وقاص چودھری
امریکی سینیٹ نے ایٹمی ہتھیاروں کی لانچنگ کے لئے متعین کمانڈر کو امریکی صدر کی جانب سے ایٹمی ہتھیار چلانے کے لئے موصول ہونے والے غیر قانونی احکامات کو مسترد کرنے کا اختیار دیا ہے۔وجہ یہ ظاہر کی جا رہی ہے کہ صدر ٹرمپ کسی بھی وقت ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا آرڈر جاری کر سکتے ہیں۔ گذشتہ 41 سالوں کے دوران پہلی مرتبہ کانگریس نے امریکی صدر کے ایٹم بم چلانے کے اختیارات کے حوالے سے سماعت کی، جس میں قانون سازوں کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حال ہی میں شمالی کوریا کے خلاف سامنے آنے والے بیانات کے بعد وہ یہ اقدام اٹھانے پر مجبور ہوئے۔
امریکی ریاست میساچیٹس سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ کے سینیٹر اور سینیٹ کمیٹی برائے خارجہ امور کے رکن ایڈ مارکے کا کہنا تھا کہ جتنا لوگ اس (ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات) کے بارے میں سوچیں گے، اتنا ہی انہیں یہ احساس ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایٹمی جنگ کا آغاز کر سکتے ہیں۔ ڈیمو کریٹ سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور سینیٹر جینی شاہین کا کہنا تھا کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق صدر کے اختیارات پر سوال نہیں اٹھانا چاہتیں، تاہم وہ یہ چاہتی ہیں کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی ٹوئٹر پوسٹ کے مطابق عمل نہ کریں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اہم اعلانات کرکے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے مشیروں کے مشورے کے بغیر بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ سینیٹر شاہین نے کہا کہ امریکی صدر کے اس عمل سے ہی مسائل پیدا ہوئے اور سینیٹ پینل اس سماعت کے لئے مجبور ہوا۔ امریکی ایئرفورس کے سابق جنرل روبرٹ کہلر نے سینیٹ پینل کو یقین دلایا کہ ایٹمی حملہ کرنے کے لئے ایک قانونی طریقہ کار موجود ہے اور اگر صدر اس طریقہ کار کی پیروی نہیں کریں گے تو اس صورت میں نیوکلیئر کمانڈ ان کے حکم کو مسترد کرسکتی ہے۔
تاہم جنرل کہلر نے رپبلکن اور ڈیموکریٹ کے سینیٹرز کی جانب سے سینیٹ کو ایٹمی حملہ کرنے کے فیصلے میں شامل کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو سرد جنگ کے زمانے کے مقابلے میں موجودہ دور میں زیادہ پیچیدہ سکیورٹی مسائل اور غیری یقینی کی صورتحال کا سامنا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ کو جن سکیورٹی خطرات کا سامنا ہے، وہ مختلف ہیں جو ہماری دہلیز پر فوری طور پر آسکتے ہیں، جو انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں چھوٹے ہتھیاروں سے لیکر مخالف عالمی رہنماؤں کے ہاتھوں میں ایٹمی ہتھیاروں تک ہے۔
لیکن یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ رواں عرصہ میں تیسری عالمی جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا۔ یہ سوال بار بار مغرب کی جانب سے اچھالا جا رہا ہے۔ یہ تیسر ی عالمی جنگ کن ممالک کے مابین ہوگی، یہ الگ سے سوال ہے۔ دانشوروں کا کہنا ہے کہ تیسری جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اور یہ جنگ مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ اسلام کے خلاف ہے، کیونکہ عالمی حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح نظر آتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی فتح کا دعویٰ کرنے والے ولکیس نے تیسری عالمی جنگ شروع ہونے کے بارے میں تاریخ کا بھی تعین کر دیا ہے، جس کی وجہ سے دنیا میں اس موضوع پر ایک بحث چھڑ گئی ہے۔ اس بارے میں کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کی شام سمیت شمالی کوریا کے بارے میں پالیسیاں غیر واضح ہیں، تاہم اندیشہ بڑھ رہا کہ کبھی عالمی جنگ کا آغاز ہو جائے گا۔
ولکیس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ یہ جنگ پانچ ماہ جاری رہنے کے بعد 13 اکتوبر کو اختتام پذیر ہو جائے گی۔ تیسری عالمی جنگ کے بارے میں امریکہ کے ایک تھنک ٹینک ہنری کسنجر بھی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ ہنری کسنجر سابق امریکی صدر رچرڈنکسن کے دور میں امریکہ کے وزیر خارجہ رہے ہیں، ان کا صیہونی لابی سے بہت قریب کا تعلق ہے۔
ایک اخباری نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بے دھڑک کہا ہے کہ جنگ کا بگل تو بج گیا ہے، اگر کسی کو اس کی صوت سنائی نہیں دیتی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بہرہ ہے۔ انہوں نے تیسری عالمی جنگ کا جو نقشہ کھینچا ہے، اس کے مطابق اسرائیل کا اصل ہدف ایران ہے، جبکہ شام کی آڑ لے کر امریکہ روس اور چین کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے۔
علاوہ ازیں اسرائیل اور امریکہ مشرق وسطٰی کی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہیں اور اس کھیل میں دنیا کو چین اور روس کے بارے میں ایک جھوٹا احساس دلانے میں مبتلا ہیں۔ تاہم امریکہ کے اس اقدام سے اس کے اتحادی بھی پریشان نظر آرہے ہیں، خاص طور پر یورپی یونین کے ممالک اور وہ ایک عظیم یورپ کے خواب میں مبتلا ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ تیسری جنگ کے زمانے میں دنیا کے سب وسائل پر قابو حاصل کرکے دشمن کو ان وسائل سے محروم رکھ کر شکست سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔
تیسری عالمی جنگ کے مقاصد کیا ہیں، سابق امریکی وزیر خارجہ کے مطابق تیسری عالم گیر جنگ کے بعد دنیا پر ایک ہی سپر پاور کی حکومت ہوگی اور نصف سے زیادہ مشر ق وسطٰی پر اسرائیل کی حکومت قائم ہو جائے گی اور یہ سپر پاور دنیا کو ایک نیا نظام دے گی۔
جہاں تک مشرق وسطٰی کے بارے میں اسرائیلی عزائم کی بات ہے تو وہ تو واضح ہیں، لیکن در پردہ یہ اقتصادی جنگ نہیں ہے بلکہ نظریاتی جنگ ہے، جس کی پشت پر مذہبی نظریات پوشیدہ ہیں، عیسائیت میں ہے کہ ان کا نیا پیغمبر تب ظہور کرے گا، جب فلسطین اور اس کے گرد و نواح جو نصف مشرق وسطٰی کے برابر علاقہ ہے، وہاں صیہونیوں کی حکومت ہوگی اور دنیا میں ایک ہی سپر پاور کی حکومت کا تصور عیسائیت اور صیہونیوں میں بھی ہے۔
