ڈاکٹر اسلم جاوید
ہما چل پردیش کے بعد اب گجرات اسمبلی انتخابات کی ہمہ ہمی ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ، وزیر اعظم نریندر مودی اورتقریبا ساری بی جے پی نے ہی اس اسمبلی انتخاب کو اپنے وجود، اپنی انا اور بقا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ بی جے پی اور مرکزی حکومت کی سرگرمیوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت ساری مرکزی سرکار گجرات میں منتقل ہوچکی ہے اوربی جے پی کوئی قومی پارٹی نہیں بلکہ آر جے ڈی، سماجو ا دی پارٹی اورپی ڈی پی کی طرح گجرات کی ایک مقامی جماعت ہے، لہذاکسی بھی صورت میں اسے گجرات کا میدان فتح کرنا ہے۔ اگر کسی وجہ سے گجرات ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو اسے بی جے پی شاید برداشت نہیں کرسکے گی اور اس کی یہ ہارمرکزی حکومت کیلئے کش مکش اورا لجھن کی بے شمار گتھیاں پیدا کردے گی، جسے سلجھاتے سلجھاتے باقیماندہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا اوراس طرح عوام کے درمیان اٹھنے والے سوالات کا حل تلاش کرنا بھی پارٹی کیلئے ٹیڑھی کھیر بن جائے گا۔ اس منظر نامہ اور بے قراری میں ایسا لگتا ہے کہ صوبہ کے مو جو دہ سیاسی حالات اب بی جے پی کے لئے اتنے ساز گار نہیں ہیں ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست میں کوئی تیسری متبادل سیکولر سیاسی قوت بھی موجود نہیں ہے۔
دو مرحلوں پر محیط انتخابی عمل میں 9اور14دسمبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور 18دسمبر کو نتائج کا اعلان کیا جائیگا۔ ان انتخابات کی خصوصیت یہ ہے، چونکہ وزیر اعظم نریندر مودی اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر امیت شاہ کے علاوہ آدھا درجن سے زیادہ مرکزی وزراء کا تعلق گجرات سے ہی ہے۔ اس لئے ان انتخابات کے نتائج کا ان کے سیاسی کیریر اور مرکزی حکومت کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونا لازمی ہے۔ بی جے پی کسی بھی حال میں گجرات کو کھونا نہیں چاہتی لہذا وہ ہر اس حربے کو اختیار کررہی ہے جس سے عوام پر اس کی گرفت برقرار رہے اور مخالف پارٹی کو سر اٹھانے کا بھی موقع نہ مل سکے۔ مگر اس ساری مہم میں جوباتیں کھل کر نظر آ رہی ہیں وہ ہے کرپشن اور وکاس کا مدعا۔ عجیب بات ہے کہ جس پارٹی نے بدعنوانی کیخلاف نعرے بازیوں اور ’وکاس‘ کے ایجنڈے پر مرکز میں ناقابل تسخیر کامیابی حاصل کی تھی آج تین برس کی قلیل مدت میں ہی بد عنوانی اور وکاس جیسے ایشوز اس کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں ۔
عین اس وقت جب ریاست میں اسمبلی انتخابات کا بگل بجنے ہی والا تھا پارٹی کے قومی صدر امت شاہ کے بیٹے جے شاہ کا اسکینڈل سامنے آ گیا، جس میں نوٹ منسوخی کے بحرانی دور میں اپنی ڈوب چکی کمپنی کودوبارہ کھڑا کرلینے اور غیر معلوم طریقے سے املاک میں سولہ ہزار گناکا اضافہ جیسا اسکیم میڈیاکی نظروں میں آ گیا۔ اسی درمیان جب انتخابی مہم شروع ہو چکی تھی ریاست کے وزیر اعلی وجے روپانی پرانکم ٹیکس محکمہ کے ذریعہ 15لاکھ کا جرمانہ عائد کردیا گیا۔ یہ سارے معاملے حکومت کی املاک میں خورد برد اور بے ضابطگی سے تعلق رکھتے تھے، لہذا ان سارے واقعات کے ساتھ بی جے پی بدعنوانی کو انتخابی ایشو بنانے میں ناکام ہوگئی۔ علاوہ ازیں ریاست میں سوچھیہ بھارت جیسے اہم منصوبوں میں ناکامی اور اس کے نفاذ سے عدم دل چسپی نے وکاس کے خوبصورت مدعے کو بھی پارٹی کے ہاتھوں سے چھین لیا۔ کہا جارہا ہے کہ بی جے پی کو ریاست کے عوام نے بائیس برس تک حکومت کرنے کا موقع دیا، اس کے باوجود وہاں عوام میں جاری بے چینی اور ان کے مطالبے کو پورا نہیں کیا جاسکا۔ یہ سارے حالات بی جے پی کے خلاف جارہے ہیں ، لہذا گزشتہ دنوں ریاست کے اسمبلی انتخابات میں ایک بار پھر فرقہ وارانہ کشیدگی کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کی سازش کا خدشہ پیدا ہوگیا۔
