-
ایرانی صدر کا تاریخی دورہ دمشق
- سیاسی
- گھر
ایرانی صدر کا تاریخی دورہ دمشق
384
m.u.h
09/05/2023
0
0
تحریر: علی احمدی
ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی ان دنوں شام کے دورے پر ہیں۔ ان کے ہمراہ ایک اعلی سطحی حکومتی وفد بھی ہے اور یہ دورہ شام کے صدر بشار اسد کی دعوت پر انجام پایا ہے۔ یہ دورہ ایسے وقت انجام پایا ہے جب خطے کے اکثر عرب ممالک نے بھی شام سے متعلق اپنی خارجہ پالیسی میں یوٹرن لینا شروع کر دیا ہے۔ شام میں طویل عرصے تک تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی سرگرمیوں اور اس کے مکمل خاتمے کے بعد اب دھیرے دھیرے خطے کے حالات معمول پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ایرانی صدر کا دورہ دمشق خطے پر حکمفرما اس نئی فضا میں انجام پایا ہے جو کچھ عرصہ قبل ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے پر مبنی معاہدہ انجام پانے کے بعد معرض وجود میں آئی ہے۔
اس معاہدے کے فوراً بعد سعودی عرب اور شام کے درمیان تعلقات میں بھی بہتری آنا شروع ہو گئی اور خطے میں امریکہ کی فوجی موجودگی میں کمی کی باتیں بھی سننی میں آ رہی ہیں۔ اسی وجہ سے شام پر اسرائیل کے جارحانہ اقدامات میں بھی تیزی آئی ہے اور صیہونی حکمرانوں کا دعوی ہے کہ وہ ان حملوں کے ذریعے شام میں موجود ایرانی مراکز کو نشانہ بناتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حساس حالات میں ایرانی صدر کا دورہ ان اسٹریٹجک ایشوز پر کیسے اثرانداز ہو گا اور آیا اس دورے میں ایسے پیغامات پائے جاتے ہیں جو اب تک منظرعام پر نہیں آئے؟ ایران کے سابق سفارتکار اور بین الاقوامی امور کے ماہر سید ہادی سید افقہی اس بارے میں کہتے ہیں: "وزارت خارجہ کے مطابق اس دورے کا اہم ترین مقصد شام کی تعمیر نو میں ایران کی شراکت داری ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ اس دورے میں شام اور ایران کے درمیان 20 سال یا شاید اس سے بھی زیادہ طویل المیعاد قومی اسٹریٹجک دستاویز پر بھی دستخط ہوں گے۔ مزید برآں، ایسے معاہدے بھی انجام پائیں گے جو ایران، چین اور روس کے درمیان انجام پانے والے معاہدوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ سید ہادی سید افقہی نے کہا کہ اس دورے میں ایران اور روس کی جانب سے شام اور ترکی کے درمیان صلح کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے نتائج پر بھی غور کیا جائے گا۔ اسی طرح شام اور ترکی کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کیلئے ایران کی جانب سے کچھ امور کی پیشکش بھی کی جائے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایرانی صدر کے حالیہ دورے میں شام میں ایک بندرگاہ اور آئل ریفائنری کی تعمیر کے بارے میں بھی بات چیت انجام پائے گی۔
شام کے رکن پارلیمنٹ خالد العبود نے بھی اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "ایران اور شام کے درمیان تعلقات اب دو اتحادی ممالک کے درمیان روایتی تعلقات جیسے نہیں رہے بلکہ تہران دمشق تعلقات مختلف قسم کے مراحل سے عبور کرنے کے بعد اب بہت زیادہ ترقی کر کے وسعت اختیار کر چکے ہیں۔" انہوں نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا: "ایران اور شام کے درمیان تعلقات دو سطح پر تشکیل پائے ہیں۔ ایک طرف دو حکومتوں کے درمیان تعلقات ہیں جو مختلف سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور حتی سماجی شعبوں میں نظر آ رہے ہیں۔ ان تعلقات کی روشنی میں وسیع پیمانے پر معاہدے بھی انجام پا چکے ہیں۔ دوسری طرف ایران اور شام کے درمیان تعلقات کی ایک اور سطح درپیش خطرات کے مقابلے میں مشترکہ طور پر دفاع کرنے پر مشتمل ہے۔ ماضی میں ایران پر جارحیت کے دوران شام نے اس کی مکمل مدد اور حمایت کی تھی۔"
خالد العبود نے مزید کہا کہ گذشتہ چند برس کے دوران ایران نے انتہائی مشکل حالات میں شام کی حمایت کی اور اسے اپنی قومی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے میں مدد فراہم کی۔ انہوں نے کہا: "ایران خطے میں سلامتی اور استحکام کا خواہاں ہے۔ لہذا خطے کے تمام ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات چاہتا ہے اور شام کے ساتھ دیگر عرب ممالک کے اچھے تعلقات کا خیرمقدم بھی کرتا ہے۔ یہ ٹھیک وہی کردار ہے جو تہران نے دمشق انقرہ مذاکرات میں ادا کیا ہے۔" شام کے سیاسی تجزیہ نگار محمد کمال الجفا نے ایرانی صدر کے دورہ شام کے بارے میں کہا: "ایران کے ساتھ شام کے تعلقات اس وقت استوار ہوئے جب ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا اور شام نے ایران پر صدام حسین کی جارحیت کے دوران ایران کی بھرپور مدد کی۔ اس وقت مرحوم حافظ اسد نے تمام عرب حکومتوں کے برخلاف ایران کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔"
محمد کمال الجفا نے مزید کہا: "ایران نے ہر قسم کے سیاسی اور مذہبی رجحانات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیشہ سے فلسطین میں سرگرم تمام اسلامی مزاحمتی تنظیموں کی بھرپور حمایت اور مدد کی ہے۔ مسئلہ فلسطین کے بارے میں ایران اور شام کا موقف خطے کے باقی ممالک سے مکمل طور پر مختلف اور منفرد ہے۔ لہذا ایران کی جانب سے اسلامی مزاحمتی گروہوں کو مضبوط بنانے کا کام شام کے تعاون سے انجام پایا ہے اور یہ تعاون سیاسی، فوجی، سکیورٹی، مالی اور لاجسٹک جیسے تمام شعبوں میں جاری رہا ہے۔ شام میں خانہ جنگی شروع کروانے کا اصل مقصد بھی ایران کی حامی حکومت ختم کر کے ایران کو اسلامی مزاحمت اور مسئلہ فلسطین کی حمایت سے پیچھے ہٹانا تھا۔ لیکن ایران نے اپنی پوری طاقت سے شام کا دفاع کیا اور ایسے وقت جب پوری دنیا شام حکومت سے منہ پھیر چکی تھی ایران نے اس کی حمایت اور مدد کی۔