-
سیکولر ہندوستان پر مذہبی سیاست کا غلبہ
- سیاسی
- گھر
سیکولر ہندوستان پر مذہبی سیاست کا غلبہ
96
M.U.H
04/12/2025
0
0
تحریر: عادل فراز
ہندوستان صدیوں سے مختلف مذہبوں ،زبانوں ،نسلوں ،تہذیب و ثقافت اور رسوم و رواج کا گہوارہ رہاہے ۔اس کی سماجی ساخت کی بنیاد کثرت میں وحدت کے اصول پر استوار ہے ۔اس ملک میں ہندومسلمان سکھ عیسائی بدھ جین اور دیگر مذہبوں کے ماننے والے مل جل کر رہتے آئے ہیں ۔اسی تنوع نے ہندوستان کو ایک شاندار تہذیبی ورثہ عطاکیاہے ۔مگر آزادی کے بعد فاشسٹ طاقتوں نے مذہب کو سیاست کا آلۂ کار بناکر اس تنوع پر کاری ضرب لگائی اور دھیرے دھیرے ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دیاگیا۔ مذہبی سیاست کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے ملک کی جمہوریت، سماجی ہم آہنگی، آئینی اقدار اور معاشی ترقی پر منفی اثرات مرتب کئے۔مذہبی سیاست نے نت نئے سیاسی اور سماجی مسائل کو جنم دیا۔خاص طورپر بی جے پی کے اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آنے کے بعد صور تحال مزید پیچیدہ ہوگئی ۔مذہبی سیاست منافرت میں بدل گئی اور اقلیتوں کے خلاف ایک الگ بیانیہ تشکیل پانے لگا۔کبھی انہیں شمشان اور قبرستان کے نام پر بانٹاگیاتو کبھی ’علی ‘ اور ’بجرنگ بلی‘ کا موازنہ کرکے جذبات کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی ۔صر ف اتنا ہی نہیں مقتدر شخصیات نے مسلمانوں کے اقتصادی اور سوشل بائیکاٹ کا اعلان کرکے سرعام انہیں گولی مانے کی دھمکیاں دیں ۔آئینی عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں نے انہیں ’درانداز ‘ کہہ کر گالی دی تو کبھی ان کے مذہبی تشخص کو نشانہ بنایاگیا۔بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ مدارس کو ’دہشت گردی کا مرکز‘ کہاگیااور دہشت گردی کے الزام میں اکثر بے گناہوں کو گرفتارکرکے جیلوں میں زندہ مرنے کے لئے چھوڑ دیاگیا۔عدالتوں سے سالوں بعد جب ان کی بے گناہی ثابت ہوئی تب بھی سیاست مداروں نےاپنے جرائم پر معذرت تو دور پشیمانی کا اظہار تک نہیں کیا۔نوبت یہاں تک پہونچی کہ مذہب کے نام پر غیر ملکیوں کو شہریت دینے کے لئے ’شہریت قانون ‘ میں ترمیم کی گئی مگر مسلمانوں کو اس سے باہر کردیاگیا۔پھر ’این آرسی ‘ کے نفاذ کا اعلان کیاگیاتاکہ مسلمانوں کو خوف زدہ کرکے سیاسی مفادات کا حصول کیاجائے ۔غرض کہ مذہبی سیاست کا سارا زور مسلمانوں کے خلاف صرف ہوااور اب جب کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے ساتھ مل کر رام مندر پر مذہبی پرچم لہرادیاہے تو ہندوستانی مسلمانوں بھی گھڑیاں گن رہے ہیںکہ آخر ایودھیا میں مسجد کی تعمیر کب ہوگی جس کا حکم اسی عدالت عظمیٰ نے دیاتھاجس کے فیصلے کی بناپررام مندر کی تعمیر کی گئی ۔
