جمع کریں گے. باقی کے 4-5 لاکھ کروڑ روپے جو بھارت کے خلاف شمال مشرق اور جموں و کشمیر میں استعمال کئے جاتے ہیں وہ تباہ ہو جائیں گے۔
وزیر اعظم نے کہا تھا کہ نوٹ گنگا میں بہائے جا رہے!
بہت تقریروں میں کہا گیا کہ لوگ نوٹ جلا رہے ہیں۔سمندر میں پھینک کر آرہے ہیں۔وهاٹس اپ یونیورسٹی سے لے کر میڈیا کے ذریعہ لوگوں تک افواہوں کی شکل میں خبریں پہنچ رہی تھی اور عوام حیران ہوکر جان دے کر بھی واہ واہ کر رہی تھی۔ان تقریروں کا یہی اشارہ تھا کہ جن کے پاس کالا دھن ہے وہ بینک تک پہنچیں گے نہیں۔14 نومبر 2016 کو یوپی کے غازی پور میں اپنی تقریر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ہی کہا تھا کہ لوگ گنگا میں نوٹ بہا رہے ہیں۔
کیا گنگا میں بہے نوٹ بھی ریزرو بینک پہنچ گئے؟
وہ کون تھا جو گنگا میں نوٹ بہا رہا تھا، کیا گنگا میں بہنے والا نوٹ بھی گھوم پھر کر ریزرو بینک پہنچ گیا ہے۔اسی سات فروری کو لوک سبھا میں وزیر اعظم کا بیان اشارہ کرتا ہے کہ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ کتنے نوٹ بینکوں میں پہنچے۔وہ اس لئے جاننا چاہتے تھے کہ جو نہیں پہنچے، ان کی تعداد کیا ہے تاکہ نوٹ بندي کے اثر کو سمجھا جا سکے۔
کیا دہشت گردوں اور نکسلیوں نے بھی جمع کرایے پیسے؟
اب سہولت کے مطابق بینکوں میں پیسہ نہیں آنے کی بات سے انکار کیا جا رہا ہے۔جب پیسہ بینک میں آ گیا تو کیا دہشت گردوں اور نکسلیوں نے بھی اپنا پیسہ جمع کرا دیا ہے؟ اگر ڈجی ٹایٔزیشن اور ٹیکس دہندگان کی بنیاد کو بڑھانا تھا تو اس کے لئے نوٹ بندي ہی کیوں ضروری تھی اور یہ بات 8 نومبر کی تقریر میں کیوں نہیں کہی گئی۔انڈیا اسپینڈ اور بوم لائیو ڈاٹ ان نے نوٹ بندي کے اعلان والے 8 نومبر کی تقریر کا بھی دوبارہ تجزیہ کیا ہے۔8 نومبر کی تقریر میں ڈیجیٹل یا کیشلیس کا ایک بار بھی ذکر نہیں ہوا۔اسی تقریر میں 18 بار کالا دھن اور پانچ بار جعلی نوٹ کا ذکر آیا۔27 نومبر کی تقریر میں پہلی بار ڈیجیٹل اور کیشلیس کا استعمال کرتے ہیں۔اس تقریر میں جعلی نوٹ کا استعمال ہی نہیں کرتے ہیں۔
جعلی نوٹوں کے بارے میں جتنا پرچار ہوا وہ درست نہیں
نوٹ بندي کی پہلی تقریر میں پانچ بار جعلی نوٹ کا ذکر آیا۔اسے لے کر بڑی بڑی باتیں غیر رسمی طور پر پھیلائی گئیں کہ بھارت میں بڑی تعداد میں جعلی نوٹ گھس گیے ہے۔لیکن گزشتہ کئی سال کے سرکاری اعداد و شمار ہی بتاتے ہیں کہ جعلی نوٹوں کے بارے میں جتنی تشہیر کی گئی درست نہیں ہے۔اسی 18 جولائی کو وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے راجیہ سبھا میں دیے اپنے تحریری بیان میں بتایا تھا کہ نوٹ بندي کے دن سے لے کر 14 جولائی تک 29 ریاستوں میں 11 کروڑ 23 لاکھ کے جعلی نوٹ پکڑے گئے ہیں۔ان کے بیان کے 43 دن کے اندر اندر ریزرو بینک کی سالانہ رپورٹ میں جعلی نوٹوں کی رقم 40 کروڑ ہو جاتی ہے۔مني کنٹرول پر لتا وینکٹیش نے لکھا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ جعلی نوٹوں کی ضبطی میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔جتنے نوٹ چلن میں ہیں ان کا صرف 0.0007٪ ہی جعلی نوٹ ضبط ہوا ہے۔