دنیا میں ان باطل نظریات کے مقابلہ کے لئے ان کو ایک ہی قوت نظر آتی ہے، وہ اسلامی قوت ہے اور اس کو ختم کرنے کے لئے دہشت گردی کے نام پر جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے، جس کا سب سے بڑا ثبوت افغانستان پر دنیا کے سب سے خطرناک بم کا تجربہ ہے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دُنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے، جس کے نتیجے میں مسلمان راکھ میں تبدیل ہو جائیں گے، تیسری عالمی جنگ کا آغاز ایران سے ہوگا اور اسرائیل زیادہ سے زیادہ عرب مسلمانوں کو قتل کرکے آدھے مشرقِ وسطٰی پر قبضہ کر لے گا، اسٹرٹیجک اہمیت، تیل اور دوسرے اقتصادی وسائل کی وجہ سے اسرائیل سات عرب ممالک پر قبضہ کرے گا۔ ذرائع کے مطابق طویل خاموشی کے بعد اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ اپنی حماقتوں کی وجہ سے چین اور روس کسی قابل نہیں رہیں گے اور امریکہ اور اسرائیل یہ جنگ جیتیں گے۔
صہیونی ریاست کو خبردار کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنی پوری طاقت اور ہتھیاروں کے ساتھ یہ جنگ لڑنا ہوگی، امریکہ اور یورپ کے نوجوانوں کو گذشتہ دس سال سے پوری طرح تربیت دی جا رہی ہے اور جب ان کو حکم دیا جائے گا۔ وہ پاگلوں کی طرح لڑیں گے اور حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مسلمانوں کو تباہ کر دیں گے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل نے روس اور ایران کے لئے تابوت تیار کر لئے ہیں اور ایران اس کے لئے آخری کیل ثابت ہوگا، تیسری عالمی جنگ کے بعد دُنیا میں صرف ایک سپر طاقت کی حکومت ہوگی اور وہ ہے امریکہ۔ حالانکہ شام اور عراق میں داعش کی شکست کے بعد حقیقت اس کے بالکل برعکس دکھائی دے رہی ہے۔
ہنری کسنجر چونکہ خود بھی یہودی ہیں، اِس لئے مسلمانوں کے خلاف تو انہوں نے اپنا خُبثِ باطن بھی ظاہر کر دیا ہے اور باطنی ارادے بھی سامنے لے آئے ہیں، اسرائیل کی توسیع پسندی کی پالیسیاں تو نہ پہلے کسی سے ڈھکی چھپی تھیں اور نہ آج ہیں۔ مشرقِ وسطٰی کے قلب میں اسرائیل کا خنجر اِسی مقصد کے لئے پیوست کیا گیا تھا۔ اسرائیل کا رقبہ ہمسایہ عرب ممالک کے علاقوں پر قبضے کے بعد وسیع ہوا اور کئی عرب مُلک سکڑ کر رہ گئے۔
البتہ مصر نے امریکہ کی معاونت سے اپنے وہ علاقے واپس لے لئے ہیں، جن پر اُس نے جنگِ رمضان میں قبضہ کر لیا تھا، اِس جنگ میں مصر کا پلڑا شروع میں اسرائیل پر بھاری تھا، لیکن جب امریکہ نے دیکھا کہ اسرائیل پوری طرح دباؤ میں ہے تو وہ سارے حجاب بالائے طاق رکھ کر اسرائیل کی حمایت میں خم ٹھونک کر میدان میں آگیا اور یوں جنگ کا پانسہ اسرائیل کے حق میں پلٹ گیا۔
یہاں تک کہ اُس وقت کے مصری صدر انور السادات کو کہنا پڑا کہ وہ اسرائیل سے تو لڑ سکتے ہیں، لیکن امریکہ کا مقابلہ کرنا اُن کے مُلک کے بس میں نہیں۔ چنانچہ مصر کو اپنے علاقے واپس لینے کے لئے اسرائیل کے ساتھ اس کی شرائط پر تعلقات قائم کرنے پڑے اور بعد میں وہ اِس راستے پر ایسا چلا کہ فلسطین کی ناکہ بندی کے دوران مصر کے ساتھ ملنے والا وہ راستہ بھی بند کر دیا، جس کے ذریعے فلسطینیوں کو ہنگامی امداد پہنچائی جا سکتی تھی۔
ہنری کسنجر نے تیسری عالمی جنگ سے مسلمانوں کو خوفزدہ کرکے دراصل اسرائیلی توسیع پسندی سے ہی پردہ اُٹھایا ہے، چونکہ کئی عشروں سے اسرائیل پر کسی عرب مُلک نے براہِ راست حملہ نہیں کیا اور فلسطینی اپنی لڑائی تنِ تنہا اپنے ہی انداز میں غلیلوں اور پتھروں سے لڑنے پر مجبور ہیں، اِس لئے طویل عرصے سے اسرائیل کی سرحدوں کی وسعت پذیری کا عمل رُکا ہوا ہے۔
اِسی لئے ہنری کسنجر نے اسرائیل کو بالواسطہ طور پر یہی مشورہ دے دیا ہے کہ وہ اتنے طویل عرصے سے اپنی سرحدوں کے اندر سمٹ کر کیوں بیٹھ گیا ہے، آگے بڑھے اور جنگ مسلط کرکے سات عرب مسلمان ممالک کے وسائل پر قبضہ کر لے اور اس طرح عملاً تیسری عالمی جنگ شروع کرنے کا باعث بن جائے۔
