-
ہندوستان میں قومیت کی بنیادیں اور سوال
- سیاسی
- گھر
ہندوستان میں قومیت کی بنیادیں اور سوال
406
m.u.h
25/01/2023
1
0
تحریر:عادل فراز
سنگھ اپنی عادت کے مطابق ہمیشہ مسلمانوں کی قومیت پر سوال اٹھاتارہاہے ۔اس کے نزدیک ہندوستان کے تمام باشندے ہندو ہیں ۔اس بنیاد پر وہ ’ہندوراشٹر‘ کے قیام کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں ،جبکہ سنگھ اس حقیقت کی پردہ پوشی کرتارہاہے کہ ہندوستان کے اصل باشندے کون ہیں؟سوال یہ نہیں ہے کہ ہندوستان کا قدیم باشندہ کون ہے کیونکہ قومیت کی قدامت کی بنیاد پر کسی کو ہندوستان کا اصل باشندہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔اس طرح تو آریائی اور ان کے بعد دیگر قومیں جو ہندوستان میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئیں ،سب کو ہندوستان کا اصل باشندہ تسلیم کرنا پڑے گا۔سوال یہ ہے کہ آریوں سے پہلے ہندوستان میں کونسی قومیں آباد تھیں اور کیا آج ان قوموں کا وجودہے؟آیا آریوں سے پہلے ہندوستان کی سرحدوں میں داخل ہونے والی قوموں کو ہندوستان کا اصل باشندہ کہاجائے گا یا پھر مقامی باشندوں کی تاریخ پر مزید تحقیق کی جانی چاہیے۔دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ آریوں سے پہلے جو قومیں ہندوستان میں آباد تھیں کیا آج بھی وہ اپنے قدیم تشخص کے ساتھ موجود ہیں ؟ان سوالوں کے جوابات محققین اور مورخین بھی یقین کے ساتھ نہیں دے سکے البتہ آرایس ایس، جس کی اپنی الگ سائنسی تحقیقات ہیں ،ان سوالوں کے جواب دینے پر قادر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ تمام ہندوئوں کو ہندوستان کا اصل باشندہ گردانتےہیں جبکہ یہ تحقیق طلب ہے کہ ہندوئوں میں بھی کونسی قومیں اور ذاتیں آریوں کی یلغار سے محفوظ رہ گئی تھیں ۔محققین کے مطابق ہندوستان کی ویدی تہذیب آریوں کی پروردہ ہے ،جس کے اثرات آج تک باقی ہیں ۔سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کو مسلمانوں کی قومیت پر سوال اٹھانے سے پہلے اپنی قومیت اور ہندوئوں کی قومی قدامت پر بھی گفتگو کرنی چاہیے ۔ظاہر ہے وہ ایسانہیں کریں گے کیونکہ اس سے یہ ثابت ہوگا کہ جس طرح مسلمان باہر سے ہندوستان میں داخل ہوئے اسی طرح ہندوئوں کی اکثریت بھی فاتح قوم کی حیثیت سے ہندوستان میں وارد ہوئی تھی ۔مقامی باشندوں کو فاتح قوموں نے غلام بنالیا اور انہیں تمام انسانی حقوق سے محروم کردیا ۔محرومیت کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔
ہند آریائی جنوبی روس کی وسیع چراگاہوں میں بسنے والے چرواہے تھے ۔وسطی ایشیا میں ان کی تہذیب کا پھیلائو کئی ہزار سالوں پر محیط ہے ،جس پر مسلسل تحقیق کی جارہی ہے ۔آریوں کی ہندوستان کی طرف ہجرت تاریخ میں متنازع رہی ہے ۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ’قدیم ہندوستان کی تاریخ ۔رما شنکر ترپاٹھی ۔ص۵۲)بعض تو اس با ت کا قطعی انکار کرتے ہیں کہ آریہ تاریخ کے کسی موڑپر ہجرت کرکے ہندوستان کی سرحدوں میں داخل ہوئے تھے ۔البتہ اکثر محققین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کیونکہ آریوں کی ہجرت کے شواہد ’ویدوں ‘ کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہیں ۔اس عہد کے تنہا تاریخی شواہد ’وید‘ ہیں ۔سنسکرت کی یہ مذہبی تحریریں اوستاآریوں کی زبان سے بے حد قریب ہیں ۔موجودہ محققین اس بات کے قائل ہیں کہ آریاوادیٔ سندھ میں گاہے بہ گاہے داخل ہوئے ،البتہ ان کی یہ ہجرت کسی منظم عمل یا عسکری مہم جوئی کا نتیجہ نہیں تھی ،کیونکہ محققین کو اس خطے میں جنگ ،مزاحمت یا تباہی کے آثار نہیں ملے ہیں ۔(تہذیبوں کی کایاکلپ۔کیرن آرامسٹرانگ۔ص۳۴)لیکن ویدوں کی دعائوں سے یکسر الگ تاثر قائم ہوتاہے ۔رگ وید کی دعائوں کے مطابق ہندوستان کے مقامی قبائل جنہیں ’داس ‘ اور ’دسیو‘ کہا گیا ،آریوں کی ہندوستان مہاجرت میں مزاحم ہوئے تھے ۔انہوں نے آریوں کے ہندوستان میں داخلے کے خلاف مزاحمت کی ،جس کے نتیجہ میں خوں ریز جنگیں وجود میں آئیں ۔بعض محققین مقامی باشندوں کو دراوڑ اور آسٹرک قبیلوں سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ یہ لوگ بھی آریوں کی طرح ہندوستان میں باہر سے داخل ہوئے تھے ۔آریوں کی ہندوستان آمد اندازاً (۲۳۰۰۰ ق م تا ۲۰۰۰ ق م )رہی ہوگی ۔اس وقت سندھ میں موہن جوداڑواور ہڑپا جیسی عظیم تہذیبیں ختم ہوچکی تھیں ۔البتہ ان تہذیبوں کے بچے کھچے آثار موجود رہے ہوں گے ۔معروف مورخ مسٹر آر۔سی۔دت تو آریوں کو ہی ہندو سے تعبیر کرتے ہیں،اس طرح یہ ثابت ہوتاہے کہ ہندو(یعنی ہند آریہ)بھی ہندوستان کے اصل باشندے نہیں ہیں۔(قدیم ہندوستان کی تہذیب۔آر۔سی۔دت۔ص۷ تا ۱۰)
تاریخ کے مطابق آریائی بظاہر موحد نہیں تھے،البتہ زرتشتوں کے عقائد میں توحید کا عنصر موجود تھا ۔ان کے یہاں خدا کی طاقت کے مختلف مظاہر تھے ۔البتہ دیوس پتر کو وہ آسمان کا دیوتا مانتے تھے جو کائنات کا خالق بھی تھا ۔وہ دیوس پتر کو انتہائی مقدس اور بلند و برتر تصور کرتےتھے جس تک رسائی محال تھی ۔لہذاانہوں نے ایسے چھوٹے چھوٹے دیوتا بھی بنائے جن سے قرب اور رسائی آسان ہوسکے ۔