سات لاکھ 62 ہزار کے جعلی نوٹ 2016-17 میں برآمد ہوئے
بھارتی ریزرو بینک کے مطابق 2016-17 میں 7 لاکھ 62 ہزار جعلی نوٹ برآمد ہوئے ہیں۔ایک سال پہلے 6 لاکھ 32 ہزار پیس برآمد ہوئے تھے۔دو سال کے اندر خاص فرق تو نہیں ہے تو پھر جعلی نوٹ ضبط کرنے یا برباد کرنے کے لئے نوٹ بندي کی کیا ضرورت تھی۔آٹھ اگست کے کئی اخبارات میں وزیر داخلہ ہنس راج اهير کا لوک سبھا میں دیا گیا بیان چھپا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ نوٹبدي کے بعد 2000 کے 9254 جعلی نوٹ پکڑے گئے ہیں۔1000 اور 500 کے 23، 429 کے جعلی نوٹ پکڑے گئے ہیں۔ان میں سے نصف نقلی نوٹ گجرات میں پکڑے گئے ہیں۔نوٹ بندي کے بعد بھی جعلی نوٹوں پر خاص اثر نہیں پڑا۔
اعداد و شمار میں بھی مساوات نہیں
وزیر خزانہ، وزیر داخلہ اور ریزرو بینک کے اعداد و شمار میں بھی کافی فرق ہے۔18 جولائی کے بیان میں 11 کروڑ جعلی نوٹ پکڑا جاتا ہے، 8 اگست کے بیان میں ڈھائی کروڑ کے جعلی نوٹ پکڑے جاتے ہیں اور 31 اگست کی رپورٹ میں 40 کروڑ کے جعلی نوٹ پکڑے جاتے ہیں۔وزیرخزانہ کا ہی ایک بیان ہے کہ چار سال سے ضبط ہونے والی جعلی نوٹوں کی قیمت میں خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔نوٹ بندي کی وجہ بھارتی ریزرو بینک کی کمائی پر پڑا ہے۔2015-16 میں آر بی آئی نے حکومت ہند کو 65.875 کروڑ روپے دیے تھے۔2016-17 میں آر بی آئی حکومت کو 30،695 کروڑ روپے ہی دے سکے گی۔حکومت کا بجٹ تخمینہ تھا کہ000 58، کروڑ آئے گا۔نوٹ بندي کی وجہ سے ہی ریزرو بینک کی کمائی قریب000 35، کروڑ کم ہوئی ہے۔کیونکہ بینکوں کے جمع نوٹ پر کافی مقدار میں سود دینا پڑا ہے۔ریزرو بینک کی ملکی وسائل سے ہونے والی آمدنی میں تقریبا 10000 کروڑ کی کمی آئی ہے۔
بینکوں کو بھی سود دینا پڑا
بینکوں کو بھی کافی تکلیف ہوئی۔سارہ نقد پیسہ سسٹم میں آنے سے انہیں سود دینا پڑا۔اس کے چلتے بینکوں نے فکس ڈپوذٹ پر سود کم کر دیا، طرح طرح کے لون لگا دیئے۔یہ نقصان نوٹ بندي کی وجہ عوام کو اٹھانا پڑا۔31 جولائی کی خبر کے مطابق اسٹیٹ بینک نے 1 کروڑ سے کم جمع رقم پر سود کی شرح میں 0.5 فیصد کمی کر دی۔90 فیصد اکاؤنٹس میں 1 کروڑ سے کم کی رقم جمع ہے۔ان اکاؤنٹس میں زیادہ تر ریٹائر اور عام لوگوں کا پیسہ جمع رہتا ہے۔1 کروڑ سے زیادہ کی جمع رقم پر سود کی شرح نہیں گھٹتی۔امیروں پر مہربانی کے بھی جائز اقتصادی دلایٔل ہوا کرتے ہیں۔نیشنل سیونگ سرٹیفکیٹ، کسان وکاس یاترا پر سود کی شرح کم ہویی۔
آکرامک ہوئی کانگریس
