-
صورتحال بدلنے کے لئے حالات سے لڑنا ضروری
- سیاسی
- گھر
صورتحال بدلنے کے لئے حالات سے لڑنا ضروری
519
m.u.h
09/08/2023
0
0
تحریر:عادل فراز
میوات کے نوح علاقے میںاچانک کچھ نہیں ہوا۔یہ فساد ایک منظم سازش کا نتیجہ ہے جس کی خبر انتظامیہ اور ایجنسیوں کو پہلے سے تھی۔ہم اس کو فرقہ وارانہ فساد بھی نہیں کہہ سکتے،بلکہ فرقہ پرستوں نے فرقہ وارانہ ذہنیت کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کیاہے ۔میوات ہمیشہ امن و سکون کا گہوارہ رہاہے ۔لیکن جب سرکار کے حمایت یافتہ شرپسند گروہ ریاست میں آزاد گھوم رہے ہوں ،اس وقت کسی بھی علاقے کا امن وسکون برباد ہوسکتاہے ۔بجرنگ دل اور ویشوو ہندوپریشد جیسی تنظیموں کے کارکنان ریاست میں خود کو سرکار اورقانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔انہوں نے’گئو رکشا‘ کے نام پر سرحدی علاقوں میں غنڈہ گردی کا بازار گرم رکھا ہے ۔مختلف ضلعوں کے نواحی علاقوں میں سینکڑوں ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں ،جن میں ’گئو رکشا‘ کے نام پر بہیمانہ قتل کئے گئے ۔راتوں میں یہ گروہ سڑکوں پر دندناتا گھومتا ہے اور جس کو چاہتاہے اس کو تشدد کو نشانہ بناتاہے ۔پولیس’ گئو تسکروں ‘ کاسراغ لگانے میں ناکام رہتی ہے لیکن یہ لوگ مویشی تاجروں کی گاڑیوں کے پیچھے رات بھر گولیاں برساتے پھرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب اور ہریانہ جہاں جانوروں کی بڑی خریدوفروخت ہوتی تھی ،اب ان منڈیوں کی طرف دیگر ریاستوں کے لوگ کم رخ کررہے ہیں ۔ہریانہ اور اترپردیش کے سرحدی علاقے میں ان گروہوں کی دہشت ہے ۔ظاہر ہے یہ تمام کرتوتیں انتظامیہ کی ناک کے نیچے ہوتی ہیں مگر وہ بے بس ہے۔اگر انتظامیہ ان کے خلاف کوئی کاروائی کرتی ہے تو ان تنظیموں کے غنڈے اور ذات برادری کے لوگ تھانوں کو گھیر لیتے ہیں ۔جنید اور ناصر کے قتل کے بعد بھی یہی صورتحال سامنے آئی ۔نوح میں حالیہ فساد کے بعد بھی مہاپنچایتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا،جن میں یہ مطالبہ کیاجارہاہے کہ جن شرپسندوں کو پولیس نے گرفتار کیاہے انہیں رہا کیاجائے ۔کیاایسی پنچایتوں پر روک لگانا سرکار اور انتظامیہ کے بس سے باہر ہے ؟ کیا ان کے خلاف یوگی مہاراج اور کھٹّر کا ‘بلڈوزر ‘ چلے گا؟ ہرگز نہیں ! کیونکہ سرکار کو ان کے ووٹوں کی درکار ہے ،ریاست میں امن کی بحالی کی نہیں!
نوح میں ہوا فسادکسی ایک تنظیم یا گروہ کی ذہنی خباثت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ بہت سے عوامل کارفرماہیں ۔اول تویہ کہ سرکار پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں منی پور کی صورتحال پر بحث سے بچنا چاہتی تھی ۔اس کے لئے سرکار کے پاس کوئی معقول جواز نہیں تھا ۔دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ ہریانہ میں کسان تحریک کے بعد ’جاٹ-مسلمان ‘ اتحاد فروغ پارہا تھا ،جو آئندہ پارلیمانی اور ریاستی انتخابات میں سرکار کے لئے مشکلیں پیدا کرسکتاتھا ،اس لئے اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے نوح میں فساد کی سازش رچی گئی ۔اگر ہم پہلے سبب پر بات کریں تو معلوم ہوگاکہ سرکار منی پورمیں پوری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔صورتحال سے نمٹنا اس کے بس سے باہر ہے ۔ منی پور کے حالات پر کسی ایک مختصر کالم میں تبصرہ نہیں کیاجاسکتا ،بس اتنا کہنا کافی ہوگاکہ منی پور جل چکاہے ۔انسانیت کا وجودختم ہوچکاہے ۔عزتیں محفوظ نہیں ہیں ۔اس لئے پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں سرکار بحث سے فرار چاہتی تھی ۔مگر حزب اختلاف منی پور تشدد پر بحث کا مطالبہ کررہا تھا ۔نوح کے فساد کے بعد میڈیا اور سیاسی رہنمائوں کو نیا موضوع مل گیا ،جس کے بعد لوگوں کی توجہات کو بھٹکانا ان کے لئے آسان ہوگیا۔اس وقت ہندوستان کے عوام منی پور سے زیادہ نوح میں ہوئے فساد پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں ،کیونکہ یہ ’ہندو ئوں اور مسلمانوں ‘ کے درمیان کا معاملہ ہے ۔سرکار نوح میں مسلمانوں کے خلاف جارحانہ کاروائی کرکے اکثریتی طبقے کو خوش کرنا چاہتی ہے،تاکہ انہیں مسلمانوں اور اپوزیشن کے خلاف متحد کرسکے ۔یہ صورتحال منی پور میں نہیں ہے ،اس لئے وہاں اس طرح کی ’انہدامی کاروائی‘ نہیں کی جاسکتی۔