مذہب پر مبنی سیاست کا پہلا اور سب سے بڑا نقصان سماجی تقسیم ہے۔ ہندوستان کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب بھی انتخابی سیاست میں مذہب کو بنیاد بنایا گیا، فسادات، نفرت اور تصادم میں اضافہ ہوا۔اکثریت اور اقلیت کے درمیان بداعتمادی پیداہوئی اور رفتہ رفتہ یہ بداعتمادی آپسی منافرت میں بدل گئی ۔اس سے مختلف برادریاں ’ہم ‘ اور ’وہ ‘ میں تقسیم ہوگئیں ۔قومی شناخت کمزور ہوئی اور فرقہ واریت میں اضافہ ہوا۔یہ صورتحال بتدریج ملک کی سالمیت اور وحدت کے لئے براہ راست ایک چیلنج بن گئی ۔اس سیاسی کیفیت نے ہندوستان کے آئینی ڈھانچے کو کمزور کردیاجو انصاف اور مساوات پر مبنی تھا۔کیونکہ مذہبی سیاست سیکولر اور جمہوری اقدار سے انحراف کرتی ہے لہذا حکومت بھی مذہبی جانب داری کا شکار ہوتی گئی ۔یہ جانب داری سیکولر کہی جانے والی جماعتوں میں بھی موجود تھی خواہ وہ کانگریس ہو یا پھر علاقائی سیکولر جماعتیں ۔بی جے پی کی سیاست توبظاہر مذہبی خطوط پر استوار تھی اس لئے اس کے یہاں تو ابتداسے جانب داری کا غالب رجحان موجود تھا۔ نریندر مودی کے برسراقتدار آتے ہی یہ جانب داری ان کا نصب العین بن گئی۔ان کی پالیسوں پر مذہبی دبائو اور اکثریت پسندی کا عمل دخل بڑھ گیا۔ قانون کی نظر میں برابری کی جگہ شناخت پر مبنی امتیاز پیدا ہونے لگا۔جب آئینی سیکولرازم کمزور ہو، تو شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کا تحفظ بھی خطرے میں پڑ جاتا ہےجس کا مشاہدہ ہم نے مودی سرکار میں بخوبی کیاہے ۔
مذہبی سیاست کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ یہ عوام کے دلوں میں نفرت اور دشمنی پیدا کرتی ہے۔اس کے ذریعہ مذہبی جذبات کو مشتعل کیاجاتاہے ۔تاریخی واقعات کو مسخ کرکے پیش کیاجاتاہے بلکہ جب مذہبی نظریہ حکومت پر مسلط ہوجائے تو تاریخ بدلنے کی تحریک شروع ہوتی ہے ۔تعلیمی نصاب متاثر ہوتاہے اور اس میں بھی مذہبی سیاست کے نام پر منافرت غالب نظر آنے لگتی ہے ۔نتیجتاً شہریوں کے درمیان روزمرہ کے تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں اور معاشرے میں بے چینی بڑھتی ہے۔مذہبی سیاست جہاں سماجی اور سیاسی اقدار کو مجروح بلکہ ختم کرتی ہے وہیں جمہوریت کو بھی نقصان پہونچاتی ہے ۔کیونکہ جب انتخابات مذہب کی بنیاد پر ہوں گے تو حکومتی کارکردگی ،ترقی ،تعلیم و صحت اور بنیادی سہولیات جیسے مطالبات پس منظر میں چلے جاتے ہیں ۔انتخابی لایحۂ عمل تعمیری ایجنڈے کےبجائے نفرت ،شناخت ،سماجی تقسیم اور جذبات سے متاثر ہوجاتاہے ۔لائق اور روشن فکرافراد کے بجائے نااہل لوگ مذہبی بنیادوں پر سیاست میں جگہ پالیتے ہیں جن کا بنیادی ہدف تعمیر کے بجائے تخریب ہوتاہے ۔یہ صورتحال جمہوریت کے لئے خطرناک بن جاتی ہے اور فاشزم کو فروغ دیتی ہے۔
مذہب پر مبنی سیاست فرقہ وارانہ کشیدگی ،اقتصاد و معیشت ،تجارت اور روزگار پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے ۔مذہبی تنازعات کاروبار زندگی کو مفلوج بنادیتے ہیں جیساکہ کانوڑ یاتراکے دوران ہوٹلوں ،ٹھیلوں اور دوکانوں پر ناموں کی تختی آویزاں کرنے کا حکم دیاگیا۔’نوراتری ‘ پر گوشت کی دوکانوں کے کھولنے پر پابندی عائد کردی گئی ۔حلال مصنوعات کے بائیکاٹ کا حکم دیاگیا۔اس طرح کے تمام فیصلوں سے صنعت و تجارت کو نقصان پہونچتاہے اور یہ فیصلے تعلیم و صحت اور ترقیاتی شعبوں میں پیش رفت کو سست بناتے ہیں ۔ایک ایسے ملک میں جہاں کروڑوں افراد غربت، بے روزگاری اور معاشی پسماندگی سے دوچار ہیں، مذہبی سیاست مسائل میں مزید اضافہ کرتی ہے۔