ریاستی دارالحکومت احمد آباد کے کچھ علاقوں سمیت گودھرا اور دیگر مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کے گھروں پرکراس کے نشان والے پوسٹرز چسپاں کئے گئے، جس کے بعد اقلیتوں میں خو ف و ہراس پھیل گیا اورآج حالت یہ ہے کہ کشیدگی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ مسلمانوں نے ان پوسٹروں کے متعلق ضلع انتظامیہ کو آگاہ کردیا۔ حکمراں جماعت بی جے پی کا کہنا ہے کہ گجرات میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کی یہ سازش ہے، جبکہ الیکشن کو فرقہ وارانہ خطوط پر جیتنے کیلئے بی جے پی پر بھی اسی طرح کے الزامات عائد کئے گئے ہیں ۔
دریں اثنا مسلمانوں کے گھروں پر لگائے گئے نشانات پر سیاست بھی تیز کردی گئی ہے حالانکہ ضلع انتظا میہ نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے اور احمد آباد میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں ۔ الیکشن کمیشن نے بھی مسلمانوں کے گھروں کو ہدف بنانے کی کارروائی کا سخت نوٹس لے لیا ہے۔ بی جے پی نے کانگریس پرنشانات چسپاں کرنے کا الزام لگایاہے۔ آر ایس ایس کے ایک لیڈر راکیش سنہا نے بھی کہا کہ کراس کا نشان لگانا کانگریس کی پرانی سیاست ہے۔ انہوں نے گزارش کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کو اب ہندو اور مسلمان کے درمیان فاصلہ بڑھانے سے گریز کرنا چاہئے۔ مگر جولوگ ریاست کے ہندو ووٹروں کی نفسیات سے واقف ہیں انہیں یہ بات ماننی ہوگی کہ گجرات میں فرقہ واریت کی بنیاد پر اقتدار تک پہنچنا سب سے زیادہ آسان ہے۔ اسی تفرقہ بازی کی بنیادپر وزیر اعظم نریندر مودی یہاں تین بار وزیر ا علیٰ رہ چکے ہیں ۔ یہ حالات اسی جانب اشارے کرتے ہیں کہ نشانات چسپاں کرنے کا یہ کھیل کس نے کیا ہوگا؟
اسی درمیان کانگریس پارٹی ان کے سامنے کھڑی ہے، جو گزشتہ 20 سالوں کی طویل مدت کے بعد مکمل جذبہ اور خود اعتمادی کے ساتھ پہلی بار ریاست میں بی جے پی کیخلاف تال ٹھوک رہی ہے، لیکن کانگریس پارٹی کے سامنے کئی چیلنجز ہیں ۔ گجرات میں بی جے پی 20 سال سے لگاتار اقتدار میں ہے۔ ریاست کے شہری علاقوں پر ان کی بہت گہری پکڑ ہے۔ نیم شہری علاقوں میں بھی بی جے پی ایک مقبول پارٹی سمجھی جاتی ہے۔ بی جے پی کیلئے مثبت بات یہ ہے کہ حکومت میں طویل مدت تک رہنے کہ باوجود اس کے حامیوں میں کوئی کمی نہیں آ ئی ہے۔ گجرات کو ہندتوا کی لیبارٹری کہا جاتا ہے۔ ریاست میں بی جے پی حکومت اور ہندوتوا کے نظریے پرکا م کرنے کا الزام وہاں کی انتظامیہ پر عالمی برادری کی جانب سے بھی لگایا جاتا رہا ہے۔
ریاستی حکومت نے ہمیشہ ہندوتوا کو ترقی سے جوڑ کرعوام کے سامنے پیش کیا ہے جو گجرات کے غیر سیکولرووٹروں کی پسند بھی ہے۔ بی جے پی اوروزیر اعظم نریندر مودی ووٹروں کو یقین دلانے میں کامیاب رہے ہیں کہ کانگریس ہندومخالف جماعت ہے جو مسلمانوں کے فائدے کے لئے کام کرتی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی نے بڑی کامیابی کے ساتھ اس منصوبہ کا استعمال کیا تھا۔ گجرات میں مسلمانوں کے تئیں ہندوؤں میں نفرت واضح طور پر نظر آتی ہے۔ یہاں خفیہ ویڈیو پیغامات لوگوں کو بھیجا جارہا ہے جن میں ووٹروں کو احساس دلایا جاتا ہے کہ اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو مسلمان ان پر جارحانہ طریقے سے حملے کریں گے اور ان کی بہن بیٹیاں یہاں محفوظ نہیں رہیں گی، المیہ یہ ہے کہ ہندو رائے دہندگان کا ایک بڑا حصہ بی جے پی کے اس پرو پیگنڈ ے پر یقین رکھتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گجرات کے ’’عام جن ‘‘کے اندر پیدا کئے گئے اس زہر کو ختم کرنے میں کانگریس پارٹی کتنی کامیاب ہوسکے گی۔ اگر چہ حالیہ وقت میں گجرات سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ کا نگریس کے حق میں ہیں ، مگر عام ہندو ووٹروں میں پھیلائی گئی غلط فہمی کو چند دنوں میں دور کرنا کسی بھی طاقت یا پالیسی سازوں کیلئے آسان کام نہیں ہے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)