ہندودھرم کے بنیادی عقائد آریوں سے مستعار لئے گئے ہیں کیونکہ فاتح قوموں کا تمدن اورعقائد مفتوحہ قوموں پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ویدوں میں جتنے دیوتائوں کا تذکرہ کیا گیاہے ،ہندو دھر م میں ان سبھی دیوتائوں کو مقدس مانا جاتاہے ۔جیسے اندر دیوتا جسے آسمان کا جرنیل سمجھا جاتاہے جس نے اژدھا نما ایک سہ سری عفریت ورتر کو زیر کیا تھا،اس نے کائنات کو جوکہ اولاً ایک ژولیدہ ہیولے کی شکل میں تھی ،موجودہ وضعیت اور ہئیت عطا کی۔(تہذیبوں کی کایا کلپ۔کیرن آرمسٹرانگ۔ص۲۰)جس وقت آریائی ہندوستانی سرحدوں میں داخل ہورہے تھے اورمقامی قبائل ان کی ہجرت میں مزاحم ہوئے ،اس وقت مقامی قبائل کو شکست دینے اور فتح و ظفر کے لئے آریوں نے ’اندر دیوتا‘ سے دعائیں کی تھیں ،جن کا مجموعہ ’رگ وید ‘ کی شکل میں موجود ہے ۔
آریوں میںبھی ’بلی‘ اور بھینٹ کا تصورموجود تھا ۔یہ تصور آج بھی مذہبی عقیدے کی شکل میں ہندوئوں میں قائم ہے۔وہ آئے دن اپنے دیوتائوں کو قربانی اور نذرانے پیش کرتے تھے ۔عام طورپر اشیائے خوردونوش کو بطور نذرانہ پیش کیا جا تا تھا ۔خاص موقعوں پر جانوروں کی ’بلی ‘ بھی چڑھائی جاتی تھی ۔آریائی اپنے پالتو جانوروں سے بہت عقیدت رکھتے تھے لہذا ان کو مارنا جرم شمار ہوتا تھا ۔لیکن ایسانہیں ہے کہ وہ گوشت خور نہیں تھے ۔مذہبی اصول و ضوابط کے مطابق ذبح کئے گئے جانور کا گوشت کھانا حلال سمجھا جاتا تھا ۔گوشت خوری کا ذکر ہنود کی مختلف مذہبی کتابوں میں بھی ملتاہے۔ موجودہ عہد میں سنگھ حلال گوشت پر تنازعہ کھڑا کررہاہے جبکہ ہندآریائی اپنے مذہبی اصو ل و ضوابط کے مطابق ذبح کئے ہوئے جانور کا گوشت کھاناہی جائز سمجھتے تھے ۔یہی طریق کار ہنود میں بھی رائج رہا۔( تہذیبوں کی کایا کلپ ۔کیرن آرامسٹرانگ ۔ص۲۲)اسلام میں بھی اس کے قانون کے مطابق ذبح کئے ہوئے جانور کے گوشت کو جائز کہا گیاہے،جس پر آج واویلا مچا ہواہے ۔ذبیحہ مذہبی اصول و ضوابط کےمطابق ہوتاہے جو تمام قدیم مذاہب میں بھی رائج تھا ۔
زرتُشت کا عہد آریائی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے ۔اس نے زمام حکومت سنبھالتے ہی مختلف اصلاحات کو رواج دیا جنہیں آریائی لوگوں نے پسند نہیں کیا ۔زرتشت نے دیوتائوں کو خیر و شر اور نیکی و بدی کے لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا ،یہ عقیدہ ہندودھرم میں آج تک قائم ہے ۔زرتشت کی موت کے بعد آریوں میں اختلافات پنپنے لگے لہذا اس کے پیروکار جنہیں ’اوستا آریائی ‘کہا جاتاہے جنوب کی طرف ہجرت کرگئے اور مشرقی ایران میں آباد ہوگئے ۔(قدیم ہندوستان کی تاریخ۔رما شنکر ترپاٹھی۔ص۵۳ تا ۵۵)ایران میں انکے آباد ہونے کے بعد زرتشتی نظریات و عقاید نے قومی مذہب کی شکل اختیار کرلی ۔