-
طلاق ثلاثہ بل اور اپوزیشن کی منافقت
- سیاسی
- گھر
طلاق ثلاثہ بل اور اپوزیشن کی منافقت
1274
M.U.H
11/08/2019
0
0
سراج نقوی
سنگھ پریوار کی برسوںکی مراد پوری ہوئی اوریکساں سول کوڈ کی سمت پہلا قدم بڑھاتے ہوئے مودی سرکار راجیہ سبھا میں بھی طلاق ثلاثہ بل پاس کرانے میں کامیاب ہو گئی۔بل پاس ہونے سے مسلم خواتین کو کتنا فائدہ یا نقصان ہوگا اور اس کے کیا اثرات ہندوستانی مسلمانوں پر مرتب ہونگے یہ ایک الگ بحث کا موضوع ہے،لیکن اس بل پر ووٹنگ کے دوران کچھ اپوزیشن پارٹیوں نے جو ڈرامہ کیا اس سے ان پارٹیوں کے چہرے پر پڑی سیکولرزم کی نقاب پوری طرح اتر گئی ہے۔
راجیہ سبھا میں مذکورہ بل پر ہوئی ووٹنگ کی تفصیلات پر غور کیجیے تو یہ بات پوری طرح صاف ہو جائیگی کہ بل کو پاس کرانے میں سیکولرزم کی دعویدار اپوزیشن پارٹیوں کی منافقت ذمہ دار ہے۔ان پارٹیوں نے اپنے عمل سے مودی حکومت کو فائدہ پہنچایا اور بالواسطہ طور پر بل کے تعلق سے وہ موقف اختیار کیا کہ جس کے سبب یہ بل راجیہ سبھا میں بھی پاس ہو گیا۔خبروں کے مطابق طلاق ثلاثہ بل کی حمایت میں ۹۹ اور مخالفت میں ۸۴ ووٹ پڑے ۔جبکہ اپوزیشن پارٹیوں کے مجموعی طور پر ۲۲ ممبران پارلیمنٹ ووٹنگ کے دوران غیر حاضر رہے۔ظاہر ہے یہ غیر حاضر ممبران ہی اگر بل کے خلاف ووٹ ڈالتے تو اس کا پاس ہونا مشکل تھا۔اس کے علاوہ کئی پارٹیوں نے بل کی مخالفت کے نام پر ووٹنگ کے دوران واک آئوٹ کیا ۔اس واک آئوٹ سے بھی بی جے پی کو فائدہ ہی ہوا اور حکومت بل پاس کرانے میں کامیاب ہو گئی۔واک آئوٹ کرنے والی پارٹیوں میں پی ڈی پی بھی شامل تھی جس کے دو ممبران ہیں۔ صورتحال یہ تھی کہ بی ایس پی کے چاروں ممبران پارلیمنٹ سماجوادی پارٹی کے ۱۲ میں سے ۷ ممبران ،تیلگو دیشم کے بچے کھچے دو(چار راجیہ سبھا ممبران حال ہی میں بی جے پی میں شامل ہو چکے ہیں) کانگریس کے ۴۷ میں چار ،ترنمول کے ۱۳ میں ایک،بائیں بازو کے ۶ میں ایک اور آر جے ڈی کے ۵ میں سے ایک ممبر غیرحاضر تھے۔یہ تمام وہ پارٹیاں ہیں جو برسوں تک مسلمانوں کے ووٹوں کے سہارے اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہیں لیکن جنھوں نے بی جے پی کے ہندوتو کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور طلاق ثلاثہ بل راجیہ سبھا میں پاس کرانے میں اپنے ناکارہ پن اور منافقت کے سبب بڑا رول ادا کیا۔تلنگانہ کی ٹی آر ایس جو مسلمانوں کی دوست ہونے کے دعوے کرتی نہیں تھکتی اس نے بھی
ووٹنگ میں حصہ نہ لیکر بی جے پی کو فائدہ ہی پہنچایا۔جبکہ بی جے ڈی جو کہ این ڈی اے کا حصہ بھی نہیں ہے اس نے بل کی حمایت کی ۔شائد نوین پٹنائک کو اس میں اپنا کوئی سیاسی فائدہ نظر آیا ہو۔بی جے ڈی الیکشن کے دوران بھی کہہ چکی تھی کہ وہ حمایت کے تعلق سے اپنا فیصلہ وقت آنے پر کریگی۔حالانکہ نتیش کی جنتا دل (یو) نے عنقریب اسمبلی الیکشن کو دیکھتے ہوئے بل کی مخالفت کی۔لیکن اس مخالفت سے بھی بی جے پی کو بل پاس کرانے میںکوئی نقصان نہیں ہوا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اب کانگریس سمیت تمام اپوزیشن پارٹیاں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہیں کہ حکومت نے انھیں بل پاس کرانے کے معاملے میں اندھیرے میں رکھا اور غلط طریقے سے بل پاس کرا لیا گیا۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ پارٹیاں حکمراں جماعت سے اس بات کی توقع کر رہی تھیں کہ وہ اپوزیشن پارٹیوں کو بل پاس کرانے سے باز رکھنے میں تعاون دے؟پورے میڈیا کو یہ معلوم تھا کہ کس دن بل پیش ہونا ہے ۔بی جے پی نے اپنے ممبران کو وہپ بھی جاری کر دیا تھا اس کے باوجود اگر اپوزیشن پارٹیاں اتنے اہم بل کے تعلق سے گمراہی کی شکار ہوئیں یا اندھیرے میں رہیں تو یہ منافقانہ گمراہی ہے جسے ذہن میں رکھ کر مسلمانوں کو ان پارٹیوں کے تعلق سے اپنا موقف طے کرنا چاہیے۔