نوح میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد سرکار یک طرفہ کاروائی کررہی ہے ۔ایسا پہلی بار نہیں ہورہاہے بلکہ ہر فساد کے بعد ایساہی ہوتا آیاہے ۔سرکار اور انتظامیہ کی نگاہ میں پہلا مجرم مسلمان ہوتاہے ۔انتظامیہ افسران کی ذہن سازی مسلمانوں کے خلاف کی گئی ہے ،جس کے بے شمار شواہد ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ہر مجرمانہ واردات کے بعد مسلمانوں کو ہراساں کرنا ،نوجوانوںکی غیر قانونی گرفتاری ،گھروں اور دوکانوں کی مسماری اس بات کے شواہد ہیں کہ سرکار اور انتظامیہ کی نگاہ میں مجرم صرف مسلمان ہوتاہے ۔خاص طورپر اترپردیش کی یوگی سرکار نے مسلمانوں کے خلاف جس ’بلڈوزر کلچر‘ کو فروغ دیاہے ،اس کو ہر ریاست میں اپنایاجارہاہے ۔عدلیہ کی کاروائی سے پہلے سرکار اور ا نتظامیہ یہ طے کرلیتے ہیں کہ مجرم کون ہے۔یہی ہریانہ میں ہورہاہے ۔سرکار اور انتظامیہ نے عوام کو یہ یقین دہانی کروادی ہے کہ مجرم صرف مسلمان ہیں ۔کیونکہ بلڈوزر صرف مسلمانوں کےگھروں اوردکانوں پر چل رہاہے ۔وہ لوگ جو ’یاترا‘ میں ہتھیاروں کے ساتھ شامل ہوئے ،ان کے خلاف کوئی ٹھوس کاروائی نہیں کی گئی ۔خاص طورپر مونو مانیسر جیسا مجرم ’جنید اور ناصر‘ کے بہیمانہ قتل کے بعد آج تک آزاد گھوم رہاہے ۔اگر عدلیہ میں جرم ثابت ہونے سے پہلے گھروں اور دوکانوں کو منہدم کیاجاسکتاہے توپھر مونو مانیسر،بٹو بجرنگی اور ان جیسے دوسرے مجرموں کے خلاف انہدامی کاروائی کیوں نہیں کی گئی؟گڑگائوں میں شرپسندوں نےمسجد میں توڑ پھوڑ کی ۔امام کا قتل کردیا گیا ۔ان کے قتل کے ملزموں کو گرفتار کیاگیاہے ،لیکن ان کے گھر محفوظ ہیں ۔ان کے خلاف کھٹّر سرکار کب انہدامی کاروائی کرے گی،اس کا انتظار ہے۔اگر انصاف کے لئے بلڈوزر کلچر کا فروغ ضروری ہےتوپھر عدالتوں کی کیا ضرورت ہے ۔کس لئے سالہا سال تک مقدمات کی پیروی کی جاتی ہے ؟عدالتوں کو ختم کرکے ’بلڈوزرکلچر‘ کو فروغ دیاجائے ،تاکہ انصاف کی امید ہی باقی نہ رہے ۔
پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نےفی الوقت انہدامی کاروائی پر روک لگادی ہے ،مگر یہ بہت تاخیر سے ہوا۔ہریانہ کے متاثرہ مسلمانوں نے بھی اس سلسلے میں عدلیہ سے رجوع نہیں کیا ۔کیونکہ جن مسلمانوں کے گھروں اور دوکانوں کو نشانہ بنایا گیاہے وہ انتہائی کمزور اور پسماندہ ہیں ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ بی جے پی سرکار اور شرپسندوں سے خوف زدہ ہیں ،اس لئے عدلیہ کارخ کرنے سے کترارہے ہیں ۔دوسرے مسلم تنظیموں اور ملّی قائدین نے ہریانہ کی صورتحال پر خاموشی اختیار کرلی ہے ۔انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کسی واقعہ کی مذمت کردینا کافی نہیں ہوتا بلکہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے میدان عمل میں اترنا پڑتاہے۔خیر!ہم ملّی قیادت کی خاموشی پر تو شکوہ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ہماری قیادت دلیر نہیں ہے ۔جس دلیری کے ساتھ اکثریتی طبقے کی قیادت رہنمائی کررہی ہے ،اس کو ہماری قیادت کبھی نہیں پاسکتی۔صورتحال بدلنے کے لئے حالات سے لڑنا پڑتاہے ،شترمرغ کی طرح ریت میں سرڈالنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔اسی بزدلانہ سکوت نے ہماری قوم کو دیوار سے لگادیاہے ۔
اس سکوت کو توڑنے کی جرأت کون کرے گا؟یہ سوال ابھی قائم ہے ۔