ہند آریائی زرتشتوں کے بالمقابل امن پسند نہیں تھے ۔انہیں تلوار اور گھوڑے سے بے حد عشق تھا ۔یہ لوگ زرخیز چراگاہوں کو ہتھیانے اور گایوں کو چرانے میں مہارت رکھتے تھے ۔اپنی اسی جبلت کے تحت وہ اندر دیوتا کی پرستش کرتے تھے ۔یہ وہ عہد تھاکہ جب سنسکرت آریوں کے ایک گروہ نے روسی چراگاہوں میں ہنگامہ برپا کررکھا تھا ۔ان کے اس مجادلانہ رویے سے تنگ آکر ایک گروہ خاموشی کے ساتھ جنوب کی طرف ہجرت کرگیا جو افغانستان سے گذرکر دریائے سندھ کے معاون دریائوں کے بیچ واقع پنجاب کے زرخیز میدانوں میں آباد ہوگئے ۔انہوں نے اپنی نئی تہذیب کو ’سپت سندھو‘ یعنی سات دریائو ں کا نام دیا ۔قدیم آریائی تہذیب کی سب سے بڑی دین ’’براہمی رسم الخط‘ ہے جس کا ارتقا ہندوستان میں ہوا۔ہندوستان کی تمام زبانوں کی لکھاوٹوں کا مآخذیہی رسم الخط ہے جسے آریوں نے ابتدا سے اپنی زبانوں کے لئے استعمال کیا تھا۔(اردو زبان کی تاریخ کا خاکہ ۔مسعود حسین خاں۔ص۸ تا ۱۲)
ویدی زمانے کے آخری دور میں آریائی باشندوں کے ایک گروہ نے مشرق کی جانب سے دریائے گنگا اور جمنا کے درمیان دو آبہ کے علاقےمیں آباد ہونا شروع کیا۔یہ علاقہ تاریخ میں آریا ورت یعنی آریوں کی سرزمین کے نام سے متعارف ہے ۔یہاں آریوں نے الگ الگ ریاستیں قائم کیں ۔کوروپنچالہ کے بادشاہوں نے دریائے گنگا سے ملحق شمال مغربی کنارے کے میدانی علاقوں میں اپنی ریاست قائم کی اور ہستناپور کو اپنا پایۂ تخت بنایاجبکہ یادو قبائل نے جنوب کی طرف متھرا میں حکومت کی بنیادی استوار کیں۔(قدیم ہندوستان کی تہذیب۔آر۔سی۔ دت۔ص ۱۰)ویدی دور کے آغاز اور ارتقائی عہد میں برہمنوں کو مرکزیت حاصل نہیں تھی مگر امتداد زمانہ کے ساتھ برہمنوں نے سماجی و سیاسی شعبوں میں مرکزیت حاصل کرلی ۔انہیں دیوتائوں کے جیسا تقدس اور برتری دیدی گئی ۔اس تقدس اور برتری کا انہوں نے بیجا استعمال کیا جس کا خمیازہ آج تک تاریخ اور سماج کو بھگتنا پڑرہاہے ۔برہمنوں کی اسی بالادستی اور طبقاتی نظام فکر نے ہندوستان کو صدیوں پیچھے دھکیل دیا ۔آج سنگھ اسی طرز فکر کو رواج دینے کی سعی کررہاہے ،جبکہ اس کے ظاہری افکارونظریات برہمنیت زدہ نظام کے آئینہ دار نہیں ہیں ۔لیکن منوؔ کے قانون کا احیااور اس کے نفاذ کی مسلسل کوششیں برہمن واد کا شاخسانہ ہے ۔اسی لئے آج مسلمانوں کی قومیت اور ہندوستان کے ’ہندوراشٹر‘ کا مسئلہ زیر بحث ہے ۔بہتر ہوگاکہ سنگھ پہلے ہندوستان کی تاریخ کا از سرنو مطالعہ کرے تاکہ تسامحات اور تجاہلات کاخاتمہ ہوسکے ۔تاریخ کی باز نویسی کے ذریعہ بھی بعض حقائق کی تلبیس اور تدلیس تو ممکن ہے مگر حقائق کومٹایا نہیں جاسکتا۔