عالم نقوی
یہ پروفیسر اپوروا نند جھا اکے مضمون کی سرخی ہے جو ماہنامہ اَفکار مِلّی کے تازہ شمارے اگست 2017 میں شایع ہوا ہے۔ وہ دلی یونیورسٹی کے شعبہ ہندی میں استاد ہیں لیکن اپنا نام صرف ’اپوروا نند ‘ لکھنا اور پکارا جانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اُن کے کم اَزکم دَس ویڈیوز،اور متعدد مضامین یُو ٹیوب پر موجودہیں۔ حق بیانی اور پُر عزم و حوصلہ بخش دلیری ان کی نمائندہ خصوصیات ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اِس کالم کے وہ قارئین بھی اِس بہت اچھے مضمون کے اِستِفادے سے محروم نہ رہیں جن تک اَفکار مِلّی نہیں پہنچتا۔ تاہم ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کی اِدارت میں گزشتہ 32 برسوں سے مسلسل ہر مہینے شایع ہونے والا یہ جریدہ وطن ِعزیز کا آئینہ اور مسلمانان ِہند کے دلوں کی دھڑکن ہے اور اِسی لیے ہر اُس گھر میں اِسے ضرور ہونا چاہیے جہاں اُردو بولی ہی نہیں پڑھی بھی جاتی ہے۔ شری اَپوروا نند جی لکھتے ہیں کہ :
’’مسلمانوں کو مارے جانے سے انکار کر دینا چاہیے ! مسلمانوں کو خود اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے اور اجتماعی طور پر یہ اعلان کرنا چاہیے کہ وہ اپنے تعلق سے فیصلے کرنے کا اختیار کسی دوسرے کو دینے کے لیے تیار نہیں۔ انہیں پہلو خان اور عبد ا لغفار قریشی کی طرح مرنے سے انکار کرنا ہوگا۔ انہیں اعلان کرنا ہوگا کہ جس طرح جموں میں زاہد احمد کو ہلاک کیا گیا ،جس طرح مظلوم انصاری اور امتیاز خان کو جھار کھنڈ میں ہلاک کیا گیا ،جس طرح محمد اخلاق کو اتر پردیش میں ہلاک کیا گیا اور جس طرح مستان عباس اور جنید کو کو ہریانہ میں ہلاک کیا گیا وہ اب اس طرح مرنے کو ہرگز ہر گزتیار نہیں۔
’’میں جانتا ہوں کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ سننے میں عجیب لگتا ہے لیکن آج یہی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ایسا نہیں لگتا کہ پولیس اور سول انتظامیہ مسلمانوں کے قتل کی وارداتوں کو روکنے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں (اس کا تازہ ترین ثبوت جمعرات 3 اگست کے اخباروں میں شایع ہونے والی مدھیہ پردیش کے بیتول شہر کی واردات ہے جہاں پولیس کے سامنے گؤ رکشا کے نام پر کھلی غنڈہ گردی ہوئی ،تین نوجوانوں کو سر عام پیٹا گیا اور روکنے کے بجائے پولیس خود بھی اس ظلم میں شریک ہو گئی۔ ع۔ ن) بلکہ پولیس اور انتظامیہ کے لوگ اس طرح کے قتل (اور دہشت گردی )کے واقعات کو باہمی تنازعے یاآپسی رنجش کا نتیجہ قرار دے کر فوری جوابی (ظاہر ہے کہ فرضی ) ایف آئی آر درج کر کے (نام نہاد) ’’توازن ‘‘ برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس جوابی ایف آئی آر میں خود مقتول اور مظلوم ہی کو جھگڑے کی جڑ بتاتے ہیں۔ (جیسا کہ مقتول اخلاق کے معاملے میں ہوا۔ اس کی پوری فیملی ہی کے خلاف ایک فرضی ایف آئی آر درج کر لی گئی۔ اور اب تو ایک قاتل ملزم کوجو ایک بی جے پی ممبر کا بیٹا ہے ، عدالت نے بھی ضمانت پر رہا بھی کر دیا ہے۔ ع۔ ن )نچلی عدالتوں کا رویہ متاثرین سے زیادہ ملزمین کے حق میں رہتا ہے۔ کچھ ایسے معاملات میں حال ہی میں سپریم کورٹ کے دروازے بھی کھٹکھٹائے گئے ہیں لیکن لگتا نہیں کہ وہاں بھی ججز مسلمانوں کو درپیش موت اور زندگی کی کشمکش والی موجودہ ہنگامی صورت حال کی مخصوص نوعیت کا صحیح اِدراک کر پائیں گے۔
’’مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد پر سیاسی اور سماجی اجتماعی رد عمل بھی بد قسمتی سے حوصلہ افزا نہیں ہے کسی بھی سیاسی جماعت نے ابھی تک یہ حوصلہ نہیں دکھا یا ہے کہ وہ قاتلوں کو ان کے نام سے پکارے اور یہ کہے کہ مسلمانوں کو صرف اِس لیے ہلاک کیا جا رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں ! یہاں تک کہ اُن سیاسی پارٹیوں نے بھی یہ کام نہیں کیا جو اُٹھتے بیٹھتے سیکولرازم کی قسمیں کھاتی رہتی ہیں۔ کوئی سیاسی پارٹی یہ دیانت دارانہ حوصلہ نہیں رکھتی کہ وہ یہ کہہ سکے کہ مسلمانوں کی یہ ہلاکتیں ایک منظم اور نفرت انگیز مہم جوئی کا حصہ ہیں۔ بھارت میں مسلمان ہی وہ ،واحد قوم ہیں جہاں ان کے نولود بچوں کے تعلق سے بھی اندیشے ظاہر کیے جانے لگے ہیں اور انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے!
’’ ایسے میں مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس ملک میں کسی کے رحم و کرم پر زندہ نہ رہیں بلکہ اس لیے رہیں کہ یہ سرزمین اُتنی ہی اُن کی بھی ہے جتنی کسی اور کی۔ انہیں یہ اعلان کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی کو بھی یہ اختیار نہیں کہ اُن سے کہے کہ انہیں کیا کھانا چاہیے اور کس کی عبادت کرنا چاہیے۔ اور یہ کہ بھارت کے دستور میں ان سے جو وعدہ کیا گیا ہے اور انہیں جو حقوق دیے گئے ہیں انہیں توڑنا بھی جرم ہے۔
’’مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ (ببانگ دُہَل )کہیں کہ وہ (ہر بھارتی شہری کی طرح ) یہیں رہیں گےاور اپنی پوری ’مسلمانیت ‘کے ساتھ رہیں گے اور کسی کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ اُن سے ملک سے چلے جانے کو کہے۔
’’یہ سب کچھ ہونا چاہیے لیکن اس کی شروعات کے لیے انہیں یہ کہنا ہوگا کہ وہ اب مزید ہلاک ہونے کو تیار نہیں اور انہیں پارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں سے کہنا ہوگا کہ اس مسئلے کو نظر انداز کرتے رہنے کی پالیسی ترک کی جائے اور فوری طور پر اس کا نوٹس لیا جائے ‘‘
یہ شری اپوروانند جی مکے مضمون کے اہم حصے ہیں۔ اصل اور مکمل مضمون افکار ملی کے شمارے اگست 2017 کے صفحات 35 اور 36 پر پڑھا جا سکتا ہے۔