ایران واحد مُلک ہے، جو اسرائیل کے لئے ڈراؤنا خواب بنا ہوا ہے۔ اگرچہ وہ اسرائیل کا ہمسایہ نہیں اور اس کی سرحدیں بھی اسرائیل سے نہیں ملتیں، لیکن ایران کے میزائل پروگرام نے یہودی رہنماؤں اور اُن کے سرپرستوں کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے سابق صدر اوباما کے دور میں جب طویل سفارتی کاوشوں کے بعد امریکہ اور پانچ دوسرے یورپی ممالک کا ایران کے ساتھ معاہدہ ہو رہا تھا تو اسرائیل کی حکومت اور امریکہ کے اندر اسرائیلی لابی نے اس معاہدے کو رکوانے کی پوری کوشش کی تھی۔
یہاں تک کہ کانگرس کے 57 ارکان نے ایرانی صدر حسن روحانی کو ایک خط لکھ دیا تھا، جس میں اُن سے کہا تھا کہ وہ خود ہی اِس معاہدے سے پیچھے ہٹ جائیں، ورنہ اگلا امریکی صدر برسر اقتدار آکر یہ معاہدہ منسوخ کر دے گا۔ صدر اوباما نے تو کانگرس سے کسی نہ کسی طرح ایران کے ساتھ ہونے والا معاہدہ منظور کرا لیا تھا، لیکن جب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہیں، وہ وقت بے وقت اپنی اسرائیل نوازی کا مظاہرہ کرنے سے نہیں چوکتے اور معاہدہ منسوخ کرنے کی دھمکیاں بھی دیتے رہتے ہیں۔ انہوں نے فلسطین کی آزاد و خود مختار ریاست کا آپشن بھی اسرائیلی رہنماؤں کے دباؤ میں آکر ختم کر دیا ہے اور دوسرے مصالحانہ طریقوں سے مسئلہ فلسطین حل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
اسے تاریخ کی ستم ظریفی ہی کہا جائے گا کہ ایک زمانے میں جب فلسطینیوں اور ان کے حامی عرب ممالک سے کہا جاتا تھا کہ وہ اسرائیل اور فلسطین دو آزاد خود مختار ریاستوں کا تصور قبول کر لیں تو فلسطینی اور عرب ممالک نے یہ پیشکش مسترد کر دی تھی، آج اگر فلسطینی یہ حل مانتے ہیں تو اسرائیل طاقت کے زعم میں اسے مسترد کر دیتا ہے، کیونکہ امریکہ نے اسے فوجی لحاظ سے اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ کوئی عرب مُلک اسرائیل پر حملہ کرکے اُسے ختم کرنے کا تصور نہیں کرسکتا۔
حقیقت میں یہ خواب بھی سب سے پہلے غیر عرب مُلک ایران نے دیکھا، جس کے سابق صدر احمدی نژاد یہ تک کہہ گزرتے تھے کہ اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اسرائیل، ایران سے لرزہ براندام رہتا ہے اور یہودی دانشور ہنری کسنجر کو بھی ایران ہی خواب میں ڈراتا ہے، اِسی لئے ان کا خیال ہے کہ اسرائیل ایران کو تباہ کر دے گا، ممکن ہے یہ ہنری کسنجر کی خواہش ہو، جسے انہوں نے اپنی دانشوری میں لپیٹ کر دُنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ کیونکہ دُنیا کے بہت سے مسلمان روشن خیال حکمران اُن کی سیاسی بصیرت سے متاثر ہیں اور روشن خیال اعتدال پسندی کا تصور بھی اُنہی کی دانش کا مرہونِ منت ہے۔
تیسری عالمی جنگ کب ہونی ہے، یہ تو عالمی حالات اور عالمی رہنماؤں کی بصیرت پر منحصر ہے، لیکن ہنری کسنجر نے مسلمانوں کو خبردار کر دیا ہے کہ اسرائیل اُنہیں تباہ کر دے گا، اِس لئے اب مسلمان حکمران بھی آنکھیں کھولیں اور آپس کی لڑائیوں اور تنازعات کو فراموش کرکے اور خیر باد کہہ کر آئندہ کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں، ورنہ اسرائیل کے جو عزائم ہیں، اُن سے تو ہنری کسنجر نے پردہ اُٹھا ہی دیا ہے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)