-
ایران، چین اور روس کے باہمی تعاون سے ابھرتا نیو ورلڈ آرڈر
- سیاسی
- گھر
ایران، چین اور روس کے باہمی تعاون سے ابھرتا نیو ورلڈ آرڈر
525
M.U.H
23/01/2022
0
0
تحریر: ہادی محمدی
امریکہ سمیت مغربی ممالک ابتدا سے ہی ایران میں حجت الاسلام والمسلمین ابراہیم رئیسی کے ممکنہ برسراقتدار آنے سے شدید پریشان تھے۔ ان کی اس پریشانی کی بنیادی وجہ ان کا یہ یقین تھا کہ حجت الاسلام والسلمین ابراہیم رئیسی کی سربراہی میں تشکیل پانے والی نئی ایرانی حکومت انہیں بھتہ دینے پر حاضر نہیں ہو گی اور ان کی جانب سے جاری شدید اقتصادی اور سیاسی دباو کے سامنے ڈٹ جائے گی۔ نئی ایرانی حکومت کی جانب سے ملکی اور علاقائی سطح پر موثر اقتصادی پالیسیاں تشکیل دینے، ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھرپور تعلقات اور چین، شنگھائی اور یوریشیا جیسی اہم اقتصادی طاقتوں کے ساتھ تعاون بڑھانے پر مبنی حکمت عملی محض اقتصادی شعبے میں ہی افادیت کی حامل نہیں بلکہ سیاسی، سکیورٹی اور عالمی شعبوں میں بھی بہت اچھے نتائج کی حامل ہے۔
عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مضبوط رکھنے کیلئے آج امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے اپنائے جانے والا اہم ہتھکنڈہ اقتصادی پابندیوں پر مشتمل ہے۔ یہ ہتھکنڈہ جو زیادہ تر ڈوبتے ہوئے شخص کا ہاتھ پاوں مارنے سے شباہت رکھتا ہے، دنیا میں مالی اور اقتصادی سیٹ اپس کے غلط استعمال پر استوار ہے۔ امریکہ اور مغربی طاقتوں نے ایران، چین اور روس کے خلاف یہ ہتھکنڈہ بروئے کار لایا ہوا ہے۔ حجت الاسلام والمسلمین ابراہیم رئیسی کی سربراہی میں نئی ایرانی حکومت نے مختلف اقدامات کے ذریعے اس ہتھکنڈے کو تقریباً ناکارہ بنا دیا ہے۔ ایران نے چین کے ساتھ 25 سالہ اسٹریٹجک معاہدہ کیا ہے جس کے بارے میں امریکہ، مغربی ممالک اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے ایک ساتھ گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
دوسری طرف ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ روس نے اس پزل کو مکمل کرتے ہوئے ایران چین تعلقات کی طرح ایران روس تعلقات کو بھی اہم تاریخی موڑ پر لا کھڑا کیا ہے اور یوں ان علاقائی طاقتوں کے درمیان تعلقات اور باہمی تعاون کا ایک نیا باب شروع ہو گیا ہے۔ ابراہیم رئیسی کی سربراہی میں ایرانی حکومت کا یہ اقدام محض رجحانات پر مبنی ون وے روڈ نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر ورلڈ آرڈر میں رونما ہونے والی بنیادی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ اس وقت عالمی نظام ایک متزلزل صورتحال کا شکار ہے اور اس میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ امریکہ اور اس کے بعض مغربی اتحادی ممالک چین اور روس کے خلاف شدید تناو پر مبنی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان مقابلے کی فضا بن چکی ہے۔
مغربی ایشیا میں جنگ پھیلانے کی پالیسیوں کی طرح امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے یہ اقدامات بھی علاقائی اور عالمی سکیورٹی کیلئے شدید خطرہ بنے ہوئے ہیں اور انہوں نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ البتہ امریکہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ کسی بھی براہ راست اور بڑی جنگ میں شمولیت کا نتیجہ ایسے بھاری اخراجات کی صورت میں ظاہر ہو گا جو امریکہ کی زوال پذیر ہوتی معیشت میں تابوت کا آخری کیل ثابت ہو گا۔ لہذا وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کر کے عالمی سطح پر اپنی حریف طاقتوں کو مرعوب اور خوفزدہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے چین اور روس کے ساتھ اقتصادی تعاون اعلی حد تک لے جانے کا مقصد اقتصادی پابندیوں کے حربے کو ناکام بنا کر امریکہ کے دانت کھٹے کرنا ہے۔
اگر ویانا میں جاری جوہری مذاکرات میں بھی امریکہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا ہے تو وہ بھی اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں نیز ایران سمیت حریف طاقتوں سے امریکہ کے تنازعات کی نوعیت نے علاقائی اور عالمی سطح پر نئے اتحاد ابھر کر سامنے آنے میں مدد فراہم کی ہے۔ ان تشکیل پانے والے نئے اتحادوں کے باعث امریکہ کے دوہرے ہتھکنڈے غیر موثر ہوتے جا رہے ہیں۔ روس اور چین کے ساتھ ایران کے تعلقات، جو اقتصادی پہلو کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اور اسٹریٹجک پہلووں پر بھی مشتمل ہیں، نیو ورلڈ آرڈر کی بنیادوں کو ظاہر کرنے والے ہیں۔ ماسکو میں ایرانی صدر حجت الاسلام والمسلمین ابراہیم رئیسی کا بے نظیر اور پرتپاک استقبال، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ ان کے خصوصی اور لمبے مذاکرات اور روسی حکام کے ساتھ مذاکرات کے اہم نتائج امریکہ اور مغربی ممالک کیلئے بہت اہم پیغام لئے ہوئے ہیں۔
ٹھیک اسی طرح یمنی مجاہدین کے ہاتھوں یمن، عراق، شام، فلسطین، مصر، سوڈان اور لیبیا میں مجرمانہ اقدامات انجام دینے پر متحدہ عرب امارات کو سزا دیے جانا بھی امریکہ، برطانیہ اور غاصب صہیونی رژیم کیلئے واضح پیغام رکھتا ہے۔ اگر امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل یمن کی دلدل سے نجات کا راستہ جارح سعودی اتحاد کی حمایت اور مظلوم یمنی عوام پر ظالمانہ حملوں میں مزید شدت لانے میں محسوس کرتا ہے تو اسے اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ اس حمایت کا نتیجہ نہ صرف یمن کی جانب سے بلکہ پورے اسلامی مزاحمتی بلاک کی جانب سے دیا جائے گا کیونکہ اماراتی ایجنٹس امریکہ اور غاصب صہیونی رژیم کے مفادات کی تکمیل کیلئے عراق اور دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں۔ امارات اور ریاض کو اپنے مجرمانہ اقدامات کا بھاری تاوان ادا کرنے پڑے گا اور یہ خطے میں ایران اور اسلامی مزاحمت کی ابھرتی طاقت کا نتیجہ ہے۔