-
سعودی معیشت کی ڈوبتی کشتی
- سیاسی
- گھر
سعودی معیشت کی ڈوبتی کشتی
1101
M.U.H
30/07/2020
0
0
تحریر: تصور حسین شہزاد
سعودی عرب کے شاہی خاندان میں اختلافات عروج پر ہیں۔ حتیٰ محمد بن سلمان اقتدار کے نشے میں اتنے زیادہ مست دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ سعودی بادشاہ شاہ سلمان کو بھی اب راستے سے ہٹا کر خود زمام اقتدار کُلی طور پر اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ محمد بن سلمان نے شاہ سلمان کی بیماری کو بنیاد بنا کر سعودی بادشاہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی اُسے نامزد کر دیں۔ محمد بن سلمان کو خدشہ ہے کہ اگر شاہ سلمان کی وفات ہو جاتی ہے تو شاہی خاندانی قواعد و ضوابط کے مطابق بادشاہ کا چناو ہوگا، جس میں ممکن ہے کہ محمد بن سلمان کا بھائی بادشاہ بن جائے یا شہزادہ نائف بھی خاندان میں اچھا خاصا اثر و رسوخ رکھتا ہے، وہ بھی آگے آسکتا ہے۔ محمد بن سلمان چاہتے ہیں کہ سعودی عرب میں جو جی ایٹ کا اجلاس ہونا ہے، اس میں محمد بن سلمان بطور بادشاہ ہی شریک ہوں۔ لیکن ابھی شاہ سلمان نے محمد بن سلمان کی خواہش کے مطابق کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا۔
اب اگر شاہ سلمان کو کچھ ہوتا ہے تو محمد بن سلمان جتنے مرضی طاقتور ہوں، ایک مشکل میں پھنس جائیں گے۔ شاہی خاندان میں ایم بی ایس کے مخالفین ایک طرح سے مضبوط لابی بنائے ہوئے ہیں۔ محمد بن سلمان نے اپنے بھائی کو سائیڈ لائن کرنے کیلئے ان کا کورونا ٹیسٹ پازیٹو کرکے انہیں قرنطینہ کیا ہوا ہے۔ وہ ابھی تک اندر ہے۔ شاہی خاندان بھی سعودی عرب میں ہونیوالی سیکولر اصلاحات کی وجہ سے محمد بن سلمان سے نالاں ہے جبکہ سعودی عرب کا مذہبی طبقہ جن میں مکہ اور مدینہ منورہ کے متولین اور انتظامیہ شامل ہے، وہ ایم بی ایس کیلئے نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ پرنس نائف بھی واضح اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیت ہیں۔ شہزادہ نائف کی وجہ سے بھی شاہی خاندان تقسیم ہوچکا ہے۔ ایم بی ایس نے آرامکو کے شیئرز بھی فروخت کئے اور اس حوالے سے پیسے وصول کئے۔ سعودی عرب کا مذہبی طبقہ اور حکمران طبقہ پہلی بار آمنے سامنے ہے۔
سعودی عرب میں جوا خانے، سینماز، ڈانس کلب کھلنے سے مذہبی طبقہ ایم بی ایس سے نالاں ہے، جبکہ ایم بی ایس مزید اصلاحات کرکے ملک میں سیکولر نظام نافذ کرنے کے خواہاں ہیں۔ ایم بی ایس چاہتے ہیں کہ وہ عیاشی کیلئے یورپ یا امریکہ نہ جائیں بلکہ یورپ و امریکہ کی تمام سہولتیں انہیں سعودی عرب میں ہی میسر ہوں، جبکہ مذہبی طبقہ اس ساری جدیدیت کیخلاف ہے۔ محمد بن سلمان مذہبی طبقے کی مخالف کی وجہ سے کافی پریشان ہیں۔ اس موجودہ صورتحال میں ایم بی ایس کو اپنے اقتدار کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اگر خدانخواستہ شاہ سلمان کا وقت پورا ہو جاتا ہے اور وہ انہیں دنوں دنیا چھوڑ جاتے ہیں تو پیچھے ایم بی ایس کا اقتدار بھی ساتھ لے جائیں گے۔ شاہی خاندان میں اختلافات اتنے زیادہ بڑھ چکے ہیں کہ ان کی وفات کیساتھ ہی شاہی خاندان میں فسادات پھوٹنے کا قوی اندیشہ ہے۔ محمد بن سلمان اس وقت اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہے ہیں۔ وہ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ شاہ سلمان انہیں بادشاہ نامزد کر دے۔