مذہبی سیاست کا سب سے زیادہ اثر نوجوانوں پر پڑتاہے ۔ جذباتی نعرے، فرقہ وارانہ بیانات اور غلط معلومات ان کے ذہنوں کو متاثر کرتی ہیں۔ اس کے نتیجے میںتعلیم اور کیریئر سے توجہ ہٹتی ہے ۔ نفرت انگیزی اور شدت پسندی کو فروغ ملتا ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعے فکری انتشار بڑھتا ہے۔نوجوان جو ملک کا مستقبل ہیں، وہ تقسیم اور تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں۔اس سیاست کااثر ہم ہندوستان کے نوجوانوں پر صاف دیکھ رہے ہیں ۔جس نسل کو تعلیم ،تعمیر اور ترقی پر توجہ دینی چاہیے وہ مذہب کے نام پر سیاسی جلسوں میں نعرے لگاتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔کانوڑ یاترامیں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کا فکری انحطاط ملک کے لئے تشویش کا سبب ہے ۔اسی طرح مسلم نوجوانوں پر بھی مذہبی سیاست کا نمایاں غلبہ ہے ۔ان کی قیادت بھی مذہب کے نام پر نوجوانوں کا فکری استحصال کرنے سے پیچھے نہیں رہتی ۔
مذہبی سیاست کا ایک نقصان یہ ہواکہ ہندوستان کی شبیہ عالمی سطح پر بدنام ہوئی اور ملک کا سیکولر کردار متاثر ہوا۔ہندوستان ہمیشہ سے رواداری، جمہوریت اور تکثیریت کے لیے دنیا بھر میں مشہور رہا ہے۔ لیکن جب ملک میں مذہبی سیاست، اقلیت مخالف واقعات، یا فرقہ وارانہ فسادات بڑھتے ہیں، تو بین الاقوامی برادری کے درمیان ہندوستان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے ۔انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں میں جمہوری عمل پر تشویش کا اظہار کیاجانا ملک کی بدنامی کا سبب بنتاہے ۔انسانی حقوق اورآزادی اظہار پرسوال اٹھتے ہیں تو سفارتی تعلقات اور عالمی رابطوں میں مشکلات پیداہوتی ہیں ۔
سیاست مداروں اور یرقانی تنظیموں کو معلوم ہوناچاہیے کہ ہندوستان کی طاقت اس کا تنوع، رواداری اور سیکولر جمہوری ڈھانچہ ہے۔ مذہبی سیاست اس بنیاد کو کمزور کرتی ہے اور ملک کو تقسیم، عدم استحکام اور پسماندگی کی طرف دھکیلتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست کو مذہب کے اثر سے دور رکھا جائے۔ آئین کی پاسداری اور سیکولر کردار کو مضبوط کیا جائے۔ تعلیم، معیشت اور سماجی انصاف کو قومی ایجنڈا بنایا جائے۔ عوامی سطح پر بین المذاہب مکالمہ اور ہم آہنگی کی کوششوں کو فروغ دیا جائے۔صرف اسی صورت میں ہندوستان ’وشوو گرو‘ اور ’عظیم ملک ‘ بن سکتاہے ۔جب تک ہم سیکولر جمہوری ڈھانچے کو مضبوط نہیں کریں گے ہندوستان کبھی ’وشوو گرو‘ نہیں بن سکتا۔رام مندر پر مذہبی پرچم لہرانے سے یرقانی تنظیموں اور ان کے زیر اثر افراد کو ضرورخوش کیاجاسکتاہے مگر ملک میں تعمیر وترقی کے اسباب پیدانہیں کئے جاسکتے ۔