ڈیجیٹل لین دین میں ضرور نومبر سے لے کر اب تک 28 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، لیکن کیا یہ مقصد بغیر نوٹ بندي کے پورا نہیں کیا جا سکتا تھا؟ جب سے ریزرو بینک کی رپورٹ آئی ہے کانگریس آکرامک ہو گئی ہے۔جواب میں بی جے پی بہت سے فوائد گنا رہی ہے۔آج تک لوگوں کے میسج آتے ہیں کہ ان کی ماں کا پیسہ رکھا ہوا رہ گیا ہے کیا لوٹے گا۔بھارتی ریزرو بینک کے باہر 30 مارچ کے پہلے لوگوں کا ہجوم امڈ پڑا تھا کہ ان کی کمائی کا پانچ دس ہزار کسی طرح واپس ہو جائے مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔
سورس بتانا ضروری نہیں
15 اگست کو وزیر اعظم نے اپنے بیان میں کسی باہر کی ایجنسی کا حوالہ سے کہہ دیا کہ 3 لاکھ کروڑ اضافی بینکاری نظام میں آ گیا ہے۔جب لوگوں نے پوچھا کہ ریزرو بینک سے پہلے یہ کون سی باہر کی ایجنسی ہے جس کے ریسرچ کے بارے میں وزیر اعظم ذکر کر رہے ہیں تو وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیر اعظم مضمون نہیں لکھ رہے تھے کہ سورس بتانا ضروری ہے۔وزیر خزانہ بھول گئے کہ وزیر اعظم 15 اگست کو دن پورے ملک کو خطاب کر رہے تھے جس کی وقار کسی بھی مضمون سے زیادہ ہوتی ہے۔سمجھا جاتا ہے کہ 15 اگست کو کوئی غلط نہیں بولے گا۔
بینکوں میں جمع کی گئی رقم میں پونے دو لاکھ کروڑ سے زیادہ رقم شک کے دائرے میں ہے۔کم از کم دو لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کالا دھن اسکو بینکوں تک پہنچنا پڑا ہے۔ابھی نظام کے ساتھ ان کو اپنا جواب دینے کے لئے مجبور ہوئے ہیں۔نئے کالے دھن پر بھی بہت بڑی رکاوٹ آ گئی ہے۔اس سال، اس کا نتیجہ دیکھئے، 01 اپریل سے 05 اگست تک انکم ٹیکس ریٹرن دائر کرنے والے نئے ذاتی ٹیکس دہندگان کی تعداد 56 لاکھ ہے۔گزشتہ سال اسی مدت میں یہ تعداد صرف 22 لاکھ تھی۔دوگنا سے بھی زیادہ! اس کی وجہ سے کالے دھن کے خلاف ہماری لڑائی کا نتیجہ ہے۔
وزیر اعظم نے یہ بات بھی کس بنیاد پر کہی کہ تین لاکھ میں سے دو لاکھ کروڑ کالا دھن ہے۔بھارتی ریزرو بینک نے اپنی رپورٹ میں اس طرح کا کوئی دعوی نہیں کیا ہے کہ بینکوں میں اتنا کالا دھن آیا ہے۔بیانات اور اعداد و شمار میں اتنا فرق کیوں آ رہا ہے۔ارون جیٹلی نے تو گھماتے ہوئے تب کہا تھا کہ آمدنی کے اعداد و شمار پر مشتمل ہے اور ممکنہ آمدنی منافع کے اعداد و شمار پر مشتمل ہے جو مختلف قسم کے آمدنی محکموں کے تحقیقات، نوٹس، جواب کی بنیاد پر مبنی ہیں۔اس آر بی آئی کی رپورٹ پر انحصار نہیں ہوتا ہے۔لیکن آر بی آئی نے کیا کہا ہے بینکوں نے ریزرو بینک کو بتایا ہے کہ 2016-17 میں مشتبہ لین دین کی تعداد 4.73 لاکھ ہے۔لین دین کی تعداد بتا رہے ہیں، کتنا مشتبہ پیسہ ہے یہ نہیں بتا رہے ہیں۔2015-16 میں مشتبہ 1 لاکھ 6 ہزار لین دین مشتبہ تھی۔
مترجم: محمد اسعد فلاحی
(مضمون نگار کی رائے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)