بعض واقفان حال کہتے ہیں کہ محمد بن سلمان کی اصلاحات سے شاہ سلمان بھی نالاں ہیں، مگر انہوں نے اس ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ انہیں توقع نہیں تھی کہ محمد بن سلمان اس طرح ملک میں بے ہودہ اور غیر اسلامی ثقافت کو فروغ دیں گے۔ سعودی شاہی خاندان عیاش ضرور ہے لیکن وہ اسلامی اقدار کو بھی ساتھ ساتھ قائم رکھنا چاہتا ہے، لیکن ایم بی ایس نے ان اقدار کو بری طرح پامال کیا ہے۔ محمد بن سلمان کی ان اصلاحات سے سعودی عوام بھی پریشان ہیں، جبکہ سعودی عرب میں روایتی سخت گیری سے تنگ خواتین کے بھاگ جانے کے واقعات نے بھی سعودی معاشرے کی شدت پسندی کو بے نقاب کیا ہے۔ متعدد لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر دوسرے ملکوں میں پناہ لے چکی ہیں۔ اس حوالے سے رہف محمد القنون کو خاصی شہرت ملی تھی، جو اپنے اہلخانہ کے مبینہ تشدد اور بڑی عمر کے آدمی کیساتھ زبردستی شادی کرائے جانے کی کوشش پر سعودی عرب سے بھاگ کر کینیڈا میں پناہ لے چکی ہے۔
ایسی بہت سی لڑکیاں سعودی عرب سے فرار ہو کر مختلف یورپی ممالک میں پناہ لے چکی ہیں، لیکن ان کو میڈیا پر کوریج نہیں ملی، یا وہ ایسی شہرت نہیں پا سکیں، جو رہف محمد القنون کے حصے میں آئی۔ سعودی عوام یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کو یہ حوصلہ ایم بی ایس کی پالیسیوں کی بدولت ملا ہے۔ اس کے علاوہ محمد بن سلمان کے حالیہ دور میں سعودی عرب معاشی طور پر بھی کافی کمزور ہوا ہے۔ سعودی عرب کے وزیر افرادی قوت و سماجی بہبود انجینئر احمد الراجحی نے نجی سیکٹر کے نو تجارتی شعبوں میں غیر ملکی ملازمین پر پابندی کا شیڈول جاری کر دیا۔ وزارت افرادی قوت کے مطابق فیصلے پر عملدرآمد کیلئے ڈیڈ لائن 20 اگست مقرر کی گئی ہے، اس دوران وزارت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ مقررہ مہلت کے دوران منع کیے جانیوالے شعبوں میں غیر ملکیوں کی جگہ سعودی کارکنوں کو متعین کیا جائے۔ سعودی حکومت اپنے شہریوں میں بیروزگاری کے خاتمے اور انہیں روزگار کے زیادہ سے زیاددہ مواقع فراہم کرنے کیلئے سعودائزیشن کی مہم پر عمل پیرا ہے۔
وزارت افرادی قوت و سماجی کی جانب سے نئے فیصلے کے مطابق قہوہ، چائے، شہد، چینی، مصالحہ جات، پانی، مشروبات، پھل، سبزیاں اور کھجوریں فروخت کرنے کا کام صرف سعودی شہری کریں گے، غیر ملکی ملازمین کو ان میں سے کسی بھی کام کیلئے ملازم نہیں رکھا جائے گا۔ جس انداز میں شاہی خاندان کی دہائیوں پرانی روایات اور پالیسیوں کو روندتے ہوئے محمد بن سلیمان نے ولی عہدی پر قبضہ کیا تھا، اس کے بعد اس کی ذاتی بقا کا مسئلہ بھی جنم لے چکا تھا۔ اس سلسلے میں پوری دنیا کی نامی گرامی سرمایہ دار مشاورتی کمپنیوں کیساتھ مل کر ’’ویژن 2030ء‘‘ کے نام سے ایک بھونڈا نجکاری اور نجی سرمایہ کاری کا پروگرام تشکیل دیا گیا۔ عالمی معاشی بحران، سکڑتی سرمایہ کاری، سعودی عرب کی تکنیکی پسماندگی، تیل کے علاوہ کسی اور صنعت کے بنیادی لوازمات کی عدم موجودگی اور بڑھتے ہوئے عالمی انتشار کے نتیجے میں کھربوں ڈالر مالیت کا پروگرام دیوانے کا خواب ہے، جو دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔
شاہی خاندان میں سیاسی مخالفین کو کنارے لگانے، علاقائی اور عالمی مداخلتوں میں شدید ناکامی، معاشی ابتری اور عوامی بغاوت کے خوف نے شاہی خاندان میں شدید دراڑیں ڈال دی ہیں۔ نوجوان اور ناتجربہ کار شہزادے پرتعیش زندگیوں سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے جبکہ بزرگ شہزادے دیوار کیساتھ لگنے پر نالاں ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ سکڑتے مال کی بندر بانٹ کا ہے، جس کی جھلک پچھلے سال شہزادوں اور کاروباریوں پر کریک ڈاؤن میں نظر آئی۔ سیاسی گٹھ جوڑ ہمیشہ محلات کی زندگی کا حصہ رہے ہیں، لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ شاہی خاندان کے افراد کیخلاف کھلم کھلا اقدامات کئے گئے ہوں۔ رپورٹس کے مطابق اس وقت 11 شہزادے، جنہوں نے پچھلے سال اپنے محلات کے اخراجات میں کٹوتیوں پر شاہی محل پہنچ کر احتجاج کیا تھا، ابھی تک ہائی سکیورٹی ہائیل جیل میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ 2015ء سے اب تک ہر سال کوئی نہ کوئی خط یا کوئی اعلامیہ شاہی خاندان کے کچھ افراد کی طرف سے منظر عام پر آجاتا ہے، جس میں کھلم کھلا شہزادہ محمد بن سلمان پر شدید تنقید کرتے ہوئے بغاوت پر اکسایا جاتا ہے۔
21 اپریل 2018ء میں بادشاہ سلمان کے شاہی محل پر حملہ ہوا، جس کا نشانہ ولی عہد تھا۔ اس کے بعد ولی عہد دو ماہ منظر عام سے غائب رہا اور اس وقت عام تاثر یہ تھا کہ وہ شدید زخمی ہوچکا ہے، لیکن ان خبروں کی تردید روس میں فٹبال ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں شہزادے نے نمودار ہو کر کر دی تھی۔ اس طرح کے واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ شاہی خاندان اس وقت تخت یا تختے کی شدید اندرونی لڑائی اور کشمکش میں سے گزر رہا ہے اور یہ ساری صورتحال کسی دھماکے کیساتھ پھٹ سکتی ہے، جس کے اثرات نہ صرف سعودی سماج بلکہ پوری دنیا پر پڑیں گے۔ سعودی عرب کی 65 فیصد آبادی نوجوان ہے۔ ان میں سے بیشتر ایسے ہیں، جو پچھلی چند دہائیوں میں تیل کی دولت کے بل بوتے پر حکومتی اخراجات پر پڑھ لکھ کر اب بیروزگار ہیں۔ سالانہ 2 لاکھ نوجوان محنت کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں، جس کے ایک چوتھائی سے زائد خواتین ہیں۔ یہ طبقہ بھی حکومت کی معاشی پالیسیوں سے نالاں ہے۔ ان کی وجہ سے عوام سطح پر بھی ایک تحریک پنپ رہی ہے، جو موقع ملتے ہی لاوے کی طرح پھٹ پڑے گی۔ یہی وہ تحریک ہوگی، جس کو شاہی خاندان سے ہی قیادت ملے گی اور یہ ایم بی ایس سمیت موجودہ شاہی خاندان کے اقتدار کی کشتی کو غرقاب کر دے گی۔