ڈاکٹر سلیم خان
وزیراعظم نریندر مودی کیلئے حکومت ایک ایسی محبوبہ تھی جس نے ان کو اپنی دھرم پتنی کا تیاگ کرنے کو مجبور کر دیا۔اس کو حاصل کرنے کے لیے انہوں کیا کیا نہیں کیا؟ فسادات کروائے، ملک بھر کی خاک چھانی اوربھانت بھانت کےبہروپ اختیار کیے بالآخر 16 مئی 2014 کو ان کے سپنے ساکار ہوگئے اور سات پھیرے لے لیے گئے ۔ اس کے بعد وہ اپنی نئی نویلی دلہن کی خدمت میں لگ گئے۔ اس کو پالینے کے بعد انہیں یہی ایک فکر لاحق ہوگئی کہ کہیں 2019 میں یہ بے وفا منہ موڑکر نہ چلی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پچھلاانتخاب جیتنے کے ساتھ ہی اگلے انتخاب کی تیاری کا آغاز فرما دیا۔ آج حالت یہ ہے کہ مودی جی کے ہرا قدام و فیصلے کو سیاسی مبصرین اسی عینک سے دیکھتے ہیں ۔ کوئی یہ جاننے کوشش نہیں کرتا کہ اس سے عوام کا کیا فائدہ یا ملک کا کون سا نقصان ہوگا ؟ ہر کوئی اس حساب کتاب میں لگ جاتا ہے کہ اس سے 2019 کے الیکشن پر کیا اثر پڑے گا؟ یہ مودی جی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی راہ کو کس حدتک ہموار کرے گایا اس سے ان کی راستے میں کون کون سی رکاٹیں کھڑی ہوں گی گویا ملک و قوم کی فلاح بہبود پر ایک فرد کے اقتدار نے فوقیت حاصل کرلی ہے۔ حالیہ کابینی ردوبدل کو کا محور و مرکز بھی یہی فتنہ ہے۔ مودی سےاقتدار کی محرومی کا ڈریہ کاغذی گھوڑے دوڑاتا ہے؎
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں
غنیم وقت کے حملے کا مجھ کو خوف رہتا ہے
40 ماہ قبل جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تھا تو وزراء کی تعداد 46 تھی اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ دبلی پتلی اور تیز طرار سرکار ہوگی لیکن 6 ماہ کےاندر مودی جی کو احساس ہوگیا کہ اس طرح کام نہیں چلے گا اور انہوں نے نومبر 2014 میں اس کے اندر 21 کااضافہ کردیا۔ ڈیڑھ سال تک اس سے کام چلایا اور پھر ایک بار توسیع فرمائی تو اسے بڑھا کر 78 تک لے گئے یہ قریبی زمانے میں سب سے بڑی کابینہ تھی اور دستوری پابندی کی حد 83 سے قریب پہنچ گئی تھی۔ اس بار جو تبدیلیاں کی گئیں اس کے نتیجے میں وزراء کی تعداد کو 73 تک محدود کیا گیا جو اپنے آپ ایک خاصی موٹی تازی کابینہ ہے46 سے 78 کا سفر ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص دوسال کے اندر 32 سال بوڑھا ہوجائے مگر جب چلنا پھرنا دوبھر ہوجائے تو وہ ڈائٹنگ و میک اپ کرکے اپنی عمر 5 سال گھٹا کر پیش کرے ۔ ویسے اپنے آپ کو جواں سال بناکر پیش کرنے کے فن میں مودی جی کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
اس بار جب کابینی ردوبدل کی خبریں گرم ہوئیں تو بدنام زمانہ وزیرریلوے سریش پربھو نے ازخود اپنے استعفیٰ کی پیشکش کردی اس لیے کہ یکے بعد دیگرے ہونے والے حادثات کے بعد پربھو کو یقین ہو گیا تھا کہ مودی جی ان کا پتہ کاٹ دیں گے ایسے میں مستعفی ہوجانے میں انہوں نے عافیت سمجھی ۔ ڈوکلام کے تنازع کے بعد ایک ہمہ وقتی وزیردفاع کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی اس لیے کہ مودی جی اس دوران مکمل چپی ّ سادھے رہے ۔چین کی جانب سے آئے دن تضحیک آمیز دھمکیوں کا خاطر خواہ جواب کوئی نہیں دےسکا۔ اس لیے امید تھی کہ سنگھ پریوار کوئی طاقتور اور دلیر وزیردفاع تجویز کرے گا جو چین جیسے دشمنوں کو شایانِ شان جواب دے سکے لیکن اس کابینی توسیع نے ان دونوں محاذ پر قوم کو مایوس کردیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ بانجھ پریوار باصلاحیت افراد کے معاملے میں شدید قحط الرجال کا شکار ہے اس لیے نئے وزراء میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نےنہ کبھی سنگھ کی شاکھا دیکھی تھی اور نہ خاکی چڈی پہنی تھی۔ انہیں میں سے ایک نئی وزیردفاع نرملا سیتارامن بھی ہیں ۔