ایک پریس کانفرنس کرکے اپوزیشن نے بی جے پی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ بل پاس کرانے کے لیے غیر جمہوری طریقے اپنا رہی ہے۔ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ڈیرک اوبرائن نے سوال کیا ہے کہ بل پاس ہو رہا ہے یا پّزا ڈیلیوری ہو رہی ہے؟ٖغلام نبی آزاد کا کہنا ہے کہ حکومت نے بل کو اسٹینڈنگ اور سیلیکٹ کمیٹی کے پاس نہیں بھیجا۔ایسا کئی دہائیوں میں پہلی بار ہو رہا ہے۔آ ر ٹی آئی بل کے تعلق سے بھی کانگریس نے اسی موقف کو دہرایا ہے۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کی آمریت کے سامنے ہتھیار ڈال چکی ہیں ۔ جمہوریت کی بقا کا معاملہ ہو یا مسلمانوں،دلتوں یا دیگر کمزور طبقات کے حقوق کی حفاظت کا سوال یہ تمام پارٹیاں بی جے پی کے ہندوتو سے اتنی ڈری سہمی ہوئی ہیں کہ بیانوں میں بھی وہ حوصلہ مندی اور جارحانہ انداز مفقود ہو تا جا رہا ہے کہ جو اپوزیشن کا طرّہ امتیاز ہونا چاہیے۔آر ٹی آئی بل جو دراصل کانگریس کی منموہن حکومت کا بڑا ور قابل تعریف کارنامہ تھا اس کو بھی ترمیم کے ذریعہ مودی حکومت نے کمزور کر دیا لیکن کانگریس اس کی مخالفت بھی اس شدت سے نہ کر سکی کہ جس کی ضرورت تھی۔اب اپوزیشن پارٹیاں کہہ رہی ہیں کہ حکومت نے تین طلاق بل اور آر ٹی آئی بل کے تعلق سے جو کیا وہ اچھا نہیں کیا۔بے شک حکومت کی نیت ان بلوں کے تعلق سے صاف نہیں تھی اور ان میں سے ایک کے ذریعہ مسلمانوں کے عائلی قانون کو نشانہ بنایا گیا تو دوسرے کے ذریعہ عوام سے ایک جمہوری حق چھین کر جمہوریت کو کمزور کیا گیا۔لیکن ان دونوں ہی معاملوں میں حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی عدم فعالیت اور اس سے بھی زیادہ منافقت ذمہ دار ہے۔اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ تین طلاق بل اور آر ٹی آئی بل کو سیلیکٹ کمیٹی کو بھیجنے کے بارے میں حکومت سے بات ہوئی تھی،لیکن اس نے اپوزیشن کو بھروسے میں لیے بغیر ہی اسے پاس کرا دیا۔ اپوزیشن کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ اس کی اس مسئلے پر جب حکومت سے بات ہوئی تو کیا اس نے اپوزیشن کو اس سلسلے میں کوئی یقین دہانی کرائی تھی۔اگر یقین دہانی نہیں کرائی گئی تو یہ ذمہ داری اپوزیشن پارٹیوں کی تھی کہ وہ حکومت کے طور طریقوں کو دیکھتے ہوئے اپنی آنکھیں کھلی رکھتیں۔اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت نے مذکورہ بلوں کو سلیکٹ کمٹی میںبھیجنے کے ان کے مطالبے پر کہا تھا کہ وہ اس بارے میں انھیں مطلع کریگی لیکن اس سے پہلے ہی بل پاس کرا لیے گئے۔یہ صورتحال درحقیقت اپوزیشن کی لاپروائی کا ہی ثبوت ہے۔اگر اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کی شاطرانہ چالوں کو سمجھنے میں ناکام رہی ہیں تو اس کے لیے وہ خود ذمہ دار ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں میں اب اتنا حوصلہ نہیں بچا ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں اور خصوصاً اقلیتی مفادات کے معاملے میں حکومت کے فیصلوں کے خلاف آواز اٹھا سکے اور ان فیصلوں کو چیلنج دے سکے۔ان پارٹیوں کو لگتا ہے کہ مسلمانوں یا دلتوں کے حق میں آواز بلند کرنے سے اکثریتی طبقہ خصوصاً ہندوتو وادی لابی ان سے ناراض ہو جائیگی۔اسی لیے یہ پارٹیاں مسلم مسائل سے دیدہ و دانستہ چشم پوشی اختیار کر رہی ہیں۔طلاق ثلاثہ بل کے تعلق سے ان پارٹیوں نے جو رویہ اختیار کیا وہ درحقیقت خود ان پارٹیوں کی منافقت کی دلیل ہے۔
ان اپوزیشن پارٹیوں میں بھی اتر پردیش کی دو اہم پارٹیوں بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی کا رول اس لیے زیادہ شرمناک ہے کہ ان پارٹیوں کے جو بھی ممبران پارلیمنٹ حالیہ لو ک سبھا الیکشن میں کامیاب ہوئے ہیں ان میں مسلم ووٹوں کا سب سے اہم رول رہا ہے۔لیکن ان دونوں پارٹیوں کے ممبران راجیہ سبھا تین طلاق بل پر جس طرح راجیہ سبھا سے غیرحاضر رہے وہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ ان پارٹیوں کو مسلمانوں کے مسائل حل کرنے یا ان کے حق میں آواز اٹھانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔اتر پردیش وہ ریاست ہے کہ جہاں آئیندہ برس اسمبلی الیکشن ہونے ہیں۔ایسے میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مستقبل کی انتخابی سیاست کے تعلق سے جو بھی حکمت عملی اختیار کریں اس میں ان منافق سیکولرسٹوں کو کنارے کرکے اور ان سے دوری بناکر ہی کوئی قدم اٹھائیں۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)