-
ہندوستانی جماعتی نظام کی موت
- سیاسی
- گھر
ہندوستانی جماعتی نظام کی موت
1941
m.u.h
19/01/2023
1
0
تحریر:رامچندر گوہا
ہندوستانی اور بیرونی اسکالرس کا خیال ہے کہ ہمارے ملک کی جمہوریت کی صحت یا حالت دن بہ دن ابتر ہوتی جارہی ہے تاہم گرتی ہندوستانی جمہوریت کا ایک اہم پہلو اس قدر توجہ حاصل نہ کرسکا جس کا وہ مستحق ہے اور وہ پہلو جماعتی نظام یا Party System کی تباہی ہے۔ آج ہمارے ملک میں جماعتی نظام تباہ ہورہا ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں ہمارے پاس ہیں۔ مثال کے طور پر صحافتی آزادی پر حملے سے لے کر آزاد اِداروں کا بیجا استعمال اور انتخابی فنڈنگ کی گنجائش وغیرہ سے ہندوستانی جمہوریت ایک طرح سے زوال کا شکار ہوگئی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران چیف منسٹر ٹاملناڈو کے فرزند کو کابینہ میں شامل کیا گیا۔ نوجوان قارئین اس واقعہ کو ایک عام واقعہ تصور کرسکتے ہیں اور ایسے لوگ جو طویل یادداشت رکھتے ہیں، اس واقعہ کو ڈی ایم کے (ڈراویڈا مینترا کازگم) کے بنیادی اُصولوں و نظریہ کے برخلاف تصور کریں گے۔ جہاں تک ڈی ایم کے کا سوال ہے، وہ ایک زبردست عوامی تحریک کے ذریعہ منظر عام پر آئی تھی۔ ڈی ایم کے کا آغاز ٹامل شناخت کے نام پر ہوا اور اس نے تامل عوام کی نبض کو اچھی طرح جان لیا تھا چنانچہ اپنے تامل جذبات وہ احساسات کے نتیجہ میں اسے غیرمعمولی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس نے تامل تہذیب و ثقافت کا نعرہ لگایا اور ٹامل زبان کی پرزور وکالت کی اور ٹامل باشندوں کی عزت ِ نفس کے تحفظ کو اہمیت دی۔ اس کے علاوہ ڈی ایم کے نے ذات پات اور صنف کے مسئلہ پر ترقی پسند موقف اپنایا اور اس معاملے میں وہ اس وقت کی شمالی ہند میں برتری رکھنے والی کانگریس پارٹی سے آگے تھی۔ مزید یہ کہ 1967ء اس نے اقتدار میں رہ کر تامل جذبات و احساسات، تہذیب و ثقافت کو سب سے زیادہ اہمیت دی اور اس نے دوسری ریاستی حکومتوں سے کہیں زیادہ بہبودی حکومت فراہم کرنا چاہا۔ ڈی ایم کے نے خود کو تہذیبی فخر اور سماجی اصلاحات کی حامل پارٹی کے طور پر پیش کیا اور اس کے پہلے چیف منسٹر سی این آنند درائی نے اسے خاندانی یا موروثی جماعت میں تبدیل نہیں کیا بلکہ یہ کام ان کے جانشین ایم کروناندھی کا تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنے بیٹے ایم کے اسٹالن کو اپنا جانشین بنایا۔ اس طرح ٹامل تہذیب و شناخت پر فخر کرنے والے ڈی ایم کے اسی راہ پر چل پڑی جو اس کے بانیوں کی راہ نہیں تھی۔
جہاں تک موروثی یا خاندانی سیاست کا سوال ہے، صرف ڈی ایم کے ہی واحد علاقائی پارٹی نہیں ہے جو خاندانی سیاست کو اپنائے ہوئے ہے بلکہ پنجاب کی اکالی دل بھی اس معاملے میں ڈی ایم کے سے آگے ہے اور اس سے قدیم بھی ہے۔ اکالی دل کے قیام کا مقصد شناخت کیلئے لڑنا تھا لیکن جدید پارٹی پرکاش سنگھ بادل کی قیادت میں آئی تب انہوں نے اکالی دل کو بھی ایک خاندانی پارٹی میں تبدیل کردیا، دوسری طرف کئی ایک علاقائی جماعتوں جیسے مہاراشٹرا میں شیوسینا، تلنگانہ میں تلنگانہ راشٹرا سمیتی (جسے اب بی آر ایس میں تبدیل کردیا گیا ہے) موروثی قیادت والی جماعتیں ہیں۔ جب اسٹالن نے اپنے بیٹے اودھے ندھی کو کابینہ میں شامل کیا تو یقینا انہیں ادھو ٹھاکرے اور چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر سے حوصلہ ملا ہوگا جنہوں نے اپنے بیٹوں کو اپنی اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ اگرچہ اب مہاراشٹرا میں ادھو ٹھاکرے چیف منسٹر اور ان کے بیٹے آدتیہ ٹھاکرے وزیر نہیں ہیں لیکن کے سی آر کی حکومت میں ان کے فرزند کے ٹی آر سب سے اہم وزیر کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اب چلتے ہیں، شمالی ہند کی طرف ہمیں وہاں سماج وادی پارٹی، آر جے ڈی اور آر ایل ڈی جیسی جماعتیں نظر آئیں گی جن کا قیام سماجی انصاف کی بنیاد پر اور اس کے نام پر عمل میں آیا تھا لیکن اب ان تمام جماعتوں پر ان کے بانیوں اور قائدین کے بیٹوں کی اجارہ داری ہے، ویسے بھی اس معاملے میں ہندوستان کی سب سے قدیم سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس بھی موروثی سیاست سے محفوظ نہیں رہی۔ اندرا گاندھی کی قیادت میں کانگریس ایک فیملی فرم میں تبدیل ہوگئی تھی۔ اب بھی کانگریس پر گاندھی خاندان کی اجارہ داری ہے جبکہ اس کانگریس کو جنگ آزادی میں ایک اہم مقام دلانے والے مہاتما گاندھی نے کبھی بھی اسے اپنی خاندانی جائیداد بنانے کی کوشش نہیں کی۔ گاندھی جی کے چار بیٹے تھے اور تمام انگریز حکمرانی کے خلاف احتجاج کی پاداش میں متعدد مرتبہ جیل گئے۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی لیکن آزادی کے بعد ان میں سے کوئی بھی رکن پارلیمنٹ نہیں بنا۔ آزاد ہندوستان میں گاندھی جی کے چھوٹے فرزند دیوداس گاندھی سے پنڈت جواہر لال نہرو نے باقاعدہ سیاسی میدان میں اترنے کیلئے کہا تھا لیکن انہوں نے بڑی انکساری کے ساتھ پنڈت جی کے مشورہ کو رد کردیا اور ایک اخبار کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات جاری رکھی۔ 1949ء میں پنڈت جواہر لال نہرو نے دیوداس گاندھی کو سوویت یونین میں ہندوستانی سفیر مقرر کرنے کی پیشکش کی اور اسی سال انہیں مرکزی کابینہ میں شامل ہونے کی دعوت دی اور ہر بار گاندھی جی کے فرزند نے عہدے قبول کرنے سے انکار کیا لیکن بعد میں تمام روایات و اقدار کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ اندرا گاندھی نے اپنے دونوں بیٹیوں سنجے گاندھی اور راجیو گاندھی کو سیاست میں لایا اور اپنا سیاسی وارث بنایا۔ اس سے ڈی ایم کے اور اکالی دل کے قائدین کو موروثی سیاست کے رنگ میں رنگنے کا حوصلہ ملا۔ سونیا گاندھی نے اندرا گاندھی کے نقش قدم پر چل کر اپنے فرزند راہول گاندھی کو کانگریس میں برتری دلائی۔ اس سے ہندوستان میں موروثی سیاست فروغ پائی۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ہندوستان میں کئی پیشے کئی خاندان چلا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر روہن گواسکر اپنے والد سنیل گواسکر کے باعث کرکٹر بنے۔ اسی طرح چیٹیشور پجارا بھی اپنے والد کے باعث ہی کرکٹر بننے میں کامیاب رہے اور اپنے باپ سے زیادہ کامیاب رہے۔ ابھیشیک بچن کو ان کے والد امیتابھ بچن کے باعث ہی فلموں میں چند کردار حاصل ہوئے لیکن انہوں نے بہت محنت کی، اس کے باوجود انہیں اپنے والد امیتابھ بچن کی طرح کامیابی نہیں ملی۔ بی جے پی کا معاملہ بھی مختلف نہیں ۔ہاں بی جے پی میں اس کے چیف منسٹروں کے ذریعہ موروثی سیاست کو فروغ مل رہا ہے۔