سریش پربھو سے ریلوے کی وزارت لے کر انہیں اس سے اہم وزارتِ صنعت و تجارت تھما دی گئی۔ جو شخص ریلوے جیسی سیدھی سادی وزارت نہیں سنبھال سکا اور جس کے زمانے میں پہلی بار لوگوں نے ٹرین میں سفر کرنے سے قبل انشورنس نکالنا شروع کردیا اب وہ پہلے سے تباہ شدہ صنعت و تجارت کا کیاحال کرے گا کون جانے ؟ قومی صنعت و تجارت کی تباہی و بربادی کے لیے ذمہ دار کوئی اور نہیں نرملا سیتارامن ہے جن کو ترقی دے کر وزیردفاع بنادیا گیا۔ اس پر یہ پرفریب دعویٰ کے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو ترقی دی گئی ہے۔ مودی جی نے ملک میں صنعت و تجارت کو پروان چڑھانے کے لیے دو نہایت آرزو مند مہمات کا اعلان کیا جن میں سے پہلی ’میک ان انڈیا ‘ تھی اور دوسری ’اسٹارٹ اپ انڈیا‘۔ یہ دونوں اسکیمات بری طرح فلاپ ہوچکی ہیں ۔ میک ان انڈیا کے تحت نئے کارخانوں کی تعمیر تو درکنار پرانی صنعتیں بند ہورہی ہیں اور ملک میں بیروزگاری کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسٹارٹ اپ انڈیا کا یہ حال ہے کہ اس کے تحت شروع ہونے والے90 فیصد سے زیادہ تر کاروبار ۵ سال کے اندر دم توڑدیتے ہیں ۔ نرملا کے کام کا موازنہ دنیا بھر میں تجارتی تنوع اور جدت پسندی سے کیا جاسکتا ہے ۔ ان کے ایک سال میں بھارت نے 1432 پیٹنٹ درج کیے جبکہ اسی دوران جاپان نے 44 ہزار، چین نے 30 ہزار اور جنوبی کوریا نے 15 ہزار پیٹنٹ فائل کیے۔ اس لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سریش کے ساتھ نرملا کی بھی چھٹی کردی جاتی لیکن اس اندھی نگری چوپٹ راج میں دونوں کی ترقی ہوگئی۔
اس دوران نرملا نے اپنی وزارت پر توجہ دینے کے بجائے وزیراعظم کے سب سے بڑے فلاپ شو نوٹ بندی کا ذرائع ابلاغ میں خوب جم کر دفاع کیا اور اس کاانعام یہ پایا کہ انہیں ملک کا وزیر دفاع بنادیا گیا ۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ ٹیلی ویژن کے پردے پر جھوٹ سچ بول کر اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی اور چیز ہے نیز دنیا کی تیسری سب سے بڑی وزارتِ دفاع کی نگرانی کوئی اور ہی کام ہے۔ پہلے تو بی جے پی والے ایک طویل عرصے تک بغیر کسی ہمہ وقتی وزیردفاع کے کام چلاتے رہے ۔ درمیان میں ایک ایسے مسخرے کو لے آئے کہ جس نے جب بھی زبان کھولی ایک تنازع پیدا کردیا اور جسے گوا جیسی معمولی ریاست کا وزیراعلیٰ بناکر بھگا دیا گیا ۔ اب یہ ذمہ داری ایک ایسی خاتون کے حوالے کی گئی ہے جو اپنی سابقہ وزارت میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے مگر ٹیلی ویژن کے سامنے زبان چلانا جانتی ہے ۔ مودی جی شاید زبان درازی کی مدد سے آئندہ انتخاب جیتنا چاہتے ہیں ۔
اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد مودی جی نے مہنگائی کے میدان میں زبردست تیزی دکھائی۔ ایک ایسے دور میں جب کے معدنی تیل مٹی کے مول بک رہا تھا انہوں پٹرول کی قیمت میں اضافہ کردیا اور پہلی مرتبہ ’بازارکی مرغی دال برابر‘ ہوگئی ۔ یعنی مرغی دال کی طرح سستی نہیں بلکہ دال بھی مرغی کی مانند مہنگی ہوگئی خیر دونوں برابر تو ہو ہی گئے۔ یہ حالت بدستور قائم ہے۔ اب تو لوگ نئے اچھے دن کے بجائے ’دور گگن کی چھاوں میں ‘ میں چھپے پرانے برے دن یاد کرنے لگے ہیں ۔ شیلندر کا لکھا نغمہ ’کوئی لوٹا دے میرے بیتے ہوئے دن‘ ہر کس وناکس کی زبان سے جاری ہوگیا ہے ۔ پہلے سال کی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مودی جی نے نوٹ بندی کرکے عوام کا جینا دوبھر کردیا ۔ اس سے نجات ملی تو جی ایس ٹی کا عذاب آگیا ۔ اب اگر وہ آئندہ 20 ماہ میں کچھ نہ بھی کریں توان کے اندھے بھکت اس خوشی میں ووٹ دیں گے کہ عوام کسی نئی مصیبت میں مبتلا ہونے سے بچ گئے ۔ مودی جی کی ہانپتی کانپتی سرکار کو اس اظہار تشکر سے ممکن ہےمزید پانچ سال کا آکسیجن فراہم مل جائے لیکن اگر باقیماندہ 20 ماہ کے اندر انہوں نے ایک اور حماقت کردی تووہ عوام کی برداشت کے باہر ہوجائیگا اور ان کی لٹیا ڈوب جائیگی ۔ ویسے جب بھی یہ سرکار جائے گی عوام کی زبان پر یہ شعر رواں ہوگا؎
دے کر فریب روشنی بستی جلاگئے
ہاتھوں میں مشعلیںلئے کچھ لوگ رات کو